داستانِ محبت — ندا ارشاد

دوسرا باب
وہ پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوا تھا۔ جہاز میں بیٹھے آسمان پر گردش کرتے بادلوں کو دیکھتے ہوئے وہ ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھوم گیا۔ یہ بیس سال پہلے کا منظر تھا۔ جب پانچ سالہ مہرداد کرکٹ کھیل رہا ہے۔
”مہر دادآرام سے بیٹا گر جائو گے۔” ایک وجیہہ شخص اس سے مخاطب تھا۔ اس شخص کی آنکھیں بھی گہری سیاہ تھیں۔
”کون تھا وہ شخص؟ ”اس نے دماغ پر زور ڈالا۔ دماغ نے فوراً پیغام کو ڈی کوڈ کیا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”بابا جانی، میں نہیں گروں گا۔ میں تو مہرداد ہوں، میں سورج ہوں، میں شیر جوان ہوں۔” اس نے معصومیت سے کہا تھا۔
”بالکل میرا بچہ شیر جوان ہے۔” دوسرے مرد نے اسے آگے بڑھ کرگلے لگایا تھا۔ یہ دوسرا مرد اس کے آغا جان، آغا حسین عالم تھے۔ آغا جان نے مُڑ کر بابا جانی کی طرف دیکھا اور بولے:
”بھئی ڈاکٹر جہاں زیب عالم صاحب آپ کی سائنس نے ایسا کوئی فارمولا نہیں ایجاد کیا جس سے میرا شیر جلدی سے بڑا ہو جائے؟”
وہ اپنے آغا جان کی بات پر ہنس پڑے اور بولے:
”ایجاد تو نہیں ہوا’ مگر اب آپ کے پوتے کی خاطر ایجاد کرنا ہی پڑے گا۔” اسی بات پر دونوں ہنس پڑے تھے۔
یادیں دھندلی ہونے لگیں اور وہ ماضی سے حال میں واپس آگیا۔ ائیر ہوسٹس اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔
اس نے مشروبات کی ٹرے مہرداد کے آگے کی تھی۔
”سر مشروب لیجیے۔” “Sir drink Please.”
”نہیں صرف سادہ پانی کا ایک گلاس” “No, only a glass of Plain water”
ائیرپورٹ سے وہ اپنا سامان نکلوا کرباہر آیا۔ اس کا ارادہ ہوٹل جانے کا تھا’ لیکن دور سے کوئی اس کے نام کا بورڈ لیے چلتا ہوا نظر آیا۔ وہ حیران ہوا تھا کیوں کہ اسے لینے کسی کو نہیں آنا تھا۔ بورڈ پکڑے وہ شخص اب قریب آچکا تھا۔ پچاس پچپن سالہ باوقار شخص اس کے سامنے کھڑا تھا’ مگر وہ انہیں نہیں جانتا تھا۔
”آپ!!”




ان کے قریب آنے پر اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
”السلام علیکم! مہر… مہرداد میرے بچے کتنے بڑے ہوگئے ہو تم بالکل میرے جہاں زیب جیسے۔” انہوں نے اسے گلے لگا لیا۔ ان کے انداز میں پد رانہ شفقت تھی۔ مہرداد کو بھی وہ بہت اچھے لگے۔
”وعلیکم السلام! میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ کیا آپ بابا جانی کو جانتے ہیں؟”
”بھئی پہچانو گے کیسے، آخری بار جب تمہیں دیکھا ‘ تب تم صرف پانچ سال کے تھے۔ تمہارے بابا جانی میرے سب سے اچھے دوست تھے۔ ہم نے اسکول اور کالج کا عرصہ ایک ساتھ بِتایا۔ یونیورسٹی میں بھی ہم اکٹھے رہے۔ مضامین الگ ہونے کے باوجود ہماری دوستی میں کبھی کمی نہیں آئی ۔ پھر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی مجھے لاہور آنا پڑا’ مگر ہم ہمیشہ رابطے میں رہے۔ اگر آج میرا جہاں زیب زندہ ہوتا تو…” لالہ صاحب آب دیدہ ہوگئے۔ انہوں نے فوراً آنکھیں صاف کیں اور بولے:
”آئو میرے بیٹے گاڑی میں بیٹھتے ہیں، میں بھی کن باتوں میں لگ گیا۔” سامان ڈرائیور نے گاڑی میں رکھ دیا تھا۔ مہر داد کو لالہ صاحب بہت اچھے لگے اور وہ خود کو ان کے ساتھ جانے سے روک نہ پایا ۔
”جب آغا جان نے فون پر بتایا کہ تم لاہور آرہے ہو اور کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو میں نے انہیں فوراً منع کردیا۔ اب باپ کا گھر ہوتے ہوئے بیٹا ہوٹل میں آخر کیوں کر ٹھہرے گا۔” انہوں نے مان سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
”جی انکل!”
