تیسرا باب
کلاس میں جب سر ابراہیم کی غیرحاضری کی خبر باقیوں تک پہنچی’ تو سب نے بآواز بلند نعرہ لگایا۔
”شکریہ سلطنت ترکیہ۔” “Thank you Saltanat-e-Turkia”
”غرنیق روسٹرم پر چڑھی سر کی نقل اُتار رہی تھی۔ کیوں نہ اُتارتی، وہ کلاس کی مایہ ناز اداکارہ جو تھی۔”
”مِس فیشن کی دکان۔ آپ کب سمجھیں گی یہ فیشن ویک نہیں ہے۔ آپ کا تو ہر دن فیشن ڈے ہوتا ہے۔ اب ہم پر رحم کرکے کوئی دن سٹڈی ڈے کے طور پر بھی منائیں۔ ”
” اینڈ یو مس کوڑھ مغز۔” کلاس میں بلند و بانگ قہقہے گونجنے لگے۔
اتنے میں دو شخص کلاس میں داخل ہوئے۔ سائیکا لوجی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کو دیکھ کر سب اسٹوڈنٹس کی بولتی بند ہوگئی۔ غرنیق فوراً اپنی جگہ پر آبیٹھی ۔
”ہیلو اسٹوڈنٹس اُمید ہے آپ کی چھٹیاں اچھی گزری ہوں گی۔” نہایت رعب دار آواز میں سرزوہیب رضا زیدی ان سے مخاطب تھے۔ سر زوہیب نہ صرف ان کے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ تھے بلکہ سینئر ٹیچر ہونے کی وجہ سے سب ہی ان کا احترام کرتے تھے۔ بس ان کے غصے سے خائف رہتے تھے۔
”میں جانتا ہوں کہ آپ کو سر ابراہیم کی غیرموجودگی کی خبر مل چکی ہوگی۔(ہاں جی خوش خبری مل چکی ہے، سب نے دل ہی دل میں کہا)اور آپ سب انہیں بہت یاد کررہے ہوں گے۔ ”اللہ ہم پر ایسا دن کبھی نہ لائے جو سر ابراہیم کی یاد میں گزرے،” ردا نے آہستہ سے آہ بھرتے ہوئے غرنیق کے کان میں سرگوشی کی۔
”سر ابراہیم کی جگہ آپ کو آپ کے نیو ٹیچر سر مہرداد عالم پڑھائیں گے۔ بقیہ تعارف سر خود کروائیں گے۔ امید ہے کہ آپ کا دن اچھا گزرے گا۔” وہ کہہ کر کلاس سے چلے گئے۔ اب سب کی نگاہوں کا مرکز مہرداد تھا۔ مہر داد نے دل ہی دل میں سر زوہیب کے الفاظ دہرائے جو انہوں نے یہاں آنے سے پہلے اس سے کہے تھے۔
”ینگ مین آپ کو ان سب کے ساتھ ذرا سختی سے پیش آنا ہوگا۔ سر ابراہیم اکثر ان لوگوں کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ ذرا ٹیڑھے مزاج کے ہیں۔” غرنیق اپنے گھر آئے مہمان کو یوں اس نئے روپ میں دیکھ کر حیران تھی۔ مہرداد کی آواز پر وہ چونکی۔
”میرا نام مہرداد عالم ہے۔ میں نے اسی سال قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم بی اے کیا ہے۔ میں آپ کو سٹیٹس پڑھائوں گا۔ امید ہے آپ سب میرے ساتھ تعاون کریں گے۔میں سر ابراہیم جیسا تو نہیں پڑھا پائوں گا’ مگر میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔”
”سر آپ ویسا پڑھا بھی نہیں سکتے۔ سر ابراہیم کو ہی یہ خاص اعزاز حاصل ہے کہ وہ سٹیٹس کو ہر طرح سے دوسروں کے دماغ میں ٹھونسیں۔” مہرداد کی بات کاٹ کر کوئی پچھلے بنچ سے بولا تھا۔ یہ آواز زین کی تھی’ مگر یہ بات صرف ان سب کو پتا تھی مہرداد کو نہیں۔ زین کی بات پر مہردادذرا سا مسکرایا۔
”آپ کی اس حوصلہ افزائی کا شکریہ، بالکل ہٹ کے تھی مجھے اچھی لگی مسٹر نامعلوم۔”
”ویسے آپ سب کے چہرے کیوں لٹک گئے ہیں۔ آج ہم بالکل نہیں پڑھیں گے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ سب کا موڈ آج بالکل بھی پڑھنے کا نہیں ہے۔” مہر داد کو آغا جان کی بات یاد آئی تھی اور وہ بدلنے کی کوشش بھی کررہا تھا۔
