داستانِ محبت — ندا ارشاد

چوتھا باب
اسے یہاں آئے پندرہ دن گزر چکے تھے۔ کلاس کے ساتھ اس کے تعلقات روز بہ روز مضبوط ہورہے تھے۔ وہ سب مہردادکی ذہانت کے قائل ہوچکے تھے۔ غرنیق بھی اس کے اندازِ تدریس سے بہت متاثر تھی۔ وہ سبجیکٹ جسے سمجھنے میں اسے گھنٹوں صرف کرنے پڑتے تھے اب وہ منٹوں کا کھیل بنتا جارہا تھا۔ آج ردا کی سالگرہ تھی۔ اس نے مہرداد کو بھی پارٹی میں انوائٹ کیا تھا’ مگر اس نے آرام سے ٹال دیا تھا۔ شام کے وقت وہ کمرے میں نماز ادا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک چیخ سنی۔ پہلے تو اسے اپنا وہم لگا’ مگر جیسے اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے مسلسل چیخوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ مہرداد پریشان ہوکر باہر کی طرف بھاگا کیوں کہ آج غرنیق اور لالہ صاحب دونوں گھر پر نہیں تھے۔ آواز کا پیچھا کرتے ہوئے وہ باہر لان میں آگیا۔ وہاں کا منظر دیکھ کر اسے اپنی بصارت پر وہم سا گزرا تھا۔ غرنیق ناچ رہی تھی۔ سیاہ ریشمی فراک، سیاہ پاجامے اور سُرخ دوپٹے کے ساتھ وہ ہوا میں لہرا رہی تھی’ مگر وہ چیخ کیوں رہی ہے۔ اچانک مہرداد کو احساس ہوا کہ غرنیق ناچ نہیں رہی یہاں سے وہاں اُچھل رہی ہے۔




”کیا ہوا غرنیق؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟”
”بچائو مجھے … مہرداد… ہیلپ می پلیز!” اسے دیکھتے ہی غرنیق اس کی طرف بھاگی تھی۔ اس قدر خوب صورت لڑکی بھاگ کر اس کی طرف یوں آرہی تھی جیسے اسے مِرگی کا دورہ پڑا ہو۔ اس نے آتے ہی مہرداد کا کندھا تھام لیا۔
” کیا تم ٹھیک ہو؟”
”نہیں مجھے ڈر لگ رہا ہے!” اس نے دبی دبی سی آواز میں کہا۔
”کس سے ڈر لگ رہا ہے تمہیں؟”وہاں آس پاس کوئی ایسی مخلوق نظر نہیں آئی تھی جس سے ڈرا جائے۔ ہاں غرنیق کی حرکتیں ذرا مشکوک تھیں۔ یہ مہرداد کی سوچ تھی اسے زبان تک لانا غرنیق سے اپنی شامت لانے کے مترادف تھا۔
”تم اسے مار دو پلیز! ورنہ وہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔” غرنیق باقاعدہ کانپ رہی تھی۔
”کون… کون نہیں چھوڑے گا۔” اس کے استفسار پر غرنیق نے جس طرف اشارہ کیا وہاں دیکھنے پر مہرداد کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا تھا۔(کیا یہ لڑکی میرے ساتھ عملی مذاق کررہی ہے) وہاں ایک پودے کی شاخ پر ایک بھڑ براجمان تھا۔ غرنیق کا سانس اسی کو دیکھ کر سوکھا ہوا تھا۔
”دیکھو وہ ہمیں ہی دیکھ رہا ہے، اب وہ تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا۔ میری وجہ سے تم بھی خطرے میں ہو۔” وہ ایسے بول رہی تھی جیسے وہ دونوںکسی خطرناک دشمن سے بھاگ رہے ہوں۔ وہ دشمن تو تھا’ مگر مہرداد کو خطرناک نہیں لگا تھا۔ دشمن بھی غرنیق کا ہی تھا۔ مہرداد کو اچانک ہنسی آگئی اور پھر وہ ہنستا ہی چلا گیا۔ ادھر غرنیق کا خوف کے مارے بُرا حال تھا۔ اینگری برڈ کو ہنستا دیکھ کر اسے غصہ بھی آرہا تھا۔ اچانک ہی لان کی لائٹس بند ہوگئیں۔ شاید بجلی چلی گئی تھی۔ غرنیق نے پھر سے چیخنا شروع کردیا ۔