”ارے بھئی یہ انکل ونکل جیسے الفاظ میرے لیے مت استعمال کرو۔ یہ الفاظ تو بے معنی ہیں۔ سچے رشتوں کی مہک تو سچے لفظوں ہی سے آتی ہے۔ وہ الفاظ جو دل سے نکلیں اور دل میں اتر جائیں۔ میرے بچے تم مجھے لالہ صاحب کہو جیسے میری بیٹی کہتی ہے۔ کہو گے نا!!”
”جی لالہ صاحب!” اس نے مُسکراتے ہوئے کہا ۔ مہرداد اپنے آغا جان کو اچھی طرح جانتا تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ یونیورسٹی سے آکر سارا دن تنہا رہے۔ اسی لیے انہوں نے یہ سب کیا تھا۔ اس قدر فکر تھی انہیں’ مگر وہ بھی اب بدلنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ یہ مشکل ہے’ مگر ایک کوشش تو وہ آغا جان کے لیے ضرور کرے گا۔
٭…٭…٭
”رونلڈ ویلبر آخرتم خود کو سمجھتے کیا ہو! اتنا غرور تمہیں ہے کس بات کا، تم ہو کیا… خوب صورت ہو… ہاں مگر تم دنیا کے واحد وجیہہ مرد نہیں ہو، تم سے کئی زیادہ ہینڈسم چہرے میں نے ٹھکرائے ہیں۔ میرا نام سینڈی ہے۔ میں نے ہارنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ میری خوب صورتی کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ اگر تمہاری یہ انا میں نے پاش پاش نہ کردی’ تو میرا نام سینڈی نہیں۔” اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا کافی کا مگ دیوار پر دے مارا تھا۔ بہت زیادہ غصے کے باعث وہ کانپ رہی تھی۔ زیادہ غصہ آنے پر وہ ایسے ہی بے قابو ہو جایا کرتی تھی۔ سفید پینٹ اور بلیو شرٹ پر اس نے سفید کوٹ پہن رکھا تھا۔ کانچ سی ہری آنکھوں میں بلا کی سختی ہونے کے باوجود وہ مقابل کو مبہوت کرنے کے لیے کافی تھیں۔ اس نے اپنے گلابی ہونٹ، سختی سے بھینچ رکھے تھے۔ اس کے حسن کو دل ہی دل میں سراہتے ہوئے ٹونی بولا۔
”او کم آن ڈئیر جسٹ ریلیکس، ٹیک آڈیپ بریتھ” (آرام سے گہری سانس لو پیاری)
”تم کیوں اس بددماغ شخص کے پیچھے اپنا وقت برباد کررہی ہو۔”
”نو مونٹی میں اس اکڑو کو اس کی اوقات یاد دلا کر رہوں گی۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں ایسے گھٹیا لوگوں کو۔ دوسروں سے منفرد نظر آنے کے لیے بہت چیپ اور ڈسپو حرکتیں کرتے ہیں’ مگر وہ جانتا نہیں اس بار اس کا پالا غلط لڑکی سے پڑا ہے۔ مجھے چاہے جو بھی کرنا پڑے میں اسے اپنے قدموں میں ڈھیر کرکے رہوں گی۔ یہ شرط میں ہی جیتوں گی۔”
”او کم آن بے بی، تم اس سٹوپڈ سی شرط کو بھول کیوں نہیں جاتی، میرا ہی دماغ خراب تھا جو میں نے تمہیں ایسا چیلنج دیا۔” مونٹی کو رہ رہ کر اس منحوس گھڑی پر غصہ آرہا تھا جب اس نے یوں ہی سینڈی سے شرط لگا لی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ سینڈی شرط کو لے کر اس قدر سنجیدہ ہو جائے گی کہ تھپڑ کھانے کے باوجود اس کے سامنے مُسکرا کر آجائے گی۔
