داستانِ محبت — ندا ارشاد

ساتواں باب
شہر سے ہٹ کر ایک عالی شان فارم ہائوس کے لائونج میں ایک خفیہ میٹنگ ہورہی تھی۔ سربراہ کا چہرہ غصے سے لال تھا اور ماتحت مسلسل لب کاٹ رہا تھا۔
”سر آپ میری بات سمجھنے کی کوشش تو کریں۔”
”کیا سمجھوں میں… ہا ں بتائو مجھے۔”
”سر وہ عام لوگ نہیں ہیں۔ آغا حسین عالم کے تعلقات بہت وسیع ہیں۔ ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔
”او اپنی بکواس بند کرو۔ تم جانتے بھی ہو تم کس سے یہ بات کہہ رہے ہو؟ میں شعیب خان ہوں، میرے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔”
”سر میں سمجھتا ہوں، میرے سارے آدمی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں’ مگر ”فارمولا بیج” کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ میرے خیال سے بڈھا نہیں جانتا کہ وہ کدھر ہے۔” صداقت نے عاجزی سے کہا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے شعیب خان کے لیے کام کررہا ہے’ مگر کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ اسے بہت سنبھل کر قدم رکھنا پڑتا تھا۔ آغا حسین عالم اپنے بیٹے کی موت کے بعد کسی قدر چوکس ہوگئے تھے۔ وہ صرف اپنے بہت قریبی اور پرانے لوگوں پر بھروسا کرتے تھے۔ صداقت کے آدمی پچھلے کئی سالوں سے یہ بھروسا کمانے کی کوشش کررہے تھے۔




”مجھے کوشش نہیں ”فارمولا بیج” چاہیے۔ سنا تم لوگوں نے۔” میں مفت کی تنخواہ نہیں دیتا۔ پہلے اس ڈاکٹر نے ناک میں دم کیے رکھا۔ کتنا سمجھایا تھا اسے میں نے’ مگر اس کے سر پر تو ملک کی ترقی کا بھوت سوار تھا۔ ایسے ملک اور قوم نے اسے کیا دیا ”موت” اگر وہ میرا ساتھ دیتا’ تو آج مالا مال ہوتا… مگر اسے مرنا پسند تھا’ تو ہم نے اس مروا دیا۔ اب وہ ”فارمولا بیج” Rawکو چاہیے اور وہ لوگ میری جان کو آئے ہوئے ہیں۔ انہیں ہر صورت میں یہ فارمولا بیج چاہیے اب وہ مزید انتظار نہیں کرسکتے۔
”سر آپ فکر نہ کریں۔ میں نے اپنے دو آدمی ان کے گھر ملازم رکھوا دیے ہیں۔ وہ بڈھے کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر اسے کچھ بھی پتا ہوگا’ تو ہمیں فوراً پتا چل جائے گا۔”
”یہ آخری موقع ہے تمہارے پاس، مجھے ہر صورت میں مثبت نتائج چاہئیں وہ کہہ کر اُٹھ گئے ۔”
٭…٭…٭
بات اس وقت کی ہے جب شعیب خان اور جہاں زیب عالم پاکستان ریسرچ لیبارٹریز (پی۔ آر۔ ایل) میں بطور سائنس دان کام کرتے تھے۔ شعیب خان جہاں زیب کا سینئر تھا’ مگر وہ اس بات کو بہ خوبی جانتا تھا کہ جہاں زیب ان سے کہیں زیادہ قابل ہے۔ شعیب خان کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ زندگی میں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترستے ہوئے اس کے اندر دولت کی چاہ بڑھ گئی تھی۔ دولت کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے ملک کے ساتھ دغا بازی شروع کردی تھی۔ اپنی ایجنسی کے اہم ترین راز اس نے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی RAW کو بھیجنے شروع کردیے تھے۔ اس کے گھر دولت کے انبار لگ چکے تھے’ مگر دولت پانے کے ساتھ ساتھ اس کا لالچ بھی بڑھتا گیا تھا۔ جب سے اسے پتا چلا تھا کہ جہاں زیب ایک خفیہ پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہونے والا ہے تب سے اس نے جہاں زیب کے ساتھ مراسم بڑھا لیے تھے۔ جہاں زیب شعیب کو اپنا بڑا بھائی اور استاد مانتے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے فارمولا بیج تیار کرلیا وہ اسے شعیب کے پاس ری ٹیسٹ کرانے لائے تھے۔ شعیب نے ٹیسٹ کیا’ تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ جہاں زیب نے اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر چیز تیار کرلی تھی۔ انہوں نے فارمولا بیج تیار کرلیا تھا جس کی ایجاد ابھی سائنس دانوں کے لیے خواب سی تھی۔ وہ ایسا بیج تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جو ہر موسم میں فصل تیار کرسکتا تھا۔ ایسا بیج جو کسی ملک کی زرعی پیداوار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دے سکتا تھا۔ اس بیج کی مدد سے کسان طبقے کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوتیں اور ملک پاکستان کا نام ایک بار پھر سے دنیا بھر میں روشن ہو جاتا اور اگر یہ ”فارمولا بیج” RAW کے ہاتھ لگ جاتا’ تو شعیب کا گھر دولت سے بھر جاتا۔ اسے تا عمر کام کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ انڈین ایجنسی نے اس فوراً فارمولا بیج کے حصول کا آرڈر دے دیا تھا۔ شعیب خان نے جہاں زیب کو سمجھانے کی بہت کوشش کی’ مگر جہاں زیب نے اس کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا۔ الٹا وہ شعیب کو سمجھانے لگے تھے۔ جب شعیب خان نہ مانا’ تو جہاں زیب کو بہت دکھ ہوا۔ جسے وہ مخلص دوست سمجھتے تھے وہی آستین کا سانپ نکلا تھا۔ انہوںنے شعیب خان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے شروع کردیے تھے۔ انہیں دھمکی بھری کالز موصول ہوتیں اور پھر انہیں ان کے گھر آکر بھی دھمکایا گیا’ مگر انہوں نے وطن سے غداری کے بجائے موت کو گلے لگانا پسند کیا تھا۔ مرنے سے پہلے وہ فارمولا بیج اور شعیب خان کے اکٹھے کیے گئے تمام ثبوت ایسی جگہ چھپا گئے تھے کہ بیس سال گزر جانے کے بعد بھی وہ شعیب کے ہاتھ نہ لگ سکے تھے۔
٭…٭…٭
جب سے وہ اسلام آباد واپس آیا تھا۔ وہ بے حد ڈسٹرب تھا۔ الوداع کہتے وقت اس نے غرنیق کی بادامی آنکھوں میں جو جل تھل دیکھی تھی وہ اس کے دل کو بھگو گئی تھی۔ اب وہ بادامی آنکھیں اسے ہر طرف نظر آنے لگی تھیں۔ کبھی ان میں شرارت نظر آتی’ تو کبھی معصومیت، کبھی سادگی نظر آتی’ تو کبھی سنجیدگی، ان آنکھوں میں اس کے لیے غصہ بھی تھا اور بے پناہ محبت بھی، اسے محبت سمجھ آنے لگی تھی۔ محبت میں چھپا وہ پرلطف درد اب اسے بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ یہ درد اس قدر پرلطف ہوتا ہے کہ انسان اس کا مزہ اٹھانے کے لیے نیند کو بھی اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔ مہرداد کا دل بھی اس درد سے محظوظ ہورہا تھا۔ اس کا دل نرم پڑ گیا تھا۔ بالکل موم کی طرح اسے ہر محبت میں اپنی محبت نظر آنے لگتی۔ اس کا دل چاہتا وہ دو بادامی آنکھیں ہر وقت اس کے تعاقب میں رہیں۔ محبت کو لے کر جو ڈر تھا وہ اس کے دل سے جارہا تھا۔ محبت اسے بہادر بنا رہی تھی۔ فاصلے کبھی کبھی دلوں کو جوڑ دینے کا سبب بھی بنا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہورہا تھا۔ محبت کا ”م”۔ ”ح” اور ”ب” تواس پر آشکار ہوچکے تھے مگر محبت کا ”ت” جو محبت کی اصل میراث ہے وہ ابھی باقی تھا۔ داستان محبت کا کچھ حصہ بیت چکا تھا اور کچھ ابھی باقی تھا۔
٭…٭…٭
”آخر تم اس قدر مغرور کیوں ہو؟ کیا تمہیں میں پسند نہیں۔”
”سنو مسٹر اکڑو۔ مجھے دیکھ کر جب تم یوں غصہ کرتے ہو’ تو قسم سے بڑے ہی اپنے اپنے سے لگتے ہو۔” کمرے میں مکمل اندھیرا تھا اور رونلڈ کے دماغ میں ماضی کے واقعات کسی فلم کے مانند چل رہے تھے۔ سینڈی کی ان حرکتوں پر وہ چڑا کرتا تھا’ مگر جب سے اسے مونٹی کی پلاننگ کے بارے میں معلوم ہوا تھا یہ چڑ بھی ختم ہوگئی تھی۔ اب صرف ایک جذبہ تھا جو روز بروز اس کے اعصاب پر سوار ہورہا تھا۔
”سنو مسٹر اکڑو اتنی بھی ایگو اچھی نہیں ہوتی۔” بلیک کھلے ٹرائوزر اور بلیو ٹی شرٹ کے اوپر بلیک کوٹ پہنے وہ ایک ادا سے بولی تھی۔ وہ ہمیشہ ہی سے ایسا لباس پہنتی تھی۔ اس کا جسم ڈھانپا ہوا ہوتا تھا۔ مونٹی سے دوستی سے قبل وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والی لڑکی تھی جو بزنس کی مین میخ سے بہ خوبی واقف تھی اور اپنے اسٹاف سے بھی پرفیکشن کی اُمید رکھتی تھی۔ اس نے کبھی کوئی پروجیکٹ مس نہیں کیا تھا۔ ہارنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ رونلڈ کے معاملے میں بھی وہ ہار کر جیت گئی تھی۔ اس کی ایک ایک بات کو یاد کرتے ہوئے وہ پاگل ہورہا تھا۔
وہ ویلن ٹائن ڈے پر کس قدر حسین لگ رہی تھی اور اس سے بڑھ کر اس کا اندازِ بیاں خوب صورت تھا۔ رنگ برنگ چھتریوں کے نیچے اِنہیں رنگوں میں سجی سینڈی اس کے دل کو بھائی تھی’ مگر اس بات کا ادراک اسے اب ہوا تھا۔ داستانِ محبت کا یہ کردار اپنے آپ میں ایک سوال سا، کچھ باکمال سا، کچھ لازوال سا تھا۔
رونلڈ کے دن اور راتیں سوگوار گزر رہی تھیں۔ سینڈی چلی گئی تھی اور پیچھے اپنی بے شمار یادیں چھوڑ گئی تھی۔ رونلڈ کی بے قراری روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ آج پھر خواب میں اسے وہی منظر نظر آیا تھا۔ ہر طرف رنگ برنگ چھتریاں تھیں اور انہیں رنگوں سے مزین سینڈی اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اچانک سے منظر بدل گیا ۔ اب ایک بند گلی تھی جس میں اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں وہ سینڈی کو پکار رہا تھا’ مگر وہ اسے نہیں مل رہی تھی۔ ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ وہ پانی پینے کچن میں آگیا تھا۔