”آج آپ سب مجھے اپنا اپنا نام بتائیں اور جو کچھ بھی آپ بتانا چاہیں اپنے بارے میں۔” اس نے ان سب سے کہا۔ سب کو اس کا یہ انداز پسند آیا تھا۔ تعارف کا مرحلہ طے ہونے لگا۔ وہ اپنی باری پر کھڑی ہوئی تھی۔
”میرا نام غرنیق شاہ ہے۔ میرا تعلق لاہور سے ہے اور میں بی ایس سائیکالوجی کے آخری سمیسٹر کی طالبہ ہوں۔”
”تو مس آپ کے نام کا مطلب کیا ہے۔” مہر داد نہیں جانتا تھا کہ اس نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ پوری کلاس نے مہرداد کو یوں گھورا جیسے سالم نگل لینا چاہتے ہوں اور پھر سب نے اپنے کانوں کے لیے کوئی نہ کوئی اہتمام کر ہی لیا۔ جی ہاں اہتمام۔ رضوان نے سب سے پہلے کانوں میں ہینڈز فری لگائی تھی۔ ذین اور دنیا نے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ ردا نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ کر سونے کی ناکام کوشش کی۔ ساری کلاس کچھ نہ کچھ کرچکی تھی۔ سوائے مہرداد کے جو حیرانی سے ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ غرنیق کی کہانی شروع ہوچکی تھی۔ غرنیق کو اپنے نام سے عشق تھا وہ اس کا مطلب بتاتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیا کرتی تھی۔ بس اتنا ہی نہیں اس نے ایک کہانی بھی اپنے نام سے منسوب کررکھی تھی۔
”غرنیق کا مطلب ہے چاند، غرنیق خوب صورت کو کہتے ہیں۔سفید بھی انہیں معنوں میں آتا ہے اور پورا مطلب ہے سفید چاند کی طرح روشن۔ آپ کو پتا ہے یہ نام کس کا ہے۔” مہر داد کا جواب سنے بنا وہ بولی۔
”یہ نام چاند پر رہنے والی ایک خوب صورت شہزادی کا ہے۔ وہ دنیا میں سب سے خوب صورت ہے۔ خوب صورت سمجھ رہے ہیں آپ ؟ مطلب بے حد حسین، ڈھیر ساری خوب صورت، دنیا میں سب سے حسین… سر… وہ چاند کی ملکہ ہے۔ اس نے سفید لباس زیب تن کر رکھا ہے۔ سر ذرا آپ سوچیں تو سہی۔ وہ اس قدر معصوم اور پیاری ہے کہ دیکھنے والے اسے بار بار دیکھنے کی آرزو کرتے ہیں۔” وہ یوں بیان کررہی تھی جیسے مہرداد کو شہزادی دکھا رہی ہو۔ وہ شہزادی کی تعریف کرتے ہوئے آنکھ بند کرکے زور زور سے ہاتھ ہلائے جارہی تھی۔ پوری کلاس مہرداد کو بے بسی سے دیکھ رہی تھی جو غرنیق کی کتھا حیرت سے سن رہا تھا۔ وہ اس کے جذبات سمجھ سکتے تھے۔ غرنیق نے ایک ایک کو پکڑ پکڑ کر کوئی سو سے زیادہ دفعہ یہ کہانی سنائی تھی اور انہوں نے مجبوری میں سنی بھی تھی۔ پھر ایک بار ایک مجبور اسٹوڈنٹ نے کلاس میٹنگ میں قصہ بیان کیا اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
”ارے بھئی کیوں نہ ہوتے میڈم صاحبہ نے اسے شہزادی کا شاہی دربان جو منتخب کرلیا تھا۔” اور وہ بیچارہ رو رو کر پوچھ رہا تھا۔
”تم لوگ بتائو کیا میں دربان جیسا دکھتا ہوں۔” کافی نازک مزاج تھا بے چارہ۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا تھا کہ غرنیق تب تک کسی کو بھی اپنے نام کا مطلب اور اس سے جڑی کہانی نہیں سنائے گی جب تک کوئی اسے خود نہ کہے۔ ظاہر ہے انہوں نے اسے ایسا کیوں کہنا تھا۔ غرنیق نے کافی احتجاج کیا’ مگر پھر اس نے ان کی بات مان لی تھی’ لیکن آج تو موقع چل کر خود غرنیق کے پاس آیا تھا تو پھر وہ کیوں جانے دیتی۔