”نو مونٹی نیور، سینڈی جب شرط لگاتی ہے’ تو اسے جیت کے ہی دم لیتی ہے۔ ہارنا سینڈی کی سرشت میں نہیں۔”
”یو جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔” (تم بس انتظار کرو اور دیکھو)
٭…٭…٭
وہ واش روم سے نہا کر نکلا تھا۔ بال بنا کر جیسے ہی اس نے پرفیوم کی نوزل کو تھاما اس کے اندر سے آواز آئی تھی۔
”خوش ہو؟”
”پتا نہیں۔”
”کیوں؟”
”وجہ تم جانتی ہو مجھے ڈر لگتا تھا۔ اس بات پر خاموشی کو غصہ آیا تھا۔”
”آخر تم اتنا ڈرتے کیوں ہو؟”
”کیا تم نہیں جانتی! کیوں ڈرتا ہوں میں اتنا۔ کیوں میرا یہ خوف مجھے جینے نہیں دیتا، میں اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہوں۔”
”مگر تمہیں اب وہ بات بھول جانی چاہیے۔”
”بھول ہی تو نہیں سکتا۔ کاش! کاش کہ بھولنا اتنا آسان ہوتا۔ یہ اذیت تو تاعمر میرے ساتھ رہنے والی ہے۔ محبتیں یوں ہی مجھ سے چھنتی رہیں گی۔”
دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے خیالوں کی دنیا سے نکالا۔
”بیٹا آجائیں ڈنر تیار ہے۔”لالہ صاحب خود اسے بُلانے آئے تھے۔
”جی لالہ صاحب بس میں آ ہی رہا تھا۔” وہ ذرا سا شرمندہ ہوا ‘ لالہ صاحب کا خلوص اسے اپنے خول سے نکلنے پر مجبور کررہا تھا۔
ڈنر ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے موجود تھے۔ پورا ٹیبل مختلف لوازمات سے بھرا پڑا تھا۔
”معاف کرنا بیٹے، مجھے تمہاری پسند ناپسند کا اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے اندازے سے ہی ڈشز بنوائی ہیں۔”
”آپ مجھے شرمندہ مت کریں لالہ صاحب، آپ کا خلوص میرے لیے ہر شے سے بڑا ہے۔ ویسے بھی میں کھانے کے معاملے میں بالکل بھی موڈی نہیں ہوں۔ آغا جان کہتے ہیں رزق تو اللہ کی دین ہے اور اللہ کی نعمتوں سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر پھل ہر سبزی کو اللہ نے بڑے پیار سے پیدا کیا ہے’ تو پھر اللہ کی پیاری چیزوں میں نقص نکالنے والے آخر ہم کون ہوتے ہیں۔”
”تمہارے آغا خان ٹھیک کہتے ہیں میرے بیٹے۔”
”غرنیق بیٹا آجائو باقی کام رقیہ دیکھ لے گی۔” شاید وہ اپنی بیٹی سے مخاطب تھے۔
”جی ابھی آئی لالہ صاحب’۔’ کچن سے نسوانی آواز آئی تھی۔
یہ لیجیے آپ کی فیورٹ بادام کی کھیر۔” لڑکی نے ٹیبل پر کھیر کا بائول رکھتے ہوئے کہا ۔
”اوہ السلام علیکم!” شاید اس نے اسے اب دیکھا تھا۔
”وعلیکم السلام!” اس نے چہرے پر نارمل مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”یہ ہے میری پیاری بیٹی، اینڈ بیسٹ فرینڈ غرنیق شاہ۔” لالہ صاحب نے تعارف کا فریضہ سرانجام دیا ۔
