چھٹا باب
نہیں… نہیں پلیز! کوئی بچائو مجھے… وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی تھی۔
”کہاں ہوں میں… کون سی جگہ ہے یہ۔” وہ خود سے مخاطب تھی۔ وہ ہسپتال میں تھی اور اُس نے سفید گائون پہن رکھا تھا۔ وہ پریشانی سے یاد کرنے لگی ‘مگر اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں ڈاکٹر روم میں داخل ہوا۔
”اب آپ کیسا محسوس کررہی ہیں مس۔” ڈاکٹر نے اسے جاگتا دیکھ کر پوچھا ۔
”میں ٹھیک ہوں، مگر میں یہاں کیسے آئی، کون لایا تھا مجھے؟” اس نے ایک سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے ۔
”جسٹ ریلیکس، آپ کے سر پر گہری چوٹ آئی تھی اور آپ کے دوست آپ کو یہاں لائے تھے۔ رات کو کسی گہرے شاک کی وجہ سے آپ بے ہوش تھیں۔”
”کیا… آپ کا مطلب میں کل رات سے …”
”جی ہاں! مگر اب آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں آپ کے ڈسچارج پیپر بنا دیتا ہوں۔” ڈاکٹر جانے لگا’ تو اس نے فوراً پوچھا۔
”اور میرے وہ دوست!”
”وہ تو صبح ہی جاچکے۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ آپ کو ہوش آگیا ہے۔ ساری رات وہ کافی پریشان رہے پھر پتا نہیں کیوں آپ سے ملے بنا چلے گئے۔” ڈاکٹر چلا گیا’ تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔
” ایسا کون ہوسکتا ہے۔ کون تھا وہ مسیحا جس نے اس کی آبرو بچائی اور پھر بنا بتائے چلا گیا۔” وہ ریسپشن پر آئی تھی۔
”ایکسکیوز می میں روم نمبر پندرہ کی مریضہ ہوں کیا آپ مجھے میرا داخلہ فارم دکھا سکتے ہیں۔”
”جی ہاں ضرور۔ ”ریسپشنسٹ نے پانچ منٹ میں اسے فارم دے دیا تھا۔ اس نے فارم پر نگاہ ڈالی اور پھر اسے لگا اب وہ کبھی بول نہیں پائے گی۔فارم پر جو نام اس نے دیکھا تھا وہ آخری نام تھا جس کی اسے توقع ہوسکتی تھی۔ وہ نام رونلڈ ویلبر کا تھا۔
٭…٭…٭
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کہیں جا کر ڈوب مرے۔ کیسے ہوگیا یہ سب… کیسے؟ اس سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوگئی؟ کیا وہ کبھی سر اُٹھا کر چل پائے گی۔ وہ رونلڈ کو ذلیل کرنا چاہتی تھی اور خود ذلیل ہوکر رہ گئی تھی۔ قدرت نے اسے طمانچہ مارا تھا اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی تھی۔ اس نے ڈیڈی کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ انہوں نے فوری طور پر پارٹنر شپ توڑ ڈالی ‘مگر وہ مونٹی کا کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ اس کی انا وہ اکڑ سب کچھ مٹی کا ڈھیر بن گیا اور اس ڈھیر پر رونلڈ کی محبت کا پرچم لہرا رہا تھا’ مگر یہ محبت اپنے ساتھ دکھ لائی تھی۔ وہ ضرب لائی تھی کہ سینڈی نے نہایت مشکل فیصلہ کرلیا۔ ایسا فیصلہ جو وہ عام حالات میں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی’ مگر رونلڈ کی محبت نے اسے اس بات پر مجبور کردیا تھا۔ اپنے محبوب کا سکون اسے اپنے چین سے عزیز تھا۔ اس نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
٭…٭…٭
پیارے رونلڈ!