”چپ کر جائو، ایک دم چپ، اب تم ایک بار بھی چیخی تو بھڑ سے پہلے میں تمہیں کاٹ ڈالوں گا۔” اندھیرے میں مہرداد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اچانک ہی لان روشن ہوگیا۔ ملازم نے شاید جنریٹر آن کردیا تھا۔ مہرداد کا ہاتھ غرنیق کے منہ پر تھا اور وہ اس کی بادامی آنکھوں میں جھانک رہا تھا جہاں ابھی بھی خوف تھا جیسے وہ مہرداد سے بھی خوف زدہ ہو۔ پھر اس نے فوراً ہاتھ ہٹا دیا تھا۔ غرنیق نے اپنا سانس بحال کیا اور پھر گھٹی گھٹی آواز میں بولی :
”آپ… آپ مجھ پر ناراض ہورہے تھے۔ شاید آپ کو پتا نہیں وہ بھڑ ہے بھڑ۔ ایک دفعہ مجھے تین بھڑوں نے ایک ساتھ کاٹ لیا تھا۔ اتنا ڈھیر سارا درد ہوا تھا۔ ” اپنی بڑی آنکھوں کو مزید پھیلا کر وہ اسے ڈرا رہی تھی بلکہ بدلہ پورا کررہی تھی۔ آخر مہرداد نے بھی اسے خوف زدہ کیا تھا بلکہ ڈانٹا بھی تھا۔ اس کی بات پر مہرداد نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ روکی۔ (آپ سے تم اور تم سے پھر آپ)
”ہاں تم ٹھیک کہتی ہو، غلطی میری ہی ہے۔” وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔ داستان محبت کی ابتدا تو ازل سے ہوئی تھی اور یہ ابد تک جاری رہنے والی تھی۔ تاریخ لکھی گئی تھی، تاریخ لکھی جارہی تھی اور تاریخ لکھنی ابھی باقی تھی۔
٭…٭…٭
آج وہ یہ فائلز نپٹا کے ہی جائے گی۔ کنٹریکٹ کا کام پچھلے کئی ہفتوں سے لٹکا پڑا تھا۔ اس نے خلاف معمول کام سے غفلت برتی تھی۔رون کے ارد گرد گھومتے شرط جیتنے کے چکر میں اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے پرفیکٹ امیج پر دراڑ ڈالی تھی۔ وہ ہر کام وقت پر کرنے کی قائل تھی۔ ناشتا ہو یا کھانا، میٹنگ ہو یا آرام کا وقت ہر چیز اس کے لیے فکس تھی’ مگر اس بار اس نے بے پروائی کی تھی۔ ڈیڈی اور ممی اپنی مصروف زندگی میں اسے یہ کبھی غور نہیں کر پائے ورنہ انہیں بھی یہ تبدیلی ضرور پتا چلتی جسے کچھ روز سے آفس کا سٹاف محسوس کررہا تھا۔ آج فائلز کھولتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنا وقت بہت زیادہ ضائع کردیا ہے اور اب اسی وقت کو دوبارہ مٹھی میں کرنے کے لیے وہ رات گئے تک کام کررہی تھی’ مگر وہ بھول گئی تھی کہ ”وقت کے گھوڑے کو ہمیشہ اس کی گردن کے بالوں سے پکڑنا چاہیے نہ کہ اس کی دم کے بالوں سے۔”
مونٹی سے لگائی گئی شرط اسے ہر حال میں جیتنا ہی تھی کیوں کہ ہارنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ انہی لوگوں میں سے تھی جو کہا کرتے ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو ادنیٰ اور معمولی قابلیت کا سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ ادنیٰ ہی رہتے ہیں، دنیا آپ کو وہی سمجھتی ہے جو آپ خود کو اپنے دل میں تسلیم کرتے ہیں۔ اگر آپ خود کو ناقابل شکست سمجھ لیں تو دنیا بھی یہی سمجھے گی۔
