پانچواں باب
وہ ایک بے حد روشن دن تھا۔ موسم سرما کی مزے دار دھوپ میں وہ ماما کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا تھا۔ ماما سے چھپتا ہوا وہ الماری میں آبیٹھا تھا۔ بابا جانی کمرے میں ٹہل رہے تھے’ مگر ان کی نظر اس پر نہیں پڑی تھی وہ چپکے سے آکر الماری میں گھس گیا تھا۔ بابا جانی ایک فائل کھول کر دیکھتے پھر اسے رکھ دیتے یہ عمل وہ کئی بار دہرا چکے تھے۔ الماری کے پٹ ذرا سے کھلے تھے۔ وہ کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک سے دو لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔
”ڈاکٹر جہاں زیب تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے بتا دو کدھر ہے۔ ”فارمولا بیج” ورنہ تم نہیں بچ پائو گے۔ ان دونوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں بے حد خوف ناک تھی۔ مہر داد ڈر کے مارے بول بھی نہیں پا رہا تھا۔
”تم چاہے جو کچھ بھی کر لو میں تمہیں ”فارمولا بیج” نہیں دوں گا۔ وہ میرے ملک کی امانت ہے۔ وطن پاکستان کے ہر اس کسان کی امانت ہے جو محنت سے حلال روزی کمانے کا خواہش مند ہے۔”
”پاگل مت بنو ڈاکٹر، خوش قسمتی خود چل کر تمہارے دروازے تک آئی ہے اور تم دروازہ نہیں کھول رہے۔” ان میں سے ایک نے نرمی سے کہا تھا۔
”اگر اپنے وطن کے لیے بھلا سوچنا پاگل پن ہے’ تو ہاں ہوں میں پاگل۔ اس ”فارمولا بیج” سے میرے دیس کے کسان بھائی ایسی گندم اُگا سکیں گے جو کسی بھی موسم کا سامنا کرسکتی ہے۔ اب انہیں گندم اُگانے کے لیے موسموں کے تیور،سیاست دانوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میرے ملک کا کسان بھی عزت سے جینے کا حق دار ہے۔”
”ڈاکٹر کیوں ان غریب کسانوں کی خاطر اتنی کروڑوں کی دولت ٹھکرا رہے ہو، تمہیں اتنا نوازیں گے کہ تمہاری سات نسلیں بیٹھ کر کھائیں گی۔” دوسرے شخص نے بھی سمجھانا چاہا تھا۔
”نوازتا تو صرف اللہ ہے۔ اگر وہ چاہے گا’ تو عطا کرے گا۔ وہ چاہے گا’ تو چھین لے گا اور مجھے ایسی نسلوں کی ضرورت نہیں جو محنت کی روزی کے بجائے آرام کو ترجیح دیں۔ محنت کرنے والا تو میرے رب کو بہت عزیز ہے، پھر میں اور میری نسل کیوں نہ اپنے اس پروردگار کو پیارے ہونا پسند کریں۔”
”اس کا مطلب ہے تم نہیں مانو گے۔”
”ہرگز نہیں! تم لوگ چاہے میری جان بھی لے لو میں نہیں مانوں گا۔” انہوں نے سختی سے کہا تھا۔
”تو پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائو۔” یہ کہتے ہی کالے ماسک والے شخص نے ان پر گولی چلا دی تھی اور پھر یکے بعد دیگرے تین گولیاں ماری تھیں۔ تیسری گولی جو ان کے سر کے آر پار ہوگئی’ وہ ان کا کام تمام کر گئی تھی۔ مہرداد خوف کے مارے رو رہا تھا’ مگر دہشت سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ شور سن کر مسز فاطمہ جہاں زیب کمرے میں آئی تھیں جس شخص نے ڈاکٹر جہاں زیب کو گولیاں ماری تھیں اسی نے فاطمہ پر بھی فائر کیا تھا۔ وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی تھیں۔ ماں کو مرتا دیکھ کر وہ الماری سے بھاگ کر باہر نکلا’ مگر ماں نہ بات کررہی تھی نہ بول رہی تھی۔ وہ بس انہیں پکار رہا تھا۔
”ماما، اٹھیں ماما… ماما… ماما… اٹھیں ماما…” وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا تھا۔ یہ حادثہ بچپن ہی سے اس کا تعاقب کرتا آرہا تھا۔ ہر بار خواب میں حادثے کو دیکھ کر وہ دوبارہ پرانے والا الگ تھلگ مہرداد بن جایا کرتا تھا۔