”بیٹا اس وقت یہاں کیا کررہے ہو، بھوک لگی ہے کیا؟ موم سی نے اسے پیچھے سے آواز دی تھی۔
نہیں موم سی بس پانی پینے آیا تھا۔ انہوں نے کچن کا بلب آن کیا’ تو اس کا چہرہ دیکھ کر چونک پڑی تھی۔ اس کے ماتھے پر پسینا اور آنکھیں سرخی تھیں۔
”کیا ہوا میرے بچے؟ کیا تم نے پھر سے کوئی بُرا خواب دیکھا۔” وہ متفکر ہو کر بولیں۔
”جی موم سی وہ بس ایک خواب تھا۔ بُرا خواب، بُرے خواب تو سچ نہیں ہوا کرتے ناں؟” اس کا اندازہ خود کو تسلی دینے والا تھا۔
”کیا تم نے پھر اپنے بابا کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔”
”موم سی پلیز! اس شخص کو میرے بابا مت کہیں۔ نہیں ہے وہ میرا باپ۔”




”یوں انکار کرنے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ تم نام بدل کر خود کو دھوکا دے سکتے ہو’ مگر سچائی کو جھٹلا نہیں سکتے۔ تم سیف اللہ رحمن تھے، ہو اور رہو گے۔ خود کو غیرمسلم ثابت کرنے سے نہ تمہاری اصل شناخت بدلے گی اور نہ ہی تمہارا دل۔ وہ دل جو ایک مسلمان کاہے جو اسلام سے محبت کرتا ہے اور ایک دن یہ محبت تمہاری ہر نفرت کو مٹا دے گی۔” وہ تحمل سے بول رہی تھیں اور نام سے رونلڈ پکارے جانے والے سیف اللہ رحمن کو طیش آرہا تھا۔
”اسلام… اسلام… کس مذہب کی بات کرتی ہیں آپ۔ آخر دیا کیا ہے آپ کو اس مذہب نے۔ سوائے رسوائی اور ذلت کے اس مذہب کی خاطر آپ نے اپنا گھر بار چھوڑا’ اپنے والدین چھوڑے اور یہاں تک کہ اپنا شہر بھی چھوڑ دیا۔ ایک ایسے شخص سے شادی کرلی جو کسی لحاظ سے بھی آپ کے قابل نہیں تھا اور پھر ان تمام قربانیوں اور ریاضتوں کا صلہ آپ کو یہ دیا گیا کہ وہ مغرور شخص آپ کو یہ کہہ کر چھوڑ گیا کہ آپ خوب صورت نہیں ہو اور نہ ہی آپ اس کے معیار کی ہو۔ کیوں کہ آپ ایک نومسلم تھی۔ یہ کیسا معیار تھا اس گھٹیا شخص کا۔ کیا یہ سکھاتا ہے آپ کا مذہب؟ کیا وہ خوب صورتی کا پرچار کرتا ہے؟ ایسے ہوتے ہیں اسلام والے؟ یوں دوسروں کو کپڑوں کی طرح استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں اور پھر مڑ کر خبر نہیں لیتے۔ میں نہیں مانتا ایسے مذہب کو اور نہ ہی اس شخص کو جس نے آپ کی زندگی اجیرن کردی۔”
”سیف! یہ تم کیا بول رہے ہو۔ تم نے ایسی باتیں کرکے میرے دل کو تکلیف دی ہے۔ میری ساری خوشیاں تو تم سے ہیں اور مسلمان ہونے پر ہی تم مجھے انعام کی شکل میں اللہ سے ملے ہو۔ میرے بچے اللہ ہمیشہ اپنے پیاروں ہی کا امتحان لیتا ہے’ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہمت ہار جائیں۔ مایوسی کفر ہے اور تم ایسی باتیں کرکے ناامید ہورہے ہو۔ اللہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ ایک شخص کے اعمال کی وجہ سے تم اسلام کو جج نہیں کرسکتے۔ میں اللہ پاک سے صرف یہ دعا مانگتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں ہدایت کا فرشتہ بھیج دے جو تمہیں مایوسیوں کی دلدل سے نکال کر امید کے روشن باغ میں لے آئے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ ایک ماں کی دعا ضرور سنے گا۔”