رات کافی ہوچکی تھی۔ سارا سٹاف بھی جاچکا تھا۔وہ بلیک پینٹ کوٹ سفید شرٹ کے ساتھ بلیک فریم والے گلاسز آنکھوں پر جمائے فائلز ریڈی کررہی تھی اور ساتھ ساتھ پچھلے دنوں کے چھوٹے موٹے کام جو اس کی غفلت سے رکے پڑے تھے انہیں مکمل کررہی تھی۔ اچانک مونٹی اس کے کیبن میں داخل ہوا۔
”ارے مونٹی تم گئے نہیں اب تک۔” مونٹی کے ڈیڈ ان کی کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر آفس چلا آتا تھا۔
”نو بے بی، میں کچھ کام کررہا تھا۔ پھر تمہیں دیکھا’ تو سوچا آج اکٹھے ہی واپس جائیں گے۔ تم کام ختم کرلو اور پھر مجھے بتا دینا میں اپنے آفس میں ہوں۔” وہ کہہ کر نکل گیا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے ساری فائلیں سمیٹیں باقی کام وہ گھر پر کرسکتی تھی۔ اسے مونٹی کو اپنی وجہ سے انتظار کروانا اچھا نہیں لگا ۔ بارہ بجے کے قریب وہ اپنے کیبن سے نکل کر مونٹی کے آفس میں داخل ہوئی ۔
”چلیں مونٹی! باقی کا کام میں گھر پر کرلوں گی۔”
”مگر میرا کام گھر پر نہیں ہوسکتا۔” اس نے نا سمجھی سے مونٹی کی طرف دیکھا۔
”میرا مطلب ہے کہ تھوڑی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں پھر چلتے ہیں۔”
”نہیں مونٹی! بہت دیر ہو گئی اب ہمیں چلنا چاہیے، اسے اب کوفت ہونے لگی تھی۔”
”میں گاڑی نکالتی ہوں تم آجائو۔” یہ کہہ کر وہ جیسے ہی مڑی مونٹی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔




”سینڈی ڈارلنگ، اب اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ ہم بھی کب سے یہاں تمہارے منتظر تھے۔” اس کے قریب آنے پر سینڈی کو احساس ہوا کہ اس نے شراب پی رکھی ہے۔ اس کی چھٹی حس اسے کہہ رہی تھی کہیں کچھ بہت غلط ہے۔ اس نے برہمی سے مونٹی کا ہاتھ جھڑکا اور دروازے کی جانب بڑھی’ مگر یہ کیا دروازہ مقفل تھا۔ ان کے آفس کے دروازے جدید طرز کے تھے اور ریموٹ سے لاک ہو جاتے تھے۔
”مونٹی دروازہ کھولو۔” وہ غصے سے بولی ۔
”اب یہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ تم نے بہت ستایا ہے مجھے۔”
”تم پاگل ہوگئے ہو۔”
”ہاں ہوگیا ہوں میں پاگل۔ تم نے کردیا ہے مجھے پاگل۔ میں سارا سارا دن تمہارے پیچھے ہوتا ہوں اور تم اس کمینے رونلڈ کے آگے پیچھے گھومتی ہو۔ ارے میں ہی اُلو تھا جو تم سے وہ فضول سی شرط لگائی۔ مجھے لگا تھا کہ تم جیسی خوب صورت لڑکی اس گدھے کو گھاس ڈالے گی’ تو وہ تمہارے پیچھے پیچھے آئے گا اور تم شرط جیت کر میرے اور قریب ہو جائوگی ‘مگر مجھے کیا پتا تھا کہ وہ کردار کا اتنا مضبوط نکلے گا کہ تم جیسی چیز کی بے قدری کرے گا’ مگر تم گھبرانا نہیں۔ میں تمہارا اصلی قدر دان ہوں، میں تمہاری تذلیل نہیں کروں گا، تمہیں سراہوں گا۔ آج کے بعد تم صرف مجھے چاہو گی مجھے سوچوگی اور میری بن کر رہو گی۔”
اس نے سینڈی کے دونوں کندھوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ وہ خود کو بے بس محسوس کررہی تھی۔ اس نے زور شور سے چیخنا شروع کردیا ‘مگر پھر خود ہی چپ ہو گئی کیوں کہ دروازے سائونڈ پروف تھے۔