کمرا مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ آغا حسین عالم اپنی راکنگ چیئر پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ چہرے کی جھریوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا تھا۔ آج بھی وہ دن یاد کرکے وہ آب دیدہ ہو جاتے، جب وہ ہنستے مسکراتے گھر کو اجڑا ہوا دیکھنے کے لیے واپس آئے تھے۔ وہ بزنس کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے تھے۔ جہاں زیب پر حملے کی خبر ملتے ہی وہ واپس آئے ‘ مگر انہیں آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی۔ ان کا فرماں بردار بیٹا اور بہو اس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جاچکے تھے۔ وہ شاید اس غم کی تاب نہ لا پاتے اگر ان کے پاس زندہ رہنے کی وجہ نہ ہوتی’ تو مہرداد ان کا مہر ان کے زندہ رہنے کا سہارا تھا۔ وہ ہسپتال میں ایڈمٹ تھا۔ اس کا نروس بریک ڈائون ہوا تھا۔ انہوں نے خود کو مضبوط کیا کیوں کہ انہیں ہر حال میں جینا تھا اپنے لیے نہ سہی اپنے مہر کے لیے۔
بعض دفعہ محبت انسان کو اس قدر مجبور کردیتی ہے کہ وہ چاہ کر بھی اپنی مرضی نہیں کر پاتا۔ یہ محبت خود ہی اپنا درجہ منتخب کرلیتی ہے جو لوگ دل کے قریب ہوتے ہیں ان کے دکھ کو کم کرنے کے لیے اپنا دکھ بھلانا پڑتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسنا پڑتا ہے’ مُسکرانا پڑتا ہے۔ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ آغا جان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اپنوں کی جدائی کے غم کو بھلا کر اپنوں ہی کے لیے وہ دوبارہ جی اُٹھے تھے۔ وہ مہرداد کو زندگی کی طرف واپس تو لے آئے تھے’ مگر محبتوں سے جڑا خوف اس کے دل سے نہیں نکال پائے تھے۔ وہ ڈرتا تھا کہ محبت اس کی بچی ہوئی خوشیاں بھی چھین لے گی۔ اس لیے وہ اپنے اور دوسرے کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ رکھتا تھا۔ یہی فاصلہ دوسروں کو اس کے قریب جانے سے روکتا تھا۔ بہت کم لوگ اس کو پار کرنے کی ہمت کر پاتے تھے۔
٭…٭…٭
آج شاہ ہائوس کی چمک دمک دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔پورا بنگلہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ لالہ صاحب کی کمپنی کو کوئی بہت بڑا پروجیکٹ ملا تھا۔ یہ دعوت اسی خوشی میں دی جارہی تھی۔ شہر کے ہر معزز گھرانے کے لوگ آج شاہ ہائوس میں مدعو تھے۔ غرنیق کے لیے یہ کوئی معمول کی بات نہ تھی۔ لالہ صاحب گھر میں ایسی پارٹیز سے گریز کیا کرتے تھے’ مگر اس بار انہوں نے ایسی شان دار پارٹی گھر پر کیوں رکھی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک خود کو روک نہیں پائی تھی اور پوچھ بیٹھی۔
”لالہ صاحب آپ نے کیا سارے شہر کو بلا لیا ہے۔”
”ہاں میری بچی ایسا ہی سمجھ لو۔ شہر کے تمام عزت دار گھرانوں کے لوگ پورے خاندان کے ساتھ مدعو ہیں۔” وہ مُسکراتے ہوئے بتا رہے تھے۔
”مگر کیوں لالہ صاحب؟”
”کیوں… کیوں کہ ہماری لاڈلی اب بڑی ہوگئی ہے۔” وہ خاک نہ سمجھی تھی۔
”لالہ صاحب میرے بڑے ہونے کا دعوت سے کیا تعلق؟”
”میری معصوم بچی! تمہارے لالہ صاحب اب بوڑھے ہورہے ہیں۔ زندگی کا کیا بھروسا اگر تمہاری رابعہ مما ہوتیں’ تو شاید مجھے یوں یہ سب نہ کرنا پڑتا۔” اپنی بات کے اختتام پر ان کی آنکھیں نم ہوگئیں تھیں۔