مہرداد کی نظر ان سب پر پڑی جو اب زیرلب مُسکرا رہے تھے’ تو اچانک وہ پرانا مہرداد بن گیا تھا۔
”بہت ہوا مس۔ آپ کی اس حرکت سے میں کیا اخذ کروں۔ میں نیا ضرور ہوں’ مگر پاگل نہیں جو آپ مجھے یوں کہانیاں سنائی جائیں۔ میں ایسا بے ہودہ مذاق آیندہ ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ اب آپ بیٹھ جائیں پلیز اور اپنا منہ ذرا بند رکھیں۔” مہرداد کو غرنیق کی یہ شرارت لگی تھی۔ لہٰذا اس نے اسے سخت الفاظ میں جھاڑ دیا۔
اس قدر انسلٹ پر غرنیق کا منہ لٹک گیا اور وہ فوراً بیٹھ گئی۔
”ہونہہ … اکڑو… اس کی تو… میری یعنی غرنیق شاہ کی کہانی نہیں سنی۔ اینگری برڈ ہے پورا۔” غرنیق کو ابھی بھی اپنی کہانی کا غم تھا۔
”ابھی تو وہ دل چسپ موڑ بھی نہیں آیا جب چاند کی شہزادی سورج کے شہزادے کے سامنے اپنی شرائط رکھتی ہے۔ اُف سب اس اینگری برڈ کی وجہ سے۔”
کلاس کے اختتام تک سر مہرداد سب کو پسند آئے تھے سوائے غرنیق کے۔ ارے بھئی گستاخی ہی ایسی کی تھی انہوں نے۔
٭…٭…٭
وہ انتہائی غصے میں کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا کمرا جو مہنگے ترین سامان سے بھرا پڑا تھا دو منٹ میں اس کے ہاتھوں تہس نہس ہوکر رہ گیا۔ وہ ابھی ابھی ڈیڈی سے ڈانٹ جو سن کر آیا تھا۔
”تمہیں پتا ہے نہ مونٹی۔ سینڈی کے ساتھ تمہاری جلد شادی ہونا کس قدر ضروری ہے۔ میری اتنے سالوں کی محنت کا پھل بس کچھ ہی پل دور ہے اور تم اس لڑکی سے ابھی تک منگنی تک نہیں کر پائے ہو۔ وہ لڑکی واحد کڑی ہے جو میرا اور اس کے باپ کا بزنس اونچائیوں تک پہنچا سکتی ہے۔ تم اسے مٹھی میں کرلو تو سمجھو سارا بزنس ہمارا۔ اپنے باپ کے بعد سب اسے ہی تو ملنا ہے۔ اس کا باپ بھی اس رشتے پر راضی ہے’ مگر صرف تم جیسے بے وقوف کی وجہ سے سب کچھ اٹکا ہوا ہے۔” وہ غصے میں بولے تھے۔
”ڈیڈ میں کوشش کررہا ہوں۔ وہ لڑکی بہت ضدی ہے۔”
”کوشش وٹ ڈویو مین بائی دِس۔”( اس سے تمہارا کیا مطلب ہے) مجھے کوشش نہیں رزلٹ چاہیے اور وہ بھی پازیٹو سمجھے تم؟”
”یس ڈیڈ۔”
”دیکھو مائی سن اگر وہ ضدی ہے’ تو توڑ دو اس کی یہ ضد، کچل ڈالو اس کی ساری اکڑ، پھر اسے خود ہی تمہارے پاس آنا پڑے گا سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔”
”یس ڈیڈ۔” اس نے سینڈی کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے ہی اس سے مختلف شرطیں لگائیں۔ وہ جانتا تھا کہ سینڈی بہت ضدی ہے وہ ہارنا نہیں جانتی’ مگر اس کی بدقسمتی جو اس نے رونلڈ کا انتخاب کیا۔ رونلڈ اب سینڈی کی ضد بن چکا تھا۔
”اسے اب ڈیڈ کی بات مان لینی چاہیے’ مگر یہ ہوگا کیسے؟” اوہ یس’ اس نے کچھ سوچ لیا تھا اور جو سوچا تھا وہ بہت سی زندگیاں بدلنے والا تھا، یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا، وہ بھی نہیں۔
٭…٭…٭