”نہیں وہ ہار نہیں مانے گی۔ کوئی تو راستہ ہوگا ہی۔” یہ خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں آیا تھا۔ مونٹی کو دھکا دے کر وہ اس کے آفس میں اِدھر اُدھر چیزیں دیکھنے لگی۔ اس امید پر کہ شایدکوئی چیز اس کے ہاتھ لگ جائے جو اس کے کام آسکے۔ آفس شہر سے ذرا ہٹ کر فیکٹری ایریا کے ساتھ تھا۔ اگر وہ فون بھی کرتی تو مدد پہنچنے میں کافی دیرہو جانی تھی’ مگر پھر بھی اسے کوشش تو کرنی تھی۔
موبائل پرس سے نکالنے لگی’ تو اسے یاد آیا کہ آج صبح سے اس نے اپنا فون اپنے ڈیسک کے دراز میں بند کرکے رکھا ہوا ہے تاکہ کوئی اسے ڈسٹرب نہ کرے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اچانک مونٹی نے اسے اس کے بالوں سے پکڑ کر نیچے گرایا تھا۔ دروازے کا ہینڈل اس کے سر پر لگا اور خون کی بوندیں اس کے ماتھے سے ہوکر اس کے کپڑوں پر گرنے لگیں۔ وہ پوری طرح سے مونٹی کے قبضے میں تھی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور سینڈی کی زندگی میں گرہن لگ رہا تھا۔
٭…٭…٭
ہفتے کی صبح مینہ بڑے زور سے برس رہا تھا۔ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا۔ غرنیق کچن میں پکوڑے بناتی چھٹی انجوائے کرنے کے موڈ میں تھی۔ ردا سے بول چال کچھ دن سے بند تھی۔ وجہ اس کی سالگرہ پر غرنیق کی عدم موجودگی تھی۔غرنیق اسے بتا نہ سکی کہ وہ تو تیار ہوکر نکل رہی تھی کہ اپنے بالوں میں پھول سجانے کے خیال سے لان میں آگئی اور وہ سب ہوا جو اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ اس سب میں اسے ردا کے گھر جانا بالکل بھول گیا اور جب یاد آیا تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ اگر ردا سے ناراضی نہ ہوتی’ تو وہ آج ردا کے ساتھ خوب مستی کرتی’ مگر اب وہ گھر رہ کر چھٹی منانے پر مجبور تھی۔ فی الحال وہ پکوڑوں کے ساتھ بارش کا لطف اٹھانا چاہتی تھی۔ ردا کو تو وہ بعد میں منا ہی لے گی۔ وہ جانتی تھی ویسے بھی بارش ہر جان دار، انسان کی طرح اس کی روح کو بھی تازہ کردیتی تھی۔ بارش جسم کے ساتھ ساتھ روح کو بھی تازہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بارشوں کے موسم میں تو بے مروت بھی مروت کا مظاہرہ کرجاتے ہیں کیوں کہ یہ اپنے ساتھ ساتھ دلوں کے غبار بھی دھو ڈالتی ہے۔ وہ گھنٹوں لان کی سیڑھیوں میں بیٹھی بارش کو تکا کرتی تھی اور پھر جب بارش زور پکڑتی’ تواس کا جوش و خروش بھی زور پکڑ لیتا تھا۔ بارش میں بھیگنا اور بھیگتے ہوئے خود کو قطروں کے سنگ چھوڑ دینا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ آج جب وہ پکوڑوں کی ٹرے لیے سیڑھیوں میں آئی تو وہاں مہرداد پہلے ہی سے موجود تھا۔
”ارے یہ اینگری برڈ یہاں…” وہ بَڑ بَڑائی تھی’ مگرمہرداد خود میں اس قدر مگن تھا کہ اس کی بَڑبَڑاہٹ نہ سن پایا۔
”پکوڑے کھائیں گے؟” اس نے پلیٹ اس کے سامنے کی تو جیسے وہ ہوش میں آیا تھا۔
”آپ یہاں بارش انجوائے کررہے ہیں۔”