”لالہ صاحب آپ ایسی باتیں کریں گے’ تو میں ناراض ہو جائوں گی۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔” وہ جذباتی ہوکر بولی۔
”میری بچی موت برحق ہے۔ میں اپنی زندگی میں تمہارا بسا ہوا گھر دیکھنا چاہتا ہوں۔ کیا تم اپنے لالہ صاحب کی خواہش کا احترام نہیں کرو گی۔” انہوں نے مان سے کہا’ تو اس نے سر جھکا دیا اور تیار ہونے اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
گہرے نیلے رنگ کی گھیرے دار فراک جس پر سُرخ دھاگے سے ہلکا پھلکا کام ہوا تھا اور نیلے چوڑی دار پاجامے کے ساتھ سُرخ دوپٹا اوڑھے وہ واقعی آج چاند کی شہزادی لگ رہی تھی اور سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئی تو بہت سی نگاہوں کا مرکز بن گئی تھی۔ لالہ صاحب اس کا تعارف سب سے کروا رہے تھے۔ بہت سے لوگ اس سے واقف نہ تھے۔ وجہ غرنیق کی ایسی تقریبات میں عدم دلچسپی تھی۔ لالہ صاحب نے اس کا تعارف خاص طور پر ایک باوقار سی خاتون سے کروایا تھا۔
”مسز خان ان سے ملیے یہ ہے ہماری صاحب زادی غرنیق شاہ۔ آپ نے بہت دفعہ ان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے نہ لیجیے آج آپ کی خواہش ہم نے پوری کردی۔”
”السلام علیکم آنٹی!” لالہ صاحب بتا رہے تھے’ تو اس نے فوراً انہیں سلام کرنا ضروری سمجھا۔
”وعلیکم السلام بیٹا! جتنا سنا تھا تم اس سے بھی پیاری ہو۔”
”بھائی صاحب آپ نے آج یوں اپنے گھر بلا کر ہماری عزت بڑھا دی ہے۔” ان کے ساتھ کھڑے رُعب دار شخص نے کہا۔ وہ ان کے شوہر شعیب خان تھے۔
”ارے خان صاحب! عزت تو آپ نے ہماری بڑھائی ہے۔ یوں آپ ہماری ایک کال پر اپنا سب کام چھوڑ کر چلے آئے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کس قدر مصروف شخصیت ہیں۔”
”اکرام صاحب آپ کا بلاوا ہو اور ہم نہ آئیں ایسا ناممکن ہے۔” خان صاحب نے مُسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے بھابی جان! بچے نہیں آئے؟”
”حارث آیا ہے پتا نہیں کہاں گیا ابھی تو یہیں تھا اور عائشہ اپنی خالہ کے یہاں لندن گئی ہے۔”
ہائو کی آواز پر مسز شعیب اُچھل پڑی اور پیچھے کھڑے حارث کو کان سے پکڑ کر سامنے لائی۔
”او… آئوچ ممی… کان چھوڑ دیں میرا۔” حارث نے کراہنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
”شیطان تم… کبھی مت سدھرنا، اتنے بڑے ہوگئے ہو’ مگر حرکتیں وہی بچوں والی ہیں۔”
”ممی دل تو بچہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی۔” اس نے جھک کر آنکھ ماری تھی۔اس کی حرکتوں پر وہاں کھڑے سبھی لوگ ہنس رہے تھے۔
”بھابی جان ہمارے بیٹے کو کچھ مت کہیں۔ اس عمر میں ہی شعیب بھائی کا سارا بزنس اس نے سنبھال رکھا ہے۔”
”دیکھا صرف لالہ انکل کو میرا خیال ہے۔ آپ سب تو غیر ہیں۔” اس کی اداکاری جاری تھی’ مگر ساتھ ساتھ وہ بھرپور نظروں سے لالہ صاحب کے ساتھ کھڑی پری کو دیکھ رہا تھا جس کی مُسکراہٹ اسے مزید ایسی حرکتوں پر اُکسا رہی تھی۔ اس سب سے بے خبر غرنیق ردا کو تلاش کررہی تھی۔ ردا پر نظر پڑتے ہی وہ ایکسکیوز کرتی ہوئی اس کی طرف بڑھی تھی۔ حارث کی نگاہوںنے دور تک اس کا تعاقب کیا تھا۔
غرنیق کو دور سے ردا کی ایک جھلک ہی نظر آئی تھی۔ پاس جانے پر جو منظر اس نے دیکھا وہ بالکل بھی اچھا نہیں تھا۔