”کیسے ہیں آپ؟ سفر کیسا گزرا۔” اس نے رسمی طور پر پوچھ لیا ۔ لالہ صاحب کا مہمان اسے بھی عزیز ہونا چاہیے اس نے خود کو باور کروایا۔
”جی میں ٹھیک ہوں اور سفر بھی اچھا گزرا۔” اس کے بعد اس عجیب سے نام والی لڑکی نے اس سے کوئی بات نہ کی’ مگر وہ اس سے متاثر ہوا تھا۔ اس کی خوب صورتی سے نہیں بلکہ اس کی بڑی بڑی بادامی آنکھوں سے، جن میں کچھ اپنا اپنا سا تاثر تھا۔ ایسا ہی تاثر اس نے اپنی سیاہ آنکھوں میں بھی دیکھ رکھا تھا، یہ کسی سے دوری کا تاثر تھا۔
٭…٭…٭




چھٹیوں کے بعد آج یونیورسٹی کھل رہی تھی۔ غرنیق کا جانے کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا’ مگر ردا نے اس کی ایک نہ سنی ۔
”یار اتنے دن گھر رہ رہ کر بور ہوگئے ہیں، اب تو میں مزید ایک دن بھی گھر میں نہیں گزارنے والی۔” ردا کی والدہ ڈاکٹر تھیں اور والد بزنس مین جب کہ اس کا بڑا بھائی انگلینڈ میں زیرتعلیم تھا۔ اس لیے وہ سارا سارا دن گھر میں اکیلی رہتی۔ اکیلی تو وہ بھی تھی’ مگر اسے عادت تھی وہ تنہائی پسند نہیں تھی’ لیکن اکیلے رہ سکتی تھی۔ سارا دن وہ کوئی نہ کوئی کام کرتی پائی جاتی۔ فارغ بیٹھنا اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس وقت بھی وہ کچن میں تھی جب ردا نے اسے فون کرکے فوراً تیار ہونے کی دھمکی دی۔ چار و ناچار اسے تیار ہونا پڑ ا۔ اس نے سفید و گلابی فراک اور سفید چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔ دوپٹے کو اچھی طرح سر پر سیٹ کرکے وہ نیچے اتر آئی۔
لالہ صاحب کو اللہ حافظ کہہ کر اور آفس جانے سے پہلے اور آفس جا کر دوا لینے کا وعدہ لیتی ہوئی وہ باہر آئی جہاں اس کی پنکی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ پنکی یعنی غرنیق شاہ کی عزیز از جان سکوٹی جو رابعہ بیگم نے اسے دو سال پہلے تحفے میں دی تھی۔ یہ رابعہ مما کا آخری تحفہ تھا۔ اس لیے غرنیق نے اسے ہمیشہ اپنے دل کے قریب محسوس کیا تھا۔ وہ کبھی بھی اسے چلاتے ہوئے احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ ایک سال پہلے جب لالہ صاحب نے اسے گاڑی گفٹ کرنا چاہی’ تو اس نے صاف انکار کردیا تھا۔ لالہ صاحب اپنی لاڈلی کی اس حرکت پر حیران تھے اور بولے:
”مگر بیٹا آج کل کے بچوں کو تو نِت نئی گاڑیوں، اسپورٹس کارز وغیرہ کا اس قدر شوق ہے پھر آپ کیوں منع کررہی ہیں۔”
”یہ سب تو نمائشی چیزیں ہیں لالہ صاحب، آپ کیا اپنی بیٹی کو اتنا سطحی سمجھتے ہیں۔ یہ اسپورٹس کارز اور نِت نئی گاڑیوں میں بیٹھ کر تعلیمی اداروں میں خود کو ہائی سوسائٹی کے افراد ثابت کرنا اور دوسروں کو خود سے کم تر سمجھنا اس سے گھٹیا سوچ اور کیا ہوسکتی ہے اور وہ آج کل کی لڑکیاں کیسی باتیں کرتی ہیں۔ وہ مسز عدنان کی بیٹیوں کو ہی دیکھ لیں۔”