”بارش… او بارش شروع ہوگئی؟ وہ حیران ہوا تھا جیسے اسے پتا ہی نہ چلا ہو حالاں کہ بارش شروع ہوئے آدھا گھنٹا بیت چکا تھا۔ غرنیق بڑے غور سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں کہتی تھیں یہاں مت دیکھو یہ جگہ دنیا والوں کے لیے نہیں۔ یہ ویران ہے… اجاڑ ہے۔”
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟”
”جی ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے کیا ہونا ہے۔” اسے اپنی طرف غورسے دیکھتا پا کر وہ ایک پل کے لیے بوکھلایا پھر فوراً ہی سنبھل کر بولا:
”آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہیں البتہ۔”
”میں… مجھے کیا ہونا ہے، میں تو ٹھیک ہوں۔”
”تو پھر آپ اس قدر سنجیدہ کیوں ہیں؟”
”کیا مطلب ہے آپ کا۔ آگے میں غیرسنجیدہ ہوتی ہوں۔ آپ نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔ میں کافی سمجھ دار ہوں۔ کافی… سے بھی کافی سمجھ دار… سنا آپ نے۔” مہرداد اس کا دھیان بھٹکانے میں کامیاب رہا تھا۔ مہرداد کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ پھر بولی تھی۔
”میرا تو دل بھی سنجیدہ ہے، میرے کپڑے بھی اور پوری میں بھی۔ میں تو بے حد، بہت بہت سنجیدہ ہوں۔” اپنی طرف سے وہ بوڑھی بننے کی کوشش بھی کررہی تھی۔ اسے ہنسی آگئی تھی۔
”میں نے ایسا تو نہیں کہا کہ آپ ناسمجھ ہیں۔”
”مگرآپ کا مطلب وہی تھا۔” اس کا منہ پھول گیا ۔
”آپ ہمیشہ ہی سے ایسی ہیں یا میرا کوئی خاص قصور ہے۔”
”میں… میں تو ایسی ہی ہوں۔ ہوں نہ میں زبردست۔” وہ واقعی ونڈر لیڈی کہلائے جانے کے قابل تھی۔ مقابل کو پل میں چت کردیا کرتی تھی۔
”آپ اچھی ہیں۔ مہرداد کی بات پر اس کا منہ مزید پھول گیا تھا۔
”آپ کا مطلب کہ میں اچھی ہوں یعنی کہ میں زبردست نہیں ہوں۔” وہ بالکل چھوٹی بچی لگ رہی تھی جس کی گڑیا کوئی لے گیا تھا۔
”نہیں! نہیں! وہ ہڑ بَڑایا۔ (یہ لڑکی کیا چیز ہے؟)
”میرا مطلب کہ آپ بہت زبردست ہیں۔” وہ فوراً ہی ہنس پڑی تھی۔
”یہ لڑکی واقعی بڑی ہی زبردست ہے۔” (اور مہرداد سوچ رہا تھا) کہ جینے کا سلیقہ اس زندہ دل لڑکی سے سیکھ لینا چاہیے تاکہ وہ سانسیں جو وہ کاٹ رہا ہے انہیں لینے میں آسانی ہو جائے۔
٭…٭…٭
”سر آپ میری بات تو سنیں۔”
”کیا سنوں میں۔ اتنے سالوں سے سن ہی تو رہا ہوں۔ تم صرف باتیں کرسکتے ہو کوئی کام وام نہیں۔”
”سر ایسی بات نہیں ہے۔” اس نے تابع داری سے کہا’ مگر وہاں آج ان کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا ہوا تھا۔
”سر میں اور میرے آدمی ہر لحاظ سے ان کا پیچھا کرکے دیکھ چکے ہیں۔ وہ اس بیگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔”
”تم لوگ نکمے ہو۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے اس بیگ کا نہ پتا ہو۔ وہ بہت چالاک ہے’ مگر اسے پتا نہیں کہ اس کا پالا کس شخص سے پڑا ہے۔” انہوں نے ایک دم کھڑے ہوتے ہوئے کہا’ تو وہاں موجود سب لوگ کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ ان کے لیے آج کی بات نہیں تھی۔ ان کے مالک کی یہ حرکات اور یہ مانگ بہت پرانی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!