وہ لان میں تنہا بیٹھا تھا۔ اس کی نظروں کا مرکز ادھ کھلا سفید گلاب تھا جو بہت سے سُرخ گلابوں میں تنہا ہی مُسکرا رہا تھا۔ وقت کا پہیہ ایک بار پھر زور سے گھوما تھا۔ وہ ایک شان دار کمرا تھا جس کے عین وسط میں ایک خوب صورت باوقار سی خاتون سیاہ ساڑھی میں ملبوس ایک بچے کا ماتھا چوم رہی ہے۔
”کون ہے وہ عورت؟” اس نے دماغ پر زور ڈالا۔
”ماما آئی لو یو ماما۔ آپ کتنی خوب صورت ماما ہیں۔” بچہ مہرداد اپنی ماں کو ہنسا رہا تھا اور بدلے میں اب وہ اس کے دونوں گال چوم رہی تھی۔
”آئی لو یو میری جان۔ تم بھی بہت ہینڈسم ہو۔”
”ہینڈسم کیوں نہ ہو بھئی’ اپنے بابا جانی پر جو گیا ہے۔” جہاں زیب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا تھا۔
”نہیں یہ تو اپنے آغا جان پر گیا ہے۔”
”بھئی بیگم آپ کا مطلب ہے کہ ہم ہینڈ سم نہیں۔”
”نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا۔”فاطمہ بیگم ان کی شرارت سمجھ نہیں پائی تھیں۔
جہاں زیب ان کے پاس آئے اور سفید گلاب جو انہوں نے دونوں ہاتھوں سے کمر کے پیچھے چھپا رکھا تھا ان کے بالوں میں لگاتے ہوئے بولے تھے۔
”مجھے پتا ہے۔” (فاطمہ اتنی سی بات پر شرما گئی تھی) اور ان کا قہقہہ جان دار تھا۔
٭…٭…٭
”ارے بیٹا مہرداد آپ یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟”
”کچھ نہیں لالہ صاحب بس یونہی۔” لالہ صاحب کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی تھی۔
”ارے برخوردار ہم تمہاری عمر کے تھے جب ہمیں ہماری بیگم کے سوا کچھ سوجھتا نہ تھا اور ایک تم ہو جو پھولوں کو تنہا بیٹھے گھور رہے ہو۔”
”کیا آپ کو محبت پر یقین ہے لالہ صاحب؟”
”یقین نہیں محبت ہمارا ایمان ہے۔ محبت تو بہت انمول جذبہ ہے۔ خدا کو اپنے رسولۖ سے بے پناہ محبت ہے جس کی مثال یہ ساری دنیا ہے۔ محبت انسان کو عظمت، پاکیزگی، انسان دوستی، خوش حالی اور امن کا درس دیتی ہے۔”
”مگر محبت اگر چھن جائے تو؟” وہ خود کو پوچھنے سے روک نہیں پایا تھا۔
”ہاں محبت ہم سے چھن بھی سکتی ہے۔ یہ ایک سنگین حقیقت ہے جسے ہم سمجھتے ہوئے بھی قبول نہیں کرسکتے۔” لالہ صاحب کی آنکھوں میں رابعہ شاہ کا عکس تھا۔
٭…٭…٭
وہ یونیورسٹی جانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے رائل بلیو شرٹ اور بلیک پینٹ پہن رکھی تھی۔ گلے میں باریک سی بلیک ٹائی جھول رہی تھی۔ نیچے اتر کر آیا’ تو ڈائننگ ٹیبل پر لالہ صاحب ناشتا کررہے تھے۔
”السلام علیکم! صبح بخیر لالہ صاحب۔”
”وعلیکم السلام! صبح بخیر آئو ناشتا کرو۔”
”ارے نہیں میں بس ایک کپ چائے لوں گا۔ ناشتے کا تو بالکل بھی موڈ نہیں ہے۔”
”بھئی ناشتا تو روح کی غذا ہے، صبح کا ناشتا انسان کو سارا دن چاق چوبند رکھتا ہے۔ ہماری اماں جان ہمیں چار چار پراٹھے کھلا دیا کرتی تھیں اور ہم بڑے شوق سے ہڑپ کر جاتے تھے۔ بہت ذائقہ تھا ان کے ہاتھوں میں۔”
”مطلب میرے ہاتھوں میں ذائقہ نہیں ہے۔” وہ کچن سے ناشتے کی ٹرے اٹھائے چلی آرہی تھی اور لالہ صاحب کی آخری بات سن چکی تھی۔