”او ہیلو، غر ڈرالنگ، ہائو آر یو… او ڈئیر وٹس رونگ ود یُو تمہارے کپڑے کس قدر مڈل کلاس ہیں۔” (سلام غر کیسی ہو تم…) غرنیق منہ کو ٹیڑھا میڑھا کرکے بولی تو لالہ صاحب ہنس پڑے۔
”کپڑوں سے انسان کی شناخت کرنے والی سوسائٹی کو میرا دور ہی سے خدا حافظ۔”
اس دن کے بعد لالہ صاحب نے غرنیق سے کچھ نہیں کہا تھا انہیں اپنی تربیت پر فخر تھا۔
”ارے پنکی میری جان! آج تو اپنے مزے ہی مزے ہیں۔ سر ابراہیم چھٹی پر ہیں وہ بھی پورے ایک ماہ کی۔” اس لیے وہ اور ردا کافی خوش تھیں۔ کل ہی ردا نے اسے خبر دی تھی کہ سر ترکی کے ٹور پر روانہ ہو رہے ہیں اور ایک ماہ تک واپس نہیں آئیں گے۔
سر ابراہیم اس قدر بورنگ تھے۔ وہ کلاس میں اکثر اونگھتی پائی جاتی۔ سٹیٹس جیسا سبجیکٹ جب انہوں نے پڑھانا شروع کیا تب سے اسے سٹیٹس اور سر دونوں سے خوف آتا تھا۔
سر ابراہیم کلاس میں بے حد مشکل سوال کرنے کو کہتے اور پھر جواب نہ ملنے پر ایک ایک کی شان میں وہ قصیدے پڑھتے کہ اللہ کی پناہ… تو منظر کچھ یوں ہوتا۔
”طلحٰہ خالد۔” وہ اپنی آنکھیں طلحہ پر گاڑتے ہوئے۔
”جہ جہ جی… جی سر۔”
”جی… جی کے بچے۔ آگے آئو اور یہ سوال حل کرو۔”
”وہ… وہ… سر یہ تو بہت مشکل ہے۔ میں کل کردوں گا۔”
”ہاں ہاں کمپیوٹر ہیک کرکے دوسروں کو تنگ کرنا’ تو انتہائی آسان کام ہے۔ یہ سوال تو تمہیں مشکل لگے گا ہی گدھے۔” طلحہ بیچارہ اس خطاب پر ان کو دیکھتا رہ جاتا۔ اس قدر ہینڈسم شکل کے گدھے سر ہی تو بنا سکتے تھے’ مگر ہائے رے مجبوری، کون تھا جو کچھ کہہ پاتا۔ طلحہ کے بعد سر کلاس کو ایک نظر دیکھتے ‘ تو ہر کوئی نیچے منہ کرکے بیٹھ جاتا۔ اس خوش فہمی میں کہ شاید آج اس کا برا دن نہ ہو’ مگر ہائے ری قسمت جو ردا اور غرنیق سے اکثر دغا کر جاتی۔
”تم… تم کھڑی ہو جائو۔”
”میں سر… اپنی موٹی عینک اور دھڑکتے دل کو سنبھالتی سارہ جو اگلی سیٹ پر براجمان تھی بول پڑتی۔”
”تم نہیں تم بیٹھ جائو تمہارے پیچھے جو فیشن کی چلتی پھرتی دکان ہے میں اس سے مخاطب ہوں۔ بیچاری ردا سر کو گھور کر رہ جاتی وہ بس اپ ٹو ڈیٹ سی لڑکی تھی’ مگر سر نے تو اسے فیشن کی دکان ہی بنا ڈالا تھا۔ سر کے یہ مشہور خطاب صرف طلحہ یاردا تک محدود نہیں تھے۔ دانیہ بیچاری کوڑھ مغز، غرنیق سوئی چڑیا اور رضوان اپنے لمبے اور رنگ برنگ بالوں کے باعث لیڈی گاگا کے نام سے مشہور تھا۔ خیر اب سے اگلے ایک مہینے تک ان سب بے چارے افراد کی عید تھی۔ غرنیق کا دل بلیوں اُچھل رہا تھا۔ وہ ایسی ہی تھی خوش رہنے والی زندگی کو بھرپور انداز میں جینے والی وہ کہا کرتی تھی۔
”یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں موتیوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ بکھرنے سے پہلے انہیں سمیٹ لیں۔”
٭…٭…٭




دنیا بھر میں آج محبتوں اور رنگوں کا تہوار منایا جا رہا تھا۔ شہر شہر اور گلی گلی سج گئی تھی۔
”دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ خوشیاں مختلف انداز میں مناتے ہیں۔ یہ تو خوشیاں بانٹنے کے طریقے ہیں۔ لوگ کئی بہانوں سے انہیں تقسیم کرتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے پیچھے چاہے کوئی بھی کہانی ہو’ ہے تو یہ محبت بانٹنے کا طریقہ ہے ناں۔ جانتے ہو محبت کرنے کا لطف محبت کرنے میں ہی ہے۔” لنڈا زبردستی اسے ”’مین ہیٹِ ان” لے آئی تھی اور اب زور و شور سے تقریر کر رہی تھی۔ یہاں ہر طرف سرخ رنگ بکھرا ہوا تھا کہیں کہیں سفید بھی اس کے ہمراہ تھا۔
محبت وہ پاک جذبہ ہے جس کی عظمت آسمان اور زمین کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وہ پھول ہے جو نشوونما کے لیے کسی موسم کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ بے توجہی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اسے یہ سب بے کار کی چیزیں لگا کرتی تھیں۔
”بھلا کوئی رنگ بھی محبت کا اظہار کرسکتا ہے۔” یہ اس کا ذاتی خیال تھا’ مگر اس خیال کو لِنڈا تک پہنچانے کا مطلب ایک نئی تقریر کا آغاز تھا جو فی الحال اسے نہیں سننا تھی۔
وہ مین اسٹریٹ سے گزر رہے تھے جب لِنڈا ایک کیوٹ کپل کے پاس رُک کر تصویریں بنانے لگی۔ وہ کپل سر سے پائوں تک سرخ لباس بلکہ سرخ چوغوں میں ملبوس تھا۔ انہوں نے سروں پر کیوپڈ کی شکل والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور ہاتھوں میں سرخ تیر بھی تھامے ہوئے تھے جنہیں پکڑنے کا مقصد غالباً دوسروں کو اس کا شکار بنانا تھا۔ ایسے بہت سے نمونے اردگرد بھی گھوم رہے تھے۔ رونلڈ لِنڈا کو وہیں چھوڑ کر ذرا آگے بڑھ گیا۔ اچانک ایک گلی میں مڑتے وقت کسی نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ یہ سب اس قدر اچانک ہوا کہ اسے حالات سمجھنے میں کچھ وقت لگا اور جب اس نے پٹی کھولی’ تو وہ کچھ بول ہی نہ سکا۔ منظر ہی کچھ ایسا تھا۔ وہ جس گلی میں داخل ہوا وہ بے حد خوب صورت تھی۔ گلی کی چھت پر رنگ برنگ چھتریاں جُھول رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ چھتریاں اُڑ رہی ہوں۔ کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی گلی میں داخل ہورہی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان ہمیشہ ہی سے ایسے خوب صورت رنگوں سے بنا ہوا ہو۔ وہ رنگ ایک دوجے کے ساتھ مل کر اس کے دل کو منعکس کررہے تھے۔ اسے یاد کرنے میں دِقت ہوئی کہ وہ کہاں کھڑا ہے یہ تو کوئی اور ہی دنیا تھی۔ دیواروں پر رنگ ہی رنگ تھے۔ سرخ، نیلا، گلابی، سبز، پیلا اور بھی بہت سے رنگ جو جدید آرٹ کے مختلف نمونوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے۔ گلی کے فرش پر رنگ دار قالین بچھے ہوئے تھے جیسے دنیا رنگوں کی آماج گاہ ہو۔ اس دنیا میں رنگوں کے علاوہ جیسے کوئی شے موجود ہی نہ ہو۔ کیا رنگ اس قدر خوب صورت بھی ہوسکتے ہیں اس نے بے اختیار کہا تھا۔ ہاں بہت خوب صورت کبھی تم غور تو کرو۔ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ بے اختیار ہوکر مُڑا ۔ اسے لگا کہ لِنڈا ہے’ مگر پیچھے مڑتے ہی اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ سینڈی کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ اس نے بھی رنگ برنگ گائون پہن رکھا تھا۔ وہ بالکل ماحول کا حصہ لگ رہی تھی۔ اس کے کھلے بال ہلکی ہوا میں اُڑ رہے تھے۔
”تم… تم نے کیا ہے یہ سب!!!”
”ہاں! کیسا لگا میرا سرپرائز، دیکھو ویلنٹائن ڈے کو صرف سرخ رنگ سے مشروط کرنا میرے نزدیک انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔ یہ جہاں اس قدر خوب صورت رنگوں سے بھرا پڑا ہے۔ ہر رنگ محبت کا رنگ ہے۔ ہر رنگ کچھ کہتا ہے اور محبتوں کا اظہار اپنے طریقے سے کرتا ہے’ تو صرف سرخ رنگ کو فوقیت دینا سراسر غلط ہے۔ یہ سب محبتوں کے رنگ ہیں اور تمہاری محبت نے مجھے ان سب سے رنگا ہے۔” آخری بات کے اختتام پر اس نے اپنے گائون کو ہوا میں ذرا سا لہرایا۔
”تم… تم یہ سب کرکے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟”
”تم ابھی بھی نہیں سمجھے۔ ہم لڑکیاں اظہار کے معاملے میں ذرا سی چور ہوتی ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے محبوب سے زبردست قسم کے اظہار کی خواہش مند رہتی ہیں۔ اب ماحول تو میں نے بنا ہی ڈالا ہے۔ اگر تم اظہار کردو’ تو مجھے اچھا لگے گا۔”
”شٹ اپ! آئی سیڈ جسٹ شٹ اپ۔ ”(بند کرو اپنی یہ بکواس) اور دفع ہو جائو یہاں سے۔ اسے جانے کا کہہ کر وہ خود وہاں سے چلا گیا تھا’ مگر اس بار نہ جانے کیوں سینڈی کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ اچانک ایک قطرہ اس کی آنکھوں سے ٹپک کر اس کی ہتھیلی پہ آگرا۔
”نہیں مجھے اس شخص کو اپنے قدموں میں گرانا ہی ہوگا۔”
”تو پھر یہ آنسو کیوں؟” کہیں اندر سے آواز آئی۔
”یہ… یہ تو اس انسلٹ کی وجہ سے بس۔ میں یہ شرط جیت کر رہوں گی۔ سینڈی کبھی نہیں ہارتی۔” اس نے اپنی آنکھیں زور سے رگڑی تھیں اور دور کھڑا کیوپڈ اس کی بات پر مُسکرا دیا ۔ اس کا تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!