یہ اس وقت کی بات ہے جب کرسٹینا ویلبر ہائی اسکول و کالج کی تعلیم مکمل کرکے یونیورسٹی آف امریکہ میں داخلہ ملنے پر کیلی فورنیا سے نیو یارک آئی تھی۔ کرسٹینا ویلبر کا تعلق سیاہ فام طبقے سے تھا۔ سیاہ فام ہونے کے باوجود وہ متاثر کن شخصیت کی مالک تھی۔ پھر یونیورسٹی میں اس کی ملاقات خدیجہ عبدالرحمن سے ہوئی۔ شروع شروع میں سب کی طرح اسے بھی ہر وقت اسکارف باندھ کر رکھنے والی خدیجہ سے چڑ تھی’ مگر سیاہ فارم ہونے کی وجہ سے اس کے ہم جماعت اسے بھی بلانا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب سفید فام لوگ سیاہ فام کے پاس کھڑا ہونا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے۔ سب سے دور ہوکر وہ خدیجہ کے قریب ہوگئی۔ آہستہ آہستہ اسے خدیجہ پسند آنے لگی۔ وہ خدیجہ کی ہر بات اور طور اطوارغور سے دیکھنے لگی۔ خدیجہ حرام گوشت نہیں کھاتی تھی۔ وہ لڑکوں کے ساتھ بات چیت سے بھی حتی المقدور گریز کرتی تھی۔ اس کا لہجہ دھیما سا دل کو چھو جایا کرتا تھا اور پھر نہایت ہی غیرمخصوص انداز میں وہ خدیجہ کی ہر عادت اپناتی چلی گئی اور پھر وہ دن بھی آ پہنچا جب اس نے قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے باقاعدہ اسلامی سینٹر جانا شروع کردیا۔ پھر اسے اندازہ ہوا وہ خدیجہ سے نہیں درِپردہ اسلام سے متاثر تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ اس کا یہ فیصلہ اس کی زندگی میں طوفان برپا کردے گا’ مگر اسے اللہ پر پورا بھروسا تھا اور یہی بات خدیجہ نے بھی اس سے کہی تھی۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا مطلب ہے کہ ہم سب کا ایمان ایک پل کے لیے بھی نہ ڈگمگائے۔ اگر وہ خدا پر یقین رکھیں ‘ تو سب کچھ سہل ہو جائے گا۔




کرسٹینا سے عائشہ بننے کے بعد اس نے اپنے خاندان سے رابطہ بہت کم کردیا تھا۔ وہ فی الحال اس بات کو راز رکھنا چاہتی تھی’ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کے ایک رشتے دار نے اسے خدیجہ کے ساتھ اسلامک سنٹر سے نکلتے دیکھ لیا تھا۔ اِسی بات پر اس کے گھر طوفان کھڑا ہوگیا اور ڈیڈی اسے لینے آرہے تھے۔ اسلامک سینٹر ہی میں اس کی ملاقات عبدالرحمن بن عوف سے ہوئی۔ عبدالرحمن کا تعلق عراق سے تھا اور وہ کسی رئیس گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ رحمن کا خواب تھا کہ وہ اپنے ریسٹورنٹس کی چین بنائے جو پوری دنیا میں پھیل جائے ‘مگر اس کے خاندان والے راضی نہ تھے۔ نتیجتاً وہ لڑ جھگڑ کر امریکہ آگیا اور یہاں کچھ سرمایہ جمع کرکے اپنا چھوٹا سا ہوٹل کھول لیا ۔ عبدالرحمن بھی شکل و صورت میں کسی ہیرو سے کم نہ تھا اور عائشہ اُسے دل ہی دل میں پسند کرنے لگی ‘ مگر اس کے باوجود اس نے خود کو روک رکھا تھا۔ یہ تو اس وقت کی بات تھی جب عائشہ نے نیا نیا اسلام کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ اسلام کو گہرائی سے جاننے کے بعد وہ کسی نامحرم کا تصور بھی اپنے لیے گناہ سمجھتی تھی۔ اپنے والد کی آمد کی خبر ملنے پر وہ بے حد پریشان ہوئی۔ خدیجہ نے بہت سوچ کر اسے مشورہ دیا کہ وہ کسی مسلمان سے نکاح کرلے کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ محفوظ ہو جائے گی۔ عبدالرحمن بن عوف کا ویزا ان دنوں ختم ہونے والا تھا۔ اسے ہر صورت امریکہ رہنا تھا۔ عائشہ سے شادی کی صورت میں اس کا یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جاتا۔ اس کے لیے یہ سودا بُرا نہیں تھا۔ خدیجہ نے جب اس سے مدد مانگی’ تو اس نے انکار نہیں کیا اور یوں عائشہ، عائشہ عبدالرحمن بن کر عبدالرحمن بن عوف کے فلیٹ میں آگئی۔ عبدالرحمن کے ساتھ اس نے ازدواجی زندگی کے دو سال گزارے۔ اس دوران اس کے گھر والوں نے اس سے ہر تعلق توڑ ڈالا۔ شادی کی پہلی رات ہی عبدالرحمن نے عائشہ کو بتا دیا کہ وہ اس کے خوابوں کی شہزادی بالکل نہیں ہے اور وہ اس رشتے کو جب تک نبھا سکا تب تک نبھائے گا۔ اپنے محبوب شوہر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر کئی آنسو عائشہ کے دل پر گرے تھے’ مگر اس نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ نکاح کے بول ہی ایسے ہوتے ہیں یہ تو قابل نفرت شخص کو بھی قابل محبت بنا دیتے ہیں۔ پھر عبدالرحمن کی تو بات ہی الگ تھی۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد اس کے ہاں سیف اللہ کی پیدائش ہوئی۔سیف اللہ شکل و صورت میں بالکل عبدالرحمن کی کاپی تھا۔ عائشہ کو اللہ نے سیف کی صورت میں نوازا۔ اور وہ اس نوازش پر پھولی نہیں سماتی تھی۔ اس کی زندگی میں سیف کی آمد اس کے لیے جینے کے نئے بہانے لائی اور اس کا دل اللہ کی رحمت کا معترف ہوگیا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب عبدالرحمن بن عوف نے اس کے سامنے طلاق کے پیپر رکھتے ہوئے اسے اپنی عراق واپسی کا بتایا۔ عبدالرحمن کے خاندان والے اس کا ہر مطالبہ ماننے کو تیار تھے اور اسے واپس بلا رہے تھے۔ عائشہ کو بہت پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہوچکاتھا کہ اس شخص کی رفاقت دائمی نہیں ہے، لہٰذا وہ ذہنی طور پر اس ستم کے لیے بھی تیار تھی، مگر اس نے عبدالرحمن سے درخواست کی کہ وہ اسے طلاق نہ دے۔ وہ طلاق یافتہ کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی اور نہ ہی اسے مزید کسی نئے سہارے کی ضرورت ہے۔ اس کے پاس سیف اللہ کی صورت میں سب کچھ ہے۔ عبدالرحمن نے عائشہ کی بات مان لی اور ایک معقول رقم سیف کی دیکھ بھال کے لیے دے کر وہ اپنے ہر فرض سے سبکدوش ہوگیا۔