”توبہ میری یہ مجال کہ میں ایسا سوچوں۔” لالہ صاحب نے مصنوعی خوف کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ پھر اس کی ناراض شکل دیکھ کر ہنس پڑے۔
”ہماری بیٹی کے ہاتھوں سے بنی ہر چیز بہت لذیذ ہوتی ہے کیوں کہ وہ دل سے جو بناتی ہے۔”
”ہاں ناں!” اس نے سفید چوڑی دار پاجامہ سرخ گھیرا دار فراک کے ساتھ پہن رکھا تھا۔ سُرخ دوپٹا سر پر سلیقے سے جما رکھا تھا۔ مہرداد نے اسے آج پہلی بار غور سے دیکھا تھا۔
”تو مس ونڈر لیڈی اپنی تعریف بے حد پسند کرتی ہیں۔” اس نے سوچا۔ غرنیق کی کہانی کے بعد سے اس نے اسے ونڈر لیڈی کا خطاب دے ڈالا تھا۔ خطاب تو غرنیق نے بھی اسے دیا تھا’ مگر وہ انجان تھا۔
اینگری برڈ کو وہ لالہ صاحب کی وجہ سے برداشت کرنے پر مجبور تھی۔ وہ دل ہی دل میں اس کی واپسی کی ہی دعا کررہی تھی۔
”مہرداد آپ غرنیق کی کلاس کو بھی پڑھاتے ہیں۔” لالہ صاحب نے اچانک پوچھا تھا۔ اس بات پر جہاں غرنیق کا نوالہ حلق میں اٹک گیا تھا وہاں مہرداد نے بڑی مشکل سے اپنی مُسکراہٹ چھپائی تھی۔
”جی لالہ صاحب!”
”تو کیسی اسٹوڈنٹ ہے میری بچی، زیادہ تنگ تو نہیں کرتی وہاں۔”
اب وہ لالہ صاحب کو ان کی لاڈلی کی کیا کرتوت سناتا کہ وہ وہاں تو سٹوری کوئین بنی پھرتی ہے۔
”یہ مسٹر اینگری برڈ ابھی لگائے گا میری شکایت۔ ایک تو کہانی نہیں سنی اوپر سے اب میری شکایت بھی کرے گا۔” اُف وہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی۔
”یہ بہت اچھی اسٹوڈنٹ ہیں۔ بالکل بھی تنگ نہیں کرتیں’ بلکہ کافی ذہین ہیں۔” اس بات پر غرنیق کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کھلتا کیوں نہ ابھی کل ہی کا تو واقعہ ہے جب مہرداد نے سوال سمجھانے کے بعد پوچھا کہ ” اگر کسی کو سمجھ نہیں آئی وہ ہاتھ کھڑا کرے۔” پوری کلاس میں صرف اس نے ہاتھ کھڑا کیا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ اسے سمجھ نہیں آئی تھی’ مگر وہ مسٹر اینگری برڈ کو سزا دینا چاہتی تھی۔ وہ بھی غرنیق کے اسٹائل میں۔
”آپ کو کون سا پوائنٹ سمجھ نہیں آیا مس؟” وہ اس کا نام نہیں لیتا تھا اور یہ بات غرنیق کو اور تپا دیتی تھی۔
”مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا سر۔” اس نے اتنی معصومیت سے کہا کہ سب ہنس پڑے اورپھر مہرداد نے اسے ایک ہی سوال تین بار سمجھایا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ ایک بار بھی اس پر ناراض نہیں ہوا تھا اور اب اس کی تعریف بھی کررہا تھا۔
”ہماری بیٹی ہے ہی بہت ذہین۔” لالہ صاحب فخر سے بولے تو اس کو ذرا شرمندگی ہوئی۔
٭…٭…٭
آج ملک بھر میں ٹیکسیوں کی ہڑتال تھی۔ مہرداد نے گاڑی نہیں لی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ایک مہینے کے لیے گاڑی لینا محض فضول خرچی ہوگی۔ جانا تو اسے واپس فلائٹ سے تھا۔ وہ گاڑی میں لمبا سفر کرنے سے ہمیشہ چڑتا تھا اور اب وہ یونیورسٹی کے لیے لیٹ ہورہا تھا۔ گیٹ پر اسے کھڑے دیکھ کر لالہ صاحب جو آفس کے لیے نکل رہے تھے۔ انہوں نے ڈرائیور سے کہہ کر گاڑی رکوائی تھی۔
”کیا بات ہے مہرداد، یہاں کیوں کھڑے ہو۔”