میں تو اس قابل بھی نہیں ہوں کہ تمہارے سامنے آئوں۔ محض ایک شرط جیتنے کی خاطر میں نے بہت گھٹیا حرکتیں کیں۔ ان کے بارے میں سوچتی ہوں’ تو سمجھ نہیں آتی میں اتنا کیسے گر گئی ‘ مگر تم جیسے انسان ہی انسانیت کی معراج ہیں۔ میں نہ تم سے معافی مانگنے کے قابل ہوں اور نہ ہی تمہارا شکریہ ادا کرنے کے۔ تم نے میرے لیے جو کیا مجھے تا عمر یاد رہے گا… میں نے اپنے لیے سزا منتخب کرلی ہے۔ وہ یہ کہ میں ہمیشہ کے لیے تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائوںاور تمہیں بھی سکون نصیب ہو جائے گا۔ ہوسکے’ تو مجھے بُری یاد سمجھ کر بھول جانا۔
سینڈی
وہ جیسے جیسے تحریر پڑھ رہا تھا اس کے ماتھے پر شکنوں کا جال گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ اس دن وہ اپنا موبائل کیبن میں بھول آیا تھا۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ آفس سے لیٹ نکلا اور راستے میں موبائل کے بارے میں یاد آنے پر اسے واپس آنا پڑا۔ اگلے دن چھٹی تھی، اس لیے اس نے سوچا کہ موبائل واپس لے ہی آئے۔ آفس میں اسے غیرمعمولی بات یہ لگی کہ سینڈی کے کیبن کا دروازہ کھلا تھا’ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ اس کی کار باہر کھڑی وہ دیکھ چکا تھا۔ رونلڈ کا ذہن مسلسل اسے کسی خطرے کا احساس دلانے لگا۔ اچانک اس کی نظر مونٹی کے کیبن پر پڑی۔ شیشے کے پار اسے سینڈی جس حالت میں نظر آئی اس کا خون کھول اُٹھا تھا۔ سینڈی کے سر سے خون نکل رہا تھا اور وہ کراہ رہی تھی جبکہ مونٹی شراب کے نشے میں دھت سینڈی کو گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ رونلڈ جانتا تھا کہ مونٹی ایک نہایت ہی گھٹیا انسان ہے اور سینڈی اس کی صحبت میں رہ کر بگڑ گئی تھی۔ ورنہ پہلے وہ آفس میں صرف اپنے کام میں مصروف رہا کرتی تھی۔ فضول بات چیت کے لیے اس کے پاس وقت نہ ہوتا تھا۔ وہ سینڈی کی حرکتوں سے خائف ضرور تھا’ مگر وہ اسے اس حال میں دیکھ نہیں پا یا۔ اس نے دروازہ توڑنا شروع کردیا۔ دروازہ بہت مضبوط تھا۔ اس نے فائر الارم کے پاس موجود سیفٹی باکس کا شیشہ توڑا اور کلہاڑی باہر نکال لی۔ دروازہ توڑ کر جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا’ مونٹی اسے گالیاں دینے لگا۔ اس نے اندھا دھند مونٹی کو مارنا شروع کردیا اور اسے مکوں لاتوں سے مارتا رہا یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔ اُدھر سینڈی خون میں لت پت بے ہوش پڑی تھی۔ وہ اسے لے کر ہسپتال آگیا۔ ڈاکٹر نے اس کی ڈریسنگ کر دی۔ رونلڈ نے ڈاکٹر سے جھوٹ بولا کہ چوٹ اسے میز کی نوک لگنے سے آئی ہے۔ وہ سینڈی کے لیے مزید مصیبت کھڑی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا وہ کسی صدمے کی وجہ سے بے ہوش ہے۔ رونلڈ سے سینڈی کی حالت دیکھی نہ جارہی تھی۔ اسی لمحے اس پر ادراک ہوا جس نے رونلڈ کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔ سینڈی کی بدتمیزیوں کے باوجود وہ اس کے وجود کا عادی ہوچکا تھا۔ وہ اسے تنگ کرتی تھی اور رونلڈ اسے جھڑک دیتا اور پھر خود ہی سے عہد کرتا وہ خوب صورت ہے اور مجھے خوب صورتی سے نفرت ہے۔ وہ خود کو سمجھاتا اور ابھی بھی وہ یہی کررہا تھا۔ ایسے ہی ساری رات بیت گئی۔ جب ڈاکٹر کو وہ بتا کر آیا کہ سینڈی کو ہوش آچکا ہے’ تو اچانک کچھ سوچ کر وہ اسے شیشے کے پار سے دیکھ کر چلا آیا تھا اور اب وہ جاچکی تھی۔ رونلڈ کو یہ تک پتا نہیں تھا کہ وہ اسے کہاں ڈھونڈے اپنے پیچھے اسے تنہا چھوڑ کر وہ حسینہ چلی گئی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔
٭…٭…٭
شام کے نیلگوں سائے چاروں طرف پھیل گئے تھے۔ وہ لان کی سیڑھیوں پر بیٹھی اُداس شام کا حصہ لگ رہی تھی۔ اپنی سوچوں میں گم وہ اردگرد سے بالکل بے نیاز بیٹھی کسی ان دیکھے پہلو پر غور کررہی تھی کہ کوئی اس کے ساتھ آبیٹھا تھا۔
”غرنیق تم یہاں کیوں بیٹھی ہو۔”آج مہرداد نے تکلف کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ آج کی شام اگر وہ اسے اپنوں کی طرح خود سے قریب کرکے مخاطب کر لے گا’ تو زندگی گزارنے میں آسانی ہو گی۔ یہی سوچ کر وہ اس کے پاس چلا آیا۔ کچھ لمحے کچھ یادیں بنانی تھیں اور کچھ بن چکی تھیں۔
”بس یونہی شام کی اُداسی کو محسوس کررہی ہوں۔ آج یہ شام جانے کیوں اُداس ہے۔”
”انسان وقت کو اپنے احساسات کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ اگر وہ خوش ہے’ تو سارا جہاں ہنستا مُسکراتا نظر آتا ہے اور اگر وہ اُداس ہے’ تو اسے سب کچھ بے رونق، روکھا پھیکا سا محسوس ہوتا ہے اور اسے اردگرد کے ماحول سے وحشت ہونے لگتی ہے۔” وہ کیاریوں میں لگے پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
”تو تم اُداس ہو۔”
”ہاں شاید میں تھوڑی سی اُداس ہوں۔” پھر چند لمحوںبعد بولی۔
” آپ نے میری کہانی کیوں نہیں سنی۔” اس نے انتہائی غیرمتوقع بات کی تھی۔ مہرداد نے اس کے چہرے پر نگا ڈالی’ مگر وہاں کوئی تاثر نہیں تھا۔
”ہاں جناب یہ خطا ہے تو بہت بڑی’ لیکن کیا تم مجھے اس کے لیے معاف نہیں کرو گی؟”
”ہرگز نہیں۔” غرنیق کو ڈھیر سارا رونا آرہا تھا۔ دل کہتا تھا کہ چیخوں چلائوں’ مگر اسے روک لوں۔ کہہ دوں کہ اے اجنبی میرے دل میں اُداسیوں کے ڈیرے ڈال کر کہاں جارہے ہو۔ ابھی تو میں نے ہنسنا تھا، گیت گانے تھے، محبت کے ہررنگ سے خود کو رنگنا تھا’ مگر وہ کہہ نہ پائی کیوں کہ اسے مضبوط رہنا تھا۔
”آپ کو پتا ہے مہرداد محبت کیا ہوتی ہے۔”
”محبت… نہیں مجھے نہیں پتا، یہ لفظ شاید میرے لیے نہیں ہے’ مگر پھر بھی میں جاننا چاہتا ہوں کہ محبت کس چڑیاکا نام ہے۔” اس نے سب کچھ وقت کے سہارے چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
محبت صرف ایک لفظ نہیں ہے۔ محبت ایک عظیم داستان ہے۔ ایسی داستان جس میں خواہشیں بھی ہیں اور امنگیں بھی، گیت بھی ہیں اور ترنگیں بھی، بہاریں بھی ہیں اور امیدیں بھی، خوشیاں بھی ہیں اور
اور…؟
اور قرب بھی۔
قرب تو محبت کی ضرورت ہے؟
ہاں محبت قرب بھی ہے، مگر یہ قرب بھی اس قدر دل فریب ہے کہ اسے محسوس کرنے والے خود کو کسی اور ہی دنیا کا باسی تصور کرتے ہیں۔ یہ قرب تو بہت خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ ایسی خوشی دیتا ہے جو تاحیات قائم رہتی ہے۔ محبت تو ایک راگ ہے جسے جتنی بار بجائو اتنی بار ہی یہ دل کو نئے طرز سے چھو لیتا ہے۔محبت آگ ہے، یہ دلوں میں دھیمی دھیمی لو جلا دیتی ہے اور پھر پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔
”تو یہ ہے محبت۔” مہرداد شاید خود سے مخاطب تھا۔
”نہیں یہ نہیں محبت تو بہت وسیع ہے۔ محبت م۔ح۔ب۔ت ان چار لفظوں کا نہیں ان چار کلیوں کا مجموعہ ہے جس نے محبت کے یہ کلیے سمجھ لیے اس نے کل کائنات پا لی۔”
” محبت کے یہ چار کلیے کیا تم مجھے سکھا سکتی ہو؟”
”میں تمہیں سکھا نہیں سکتی البتہ بتا ضرور سکتی ہوں کیوں کہ محبت سیکھی نہیں جاسکتی۔ یہ کلیے تمہیں خود ہی سمجھ آجائیں گے’ مگر صحیح وقت آنے پر۔”
”محبت کا پہلا حرف ”م” موم کو ظاہر کرتا ہے۔ موم سمجھتے ہو ؟”اس نے کہا پھر خود ہی بول پڑی۔
” موم بہ ظاہر ایک عام سا لفظ لیکن اس کے معانی ہرگز عام نہیں ہیں۔ موم کہتے ہیں پگھلنے کو، نرم پڑنے کو، پگھلنا آخر ہوتا کیا ہے۔ کون ہے جو پگھلتا ہے جس کا دل پگھل کر نرم پڑ جاتا ہے وہ کون ہے۔ جس کا قلب موم کی طرح ہو جاتا ہے اتنا پگھلا اتنا نرم کہ ہر ظلم ہر غم اور ہر تکلیف وہ چپ چاپ ہنستے ہوئے برداشت کر جائے۔ کسی کا دکھ اسے اپنا دکھ محسوس ہونے لگے۔” وہ بول رہی تھی۔
”موم بتی جب پگھلتی ہے’ تو قطرہ قطرہ موم بھی گرتی ہے’ مگر وہ موم پگھلنے کے باوجود خود کو سمیٹ لیتی ہے، وہ قطرہ بھی منجمد ہو جاتا ہے۔ موم جس قدر نرم ہے اس قدر ٹھوس بھی، محبت بھی موم جیسی ہوتی ہے جس قدر نازک اور نرم اسی قدر مضبوط اور سخت۔ ایک ماں جو اپنے بچے سے بے پناہ محبت کرتی ہے اس کا دل بے حد نرم اور کومل ہے’ مگر جب کوئی اس کے بچے کو غلط نگاہ سے دیکھے’ تو وہی نرم دل ماں شیرنی کی طرح اپنے بچے کے آگے ڈٹ جاتی ہے۔ اس پر آنچ تک نہیں آنے دیتی۔ اللہ تعالیٰ جو ستر مائوں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اِن پر اس قدر مہربان ہے’ مگر جب جب زمین پر ظلم ہوا تو خدا کا قہر سب کچھ نیست و نابود کرگیا۔”
محبت کا ”ح” حیات جاوداں کو ظاہر کرتا ہے۔ حیات جاوداں سمجھتے ہو؟ اس سے مراد ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے۔ حیات جاوداں حاصل کرنے والے کبھی نہیں مرتے جس طرح ستارے ایک جگہ پر دکھائی دینا بند ہوتے ہیں’ تو کسی دوسری جگہ چمک اُٹھتے ہیں۔ اس طرح محبت کرنے والے بھی اپنے محبوب کے آس پاس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا چاہتے ہیں۔ محبوب سے ذرا سی بھی دوری ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ ”ہمیشگی” یہ مرتبہ یہ طاقت تو صرف اس ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے کیوں کہ وہی ہے جو سارے جہانوں میں سب سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ وہ اپنے محبوب حضرت محمدۖ سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اس محبت کی جیتی جاگتی مثال یہ دنیا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے بھی بہت محبت کرتا ہے۔ اس لیے انہیں اتنی بے حساب نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ہمیشگی کا رتبہ اگر کوئی عطا کرسکتا ہے ‘تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہ یہ رتبہ اسے ہی عطا کرتا ہے جو محبت کی مثالیں دے جائے۔ ایک بہادر فوجی جو اپنے وطن سے بے حد محبت کرتا ہے اتنی محبت کے پاک سرزمین کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پروا تک نہیں کرتا’ تو اللہ اسے شہادت سے نوازتا ہے۔ شہادت جو بلند مرتبہ ہے اور شہید کے زندہ رہنے کی گواہی تو پروردگار نے خود قرآن میں دی ہے۔ پس جس کی محبت سے وہ راضی ہو جائے اسے وہ ہمیشہ کی زندگی سے نواز دیتا ہے اور مہرداد تم جانتے ہو مر کر وہی جیتے ہیں جو جینے کے قابل ہوں۔”
”اب باری آتی ہے محبت کے ”ب” کی۔ محبت کا ”ب” بے حد اہم ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے بہادری کو کسے کہتے ہیں بہادری؟کون ہوتا ہے بہادر کیا تمہیں معلوم ہے؟
وہ کچھ نہیں بولا تھا اسے آج صرف سننا تھا۔
بہادر وہ ہے جو کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی ہمت سے کام لے جس کے اوپر چاہے غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا تکلیفوں کا سیلاب اس پر سے گزر جائے نہ وہ پہاڑ کے نیچے دبے اور نہ ہی سیلاب کے ساتھ بہ جائے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ مشکلات کے سامنے ڈٹ جائے تو یہ بہت جلد بھاگ جائیں گی۔ اسے پتا ہے کہ ہمت زندگی کی اور بزدلی موت کی کنجی ہے۔ زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جب حالات کے شکنجے آپ کے گرد گھیرا تنگ کرلیتے ہیں جو بزدل ہوتے ہیں وہ ایسے مواقع پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں’ مگر بہادر جانتے ہیں کہ اللہ کبھی بھی حوصلے سے بڑھ کر کسی کو نہیں آزماتا وہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ دنیا والے چاہے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیں ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگاتے۔ محبت کرنے والے ایسے ہی بہادر ہوتے ہیں۔ وہ مشکل حالات میں بھی محبوب کا ساتھ نہیں چھوڑے اور ثابت قدم رہتے ہیں۔ زید بن حارث کو کفار نے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ انہیں کبھی جلتے کوئلوں پر لٹایا’ تو کبھی گرم تیل کی کڑاہی میں پھینکا’ مگر ان کے منہ سے صرف احد احد نکلا۔ انہیں اپنے خدا پر پورا یقین تھا۔ انہوں نے دوسروں سے ڈر کر اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدۖ سے محبت کرنا نہ چھوڑی اور پھر ایک دن انہیں کفار کو زید بن حارث کی محبت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ یہ ہے محبت کا ”ب۔”
اور محبت کا ”ت” مہر داد نے بے صبری سے پوچھا۔
محبت کا ”ت” وہ تو ابھی میں خود نہیں سمجھ پائی تو تمہیں کیا بتائوں’ غرنیق مُسکراتے ہوئے بولی تھی۔
”سنو تم جیسی سنجیدہ لڑکی کو یہ ساری باتیں کس نے بتائیں؟”
”ایک پگلی نے۔” وہ کہہ کر اندر چلی گئی۔مہرداد وہیں بیٹھا رہ گیا۔
آج اسے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے تھے اور بہت سوں کے ملنا ابھی باقی تھے۔ داستان محبت کی لکھاری انہیںدیکھ کر مسکرائی تھی۔ مُسکراتی کیوں نہ آخر غرنیق نے اسے بھی خطاب دے ڈالا تھا۔ ”پگلی…”
٭…٭…٭