٭…٭…٭
غرنیق کے لیے حارث خان کا رشتہ آیا تھا۔ لالہ صاحب نے سوچنے کے لیے وقت تو مانگا تھا’ مگر وہ اس رشتے کے حق میں تھے۔ انہیں بس غرنیق کی رائے جاننا تھی۔ غرنیق نے لالہ صاحب سے کہا تھا کہ فی الحال اسے تھوڑا وقت دیں۔ اس نے اس بارے میں سوچا نہیں ہے حالاں کہ اس نے سوچا تو بہت تھا’ مگر اس کی ہر سوچ میں کسی اور شخص کا گزر بسر تھا۔ چند روز کا وہ مہمان اس کے دل کا مستقل مالک بن بیٹھا تھا۔ محبت اس قدر زور آور جذبہ ہے کہ وہ اپنا آپ منوا ہی لیتی ہے۔ وہ اس سنگ دل کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ اس کے علاوہ کسی اور کو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کاش اسے احساس ہوتا کہ وہ کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر بھی اسی کا نام لے گی۔ وہ اکثر سوچتی کہ محبت اس کی زندگی میں امتحان بن کر داخل ہوئی ہے۔ اسے ایک ایسے شخص سے محبت ہوئی جسے محبتوں پر یقین نہ تھا۔ وہ محبتوں سے دور بھاگا کرتا تھا۔ شاید اس کے دل میں میرے لیے کوئی جذبہ ہی نہیں ہے ورنہ وہ جانے سے پہلے کم از کم ایک اشارہ تو دے جاتا۔ غرنیق سوچ سوچ کر خود کو تھکا رہی تھی’ مگر پھر بھی اسی کو سوچ رہی تھی۔
٭…٭…٭
دل کے دروازوں پر پڑے تالے چاہے جس قدر مضبوط ہی کیوں نہ ہوں۔ محبت کے سامنے زیادہ دیر ٹِک نہیں سکتے۔ محبت تو فتح کا دوسرا نام ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے محبت اپنا آپ منوا کر ہی چھوڑتی ہے۔ مہرداد خود سے مسلسل جنگ کررہا تھا’ مگر کب تک اب وہ تھکنے لگا تھا۔ وہ غرنیق کی محبت سے ہارنے لگا تھا۔ اس کا دل بغاوت پر اتر آیا ۔
محبت تو جگنو کے مانند ہوتی ہے۔ اپنی روشنی سے نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔ مہرداد کی تاریک زندگی میں بھی محبت کے جگنوئوں نے نئی روشنی کرڈالی اور مہرداد کے سارے خوف بھاگ گئے ۔
وہ ایک لڑکی
ساری باتیں وہ دل کی مانے
وہی کرے وہ جو دل میں ٹھانے
کوئی نہ جانے کیا اس کی مرضی
وہ ایک لڑکی
وہ چاہتوں کے سراب دیکھے
محبتوں کے وہ خواب دیکھے
وہ خود سمندر مگر ہے پیاسی
وہ ایک لڑکی
وہ دوستی کے نصاب جانے
وہ جانتی ہے عہد نبھانے
وہ اچھی دوست وہ اچھی ساتھی
وہ ایک لڑکی
وہ جام چاہت کا پینا چاہے
وہ اپنی مرضی سے جینا چاہے
مگر ہے ڈرتی… مگر ہے ڈرتی
وہ ایک لڑکی
محبتوں کا جو فلسفہ ہے
وہ جانتی ہے اسے پتا ہے
وہ پھر بھی رہتی ڈری ڈری سی
وہ ایک لڑکی
وہ جھوٹے لوگوں کو سچا سمجھے
وہ ساری دنیا کو اچھا سمجھے
وہ کتنی سادھی وہ کتنی پیاری
وہ ایک لڑکی
وہ ایک لڑکی
مہرداد کی ڈائری کے صفحات پر لکھی نظم اسے پکار رہی تھی’ مگر داستانِ محبت کے اختتام میں ابھی وقت تھا۔ محبت کا چوتھا حرف ان دونوں پر آشکار ہونا ابھی باقی تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!