ردا مہرداد کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔
”اِس ردا سے پتا نہیں کیا باتیں کررہے ہیں۔ میرے سامنے تو کڑوے بادام چباتے رہتے ہیں ہونہہ۔” وہ بَڑ بَڑاتی ہوئی ان کے پاس آرہی تھی کہ اس نے ردا کو کہیں جاتے دیکھا تھا۔
آج تو آپ کو بڑی ہنسی آرہی ہے۔ ایسی کیا باتیں ہورہی تھیں۔” مہرداد نے حیرانی سے اسے دیکھا الفاظ کے نشتر چلاتی پری بالکل اس کے پاس کھڑی تھی۔
”کچھ خاص نہیں، بس میں انہیں اپنے پرانے قصے سنا رہا تھا اور وہ مجھے آپ کی پسندیدہ شہزادی والی کہانی۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”یہ بندہ ہنستا ہوا کس قدر اچھا لگتا ہے، کاش یونہی ہنستا رہا کرے۔ سڑا سڑا اینگری برڈ اس سے بالکل برعکس ہے۔”
‘ہونہہ، ردا سے آپ نے سٹوری سن لی۔ مجھ سے تو نہیں سنی تھی۔ میری انسلٹ کی وہ الگ سے۔” وہ غصے سے بولی تھی۔
”او تو ونڈر لیڈی کو اس بات کا غصہ ہے۔” وہ سوچ رہا تھا کہ ردا آگئی اس کے ہاتھ میں دو کولڈرنک کے گلاس تھے۔ ایک اس نے مہرداد کو دے دیا۔
”ارے غرنیق یار کیسی لڑکی ہو تم، مجھے بتایا کیوں نہیں کہ مہرداد تمہارے گیسٹ ہیں۔”
”اوہ تو اب بات یہاں تک پہنچ گئی، سر مہرداد سے سیدھا مہرداد۔” وہ دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی۔ ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ سجاتی وہ بولی۔
”بس یونہی اس بات کو میں نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔”
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئی۔
”ارے اسے کیا ہوا؟” ردا نے حیرت سے پوچھا’ تو مہرداد نے کندھے اُچکا دیے’ مگر وہ دوبارہ مسکرا نہ سکا تھا۔
٭…٭…٭
مہرداد کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑا تھا۔ رات خاصی بیت چکی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔ اسے خود پر غصہ تھا۔ آخر کیا ضرورت تھی اسے ردا سے ہنس کر بات کرنے کی۔ کیا تھا جو وہ غرنیق کی کہانی اس سے سن لیتا’ تو کم از کم غرنیق یوں ناراض تو نہ ہوتی۔
”مگر تمہیں اس کی ناراضی کی اس قدر فکر کیوں ہے؟” خاموشی آج پھر سے بول پڑی تھی۔
”ہاں کیوں ہے مجھے اس کی اتنی فکر۔”
”کیوں کہ وہ تمہیں اچھی لگنے لگی ہے۔ اس کی باتیں اس کا بچگانہ انداز تمہیں بھا گیا ہے۔اس کی معصومیت نے تمہارا دل جکڑ لیا ہے۔اس کے آس پاس رہنا تمہیں خوشی دیتا ہے۔”
”خوشی… کیا خوشی میرے نصیب میں ہے؟”
”ہاں آج خوشی نے تمہاری زندگی میں آنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اسے مت روکو مہرداد اسے اندر آنے دو۔”
”نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ میں اسے اندر نہیں آنے دے سکتا۔ یہاں خوشیوں کے لیے جگہ نہیں۔ خوشیوں کو غموں میں بدل دینے والا میرا نصیب مجھے کبھی بھی خوش رہنے کا حق نہیں دے گا۔”
”تم بزدل ہو۔”