”لالہ صاحب آج ٹیکسیوں اور رکشوں کی ہڑتال ہے اور مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یونیورسٹی کیسے جائوں؟”
لالہ صاحب اس کی بات سن کر ذرا متفکر ہوگئے۔ ان کے زیراستعمال صرف دو گاڑیاں تھیں ایک گاڑی آج ہی صبح ورکشاپ پر گئی تھی اور دوسری لے کر انہیں میٹنگ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ وہ فضول نمائش کے عادی نہیں تھے۔ نامور بزنس مین ہونے کے باوجود وہ کفایت شعار تھے اور گھر کو گاڑیوں سے بھر دینے کے اصول کے سخت خلاف بھی تھے۔ اچانک انہیں ایک خیال آیا۔ غرنیق بھی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
”ایسا کرو تم غرنیق کے ساتھ چلے جائو۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ اگر اہم میٹنگ نہ ہوتی’ تو میں ہی تمہیں چھوڑ آتا۔” ان کا خلوص اسے پھر شرمندہ کررہا تھا۔
”کوئی بات نہیں لالہ صاحب! میں مس کے ساتھ چلا جائوں گا۔” اس نے فوراً کہا تھا۔
”لو جی ہوگیا دن برباد۔ اب صبح صبح اس اینگری برڈ کے ساتھ جانا پڑے گا۔ پنکی ڈئیر حوصلے سے، یہ صدمہ کافی بڑا ہے۔”
وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ مہرداد جب غرنیق کے ساتھ گیراج کی طرف بڑھا’ تو اسے یہی لگا تھا کہ غرنیق کے پاس اپنی کار ہوگی’ مگر اسے سکوٹی پر بیٹھتا دیکھ کر وہ حیران بھی ہوا اور پریشان بھی۔ پریشان ہونے والی بات تو تھی۔ مہرداد جو کبھی سکوٹی تو کیا موٹرسائیکل پر بھی سوار نہیں ہوا تھا اسے اس ونڈر لیڈی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنا پڑ رہا تھا۔ اس کے جذبات کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
”ہم اس پر یونیورسٹی جائیں گے؟” وہ سکوٹی کو گھورتے ہوئے بولا تھا۔
”مائنڈ یو مسٹر، میری پنکی کو ایسی ویسی مت بولیے گا۔ یہ بُرا مناتی ہے اور پھر اسٹارٹ نہیں ہوا کرتی۔”
”وٹ پنکی؟”
”ہاں پنکی نام ہے میری سکوٹی کا۔” پنکی ان سے ملو یہ… ویسے تو تعارف کرانا نہیں چاہیے تمہارا موڈ بگڑے گا’ مگر چلو کرا ہی دیتے ہیں۔ آخر کچھ روزہ استاد ہیں ہمارے۔ مہرداد عالم ہیں یہ انہیں ہمیں یونیورسٹی ڈراپ کرنا ہے۔ تم بالکل مت گھبرانا ، بہت زیادہ موٹے نہیں ہیں۔ ہاں بس تھوڑے سے ہیں، اب ٹیچر ہیں اتنا تو چلتا ہے ناں۔” غرنیق نے فٹ سے بے چارے مہرداد پر چوٹ کی ‘ تو مہر داد خود کو دیکھنے لگا تھا۔
”کیا وہ موٹا ہوگیا ہے، شاید ایسا ہی ہو،وہ کل سے ایکسٹرا جاگنگ کرے گا۔” وہ دل ہی دل میں عہد کررہا تھا۔ غرنیق نے مہرداد کا چہرہ پڑھ لیا۔
”اب آیا مزہ ہونہہ اینگری برڈ ایک تو میری کہانی نہیں سنی اوپر سے میری پنکی کو شک کی نگاہ سے دیکھا،” وہ بَڑ بَڑائی۔
”نہیں! کیوں کچھ سنا کیا؟”
”نہیں!”
”تو پھر ہیلمٹ پہن لیجیے۔” اور اسے ہیلمٹ دے کر غرنیق نے سکوٹی اسٹارٹ کردی۔ شروع شروع میں تو وہ ڈرتا رہا’ مگر پھر اسے اچھا لگنے لگا ۔ یہ اس کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔
”مس ونڈر لیڈی اور ان کی پنکی اتنی بھی عجیب نہیں ہیں۔ بس ذرا سی الگ ہیں۔” وہ سوچتے ہوئے مُسکرا رہا تھا۔
٭…٭…٭