”ہاں ہوں میں بزدل! میں نے پہلے بھی بہت دفعہ کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں۔ میں ڈرتا ہوں جن لوگوں سے میں نے اپنی زندگی میں محبت کی وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ پہلے میرے بابا جانی پھر ماما اب مجھ میں کسی اور کو کھونے کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ بہت معصوم ہے، میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے وہ ہنسنا چھوڑ دے۔ مجھ سے محبت کرنے والے ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں اور وہ مجھ سے روٹھ کر ہمیشہ کے لیے چلے جاتے ہیں۔ میں اس لڑکی کی ناراضی تو سہ لوں گا’ مگر اسے کوئی نقصان پہنچے وہ بھی میری وجہ سے یہ میں برداشت نہیں کر پائوں گا۔ بس اب کچھ دن باقی ہیں میں ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلا جائوں گا۔ میری وجہ سے اسے کچھ ہوگیا’ تو میں جیتے جی مر جائوں گا۔ مجھے اس کی خوشی کی خاطر اس سے دور رہنا ہوگا۔”
محبت کا ادراک ہو ابھی یوں تھا کہ اس کی ذات کے پرخچے ہی اڑ گئے تھے۔ وہ خود کے لیے خود ہی سے لڑ رہا تھا۔
٭…٭…٭
اِدھر حارث خان اپنے کمرے میں بیٹھا کافی پی رہا تھا۔ آج کی پارٹی کے مناظر اس کے ذہن میں کسی فلم کی طرح چل رہے تھے اور سب کچھ ایک پری رُخ کے آ جانے سے ٹھہر گیا تھا۔ اس نے بہت سی خوب صورت لڑکیاں دیکھیں تھیں’ مگر ایسی باوقار لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ سر پر دوپٹا اوڑھے وہ سب سے منفرد مگر سب سے معزز ہستی لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر عجب سا نور تھا جو دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا تھا۔ حارث کو یاد کرنے میں مشکل پیش آئی تھی کہ وہ پارٹی میں موجود ہے۔ اسے پہلی نظر کی محبت پر یقین نہیں تھا وہ کہا کرتا تھا۔
”جس نے محبت کی اس نے پہلی نظر میں نہیں کی۔” اور آج اس کا ہر قول غلط ثابت ہوگیا تھا۔ اسے محبت ہوگئی تھی اور وہ بھی پہلی نظر میں۔ ممی آج کل اس کی شادی پر بہت زور دے رہی تھیں جب کہ اسے فی الحال شادی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لائف پارٹنر کا جو خاکہ اس کے ذہن میں تھا ویسی لڑکی ان کی سوسائٹی میں ملنا ناممکن سی بات تھی’ مگر غرنیق کو دیکھ کر اسے اپنی سوچ میں تبدیلی کرنا پڑی تھی۔ ٹھیک ہے وہ ممی کو بتا دے گا کہ انہیں بہو ڈھونڈنے کے لیے مزید خوار ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کی بہو ان کے بیٹے نے ڈھونڈ لی ہے۔ وہ سوچ سوچ کر مُسکرا رہا تھا۔
غرنیق رات سے سو نہیں سکی تھی۔ ساری رات بستر پر کروٹیں بدل بدل کر وہ تھک گئی تھی’ اسے ردا پر غصہ آرہا تھا۔ ردا اس کی بہترین دوست تھی۔ ہر خوشی اور غم میں وہ اس کا ساتھ دیا کرتی تھی’ مگر کل رات سے وہ اس سے سخت بدگمان ہوگئی تھی حالاں کہ وہ کبھی اس پر پہلے غصہ نہیں کیا کرتی تھی۔ اسے مہرداد پر بھی بہت غصہ تھا اور آخر میں توپوں کا رخ اس نے اپنی جانب موڑ لیا تھا۔ آخر کیا ضرورت تھی اسے اینگری برڈ سے پوچھنے کی کہ اس کی طرف سے چاہے وہ ردا کے ساتھ ناچے، آخر اتنا غصہ اسے آ ہی کیوں رہا ہے۔ یہ بات اسے مزید غصہ دلا رہی تھی۔ شاید اسی لیے آگہی کو عذاب کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ نہ جینے دیتی ہے نہ مرنے۔ ایک ایک پل ایک ایک صدی کے مترادف گزرتا ہے۔ غرنیق بھی انہی کیفیات کا شکار ہورہی تھی اور اپنی اس حالت کو کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔ مہرداد سے نفرت کرتے’ لڑتے اور جھگڑتے یہ کون سا نیا جذبہ اس پر وارد ہوگیا تھا۔ یہ کیسا احساس تھا کہ وہ اسے کسی اور کے ساتھ ایک پل کے لیے بھی نہ دیکھ پائی تھی۔ پھر چاہے وہ اس کی بہترین دوست ہی کیوں نہ ہو۔ پوری کلاس مہرداد کی مداح تھی۔ پسند تو وہ بھی اسے کرتی تھی’ مگر پہلے روز کی وہ بے عزتی اس کے دماغ میں فٹ ہوکر رہ گئی تھی اور اب یوں اچانک یہ احساس ہر گزشتہ احساس پر حاوی ہوگیا تھا۔ وہ ملگجے لباس میں نیچے آئی تو لالہ صاحب دفتر کے لیے نکل رہے تھے۔
”ارے غرنیق آج یونیورسٹی نہیں جانا کیا؟”
”نہیں لالہ صاحب! میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے فوراًبہانا بنا دیا۔
”کیا ہوا؟ ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں ابھی۔” وہ پریشان ہوکر بولے۔
”ارے نہیں لالہ صاحب! بس سر میں ذرا سا درد ہے میں پین کلر لے کر آرام کروں گی’ تو ٹھیک ہو جائوں گی۔ آپ پریشان مت ہوں۔”
”ٹھیک ہے بیٹا! تم اپنا خیال رکھنا میں آج جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔ ویسے بھی پرسوں مہرداد واپس جارہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ وقت اس کے ساتھ مزید گزاروں۔ ایک مہینہ اتنی جلدی بیت جائے گا مجھے یقین ہی نہیں ہوتا۔ ابھی کل ہی تو میرے جہاں زیب کا بیٹا یہاں آیا تھا اور اب پرسوں وہ جارہا ہے۔ میں تو آج بھی گھر پر رہنا چاہتا تھا’ مگر مہرداد نے بتایاکہ آج یونیورسٹی میں اس کی آخری کلاس ہے’ کل کا دن وہ میرے ساتھ رہے گا۔ میں بھی کن باتوں میں لگ گیا تم اپنا خیال رکھنا۔” لالہ صاحب چلے گئے’ مگر اس کے دماغ میں صرف ایک ہی بات اٹک کر رہ گئی۔ وہ جارہا ہے وہ پرسوں جارہا ہے۔
٭…٭…٭
تیار ہوکر وہ یونیورسٹی آگئی تھی اور خلاف معمول بہت چُپ چُپ سی تھی۔ ردا نے کئی بار پوچھا’ مگر اس نے سر درد کا بہانہ بناکر ٹال دیا۔ وقت کتنی جلدی گزر جاتا ہے۔ وہ وجیہہ سا شخص اس کی زندگی میں آیا اور اب اتنا اہم ہوگیا تھا کہ اس کے جانے کا تصور بھی غرنیق کے لیے اذیت ناک تھا۔ کلاس میں اس نے جیسے ہی اپنی واپسی کی خبر سنائی تو سب کے چہرے لٹک گئے۔ وہ جان بوجھ کر لالہ صاحب کو پہلے بتا آیا تھا۔ وہ معصوم سی لڑکی اس کے سامنے ٹوٹی تو وہ جا نہیں پائے گا۔ اس لیے خود کو مضبوط کیے وہ ہنس رہا تھا۔
”سر کیا آپ کا اتنی جلدی جانا ضروری ہے۔” سب نے یک زبان ہوکر پوچھا۔
”آپ سب نے مجھے اتنی عزت دی۔ میں اس کے قابل نہیں ہوں، میں آپ سب کے جذبات کی قدر کرتا ہوں’ مگر میرا جانا واقعی ناگزیر ہے۔ میرے آغا جان وہاں اکیلے ہیں اور انہیں میری بہت ضرورت ہے۔”
”اور میں… کیا مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔” غرنیق کے اندر کوئی چیخا تھا۔
”تمہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ تم بہادر ہو رہ لو گی میرے بنا’ مگر میں بزدل ہوں تمہیں دکھ دے کر خوش نہیں رہ پائوں گا۔” لفظوں کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ الفاظ دلوں کے آئینے بن گئے تھے۔
”آپ سب یوں ناراض ہوکر الوداع کہیں گے’ تو مجھے دُکھ ہوگا۔”
”نو سر ہم سب آپ کو مُسکرا کر الوداع کہیں گے۔” زین بولا۔
”تو ایسا کریں ان کارڈز پر میرے لیے اچھی سی دعائیں، یادیںجو بھی آپ میرے لیے لکھنا چاہیں لکھ دیجیے۔ میں انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گا۔” اس نے وہ کارڈ سب میں بانٹ دیے تھے۔ سب نے اپنے اپنے ریمارکس اور نیک خواہشات لکھ ڈالی تھیں اور اس طرح ایک بہترین معلم نے انہیں الوداع کہا’ لیکن داستانِ محبت کا خوب صورت موڑ تو ابھی باقی تھا۔
٭…٭…٭