داستانِ محبت — ندا ارشاد

”سینڈی…”
یہ آواز… اس آواز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ یہ تو اس کے رونلڈ کی آواز تھی’ مگر وہ یہاں کیسے۔ شاید میرا وہم ہوگا۔ اس نے سر کو جھٹکا۔
”سینڈی ادھر دیکھو۔”
اس بار یہ وہم نہیں تھا’ مگر وہ یہاں کیسے آسکتا ہے۔ پتھر بن جانے کے خوف سے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ سیف اس کے سامنے آگیا ۔ اس نے آنکھیں زور سے میچ لیں اور اپنا ہاتھ دل کے مقام پر رکھے وہ اپنے اندر سے اُٹھتے شور کو دبا رہی تھی۔
”نہیں… نہیں یہ میرا وہم ہے۔ وہ یہاں نہیں آ سکتا۔” وہ آنکھیں بند کیے مسلسل بول رہی تھی۔
اسے دیکھتے ہی سیف بے اختیار سا ہوگیا تھا۔ سینڈی کا یہ روپ تو اس نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔ وہ اس قدر خوب صورت بھی لگ سکتی ہے۔ یہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ خوب صورتی سے دور بھاگنے والا سیف اللہ رحمن اس کی خوب صورتی کا مداح ہوگیا۔ لمبی دراز پلکیں بچھائے وہ سیدھی دل میں اتر رہی تھی۔
نظروں کے ارتکاز سے گھبرا کر اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول دیں اور سویرا جہانگیر اس کی بانہوں میں جھول گئی۔ سیف پریشان ہوگیا اور اسے فوراً بیڈ پر لیٹا کر اس نے سویرا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ سویرا نے آنکھیں کھول دیں اور ایک دم اُٹھ بیٹھی تھی۔ (کچن میں کھڑی لڑکی اسے سینڈی جیسی لگی’ تو وہ اس کے پیچھے آگیا تھا۔)
” رونلڈ… تم یہاں کیسے… تم…تو امریکہ میں تھے ناں… تو تم پاکستان… کیسے؟”
میرا نام سیف اللہ رحمن ہے، پھر وہ اسے سب کچھ بتاتا چلا گیا۔ اس کی محرومیاں، دکھ، اذیت اور ہر وہ بات جو اس کے دل میں تھی۔ سب کچھ سننے کے بعد سویرا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔




”میں تو تمہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں ہوں’ سیف۔”
”ایسا مت کہو سینڈی۔ اگر تم غلط تھی تو غلط میں بھی تھا۔ تم میری طرف بڑھی ضرور اس شرط کی وجہ سے تھی’ مگر تمہارے جذبے تو سچے تھے ناں۔ مجھے تمہیں سمجھانا چاہیے تھا۔ مجھے تمہیں مونٹی سے دور رکھنا چاہیے تھا۔ غلطی میری بھی ہے۔ میں نے تمہیں بہت ستایا بہت پریشان کیا۔ ” اس کے مقابل بیڈ پر بیٹھا سیف بول رہا تھا۔ اس کا ہر لفظ جذبات کی سچائی سے لبریز تھا۔
”ہاں بہت ستایا اور بہت رلایا بھی۔” میرا نام بھی سینڈی نہیں ہے۔
سویرا ہے۔ بس مجھے ناموں سے چھیڑ چھاڑ کا شوق ہے۔”
”سویرا… میں… میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں… میں اب دیر نہیں کرنا چاہتا۔”
”اور میں تم سے وہ سننا چاہتی ہوں۔”
”کیا تم میری زندگی میں محبتوں کے دیپ جلائو گی؟ محبتوں کے اس سفر میں کیاتم میری ہم سفر بنو گی…؟”
سویرا نے دیر نہیں کی۔ اس کا انتظار رنگ لے آیا۔ اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ داستانِ محبت کے دو کردار الجھنوں کو سلجھا چکے اور دو باقی تھے۔
٭…٭…٭
”مجھے تو اسے یہاں دیکھ کر یقین ہی نہیں آرہا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ خواب ہے۔ آنکھ کھلے گی تو سب غائب ہو جائے گا۔ اگر یہ خواب ہے’ تو میری اللہ سے یہی دعا ہے کہ میں ہمیشہ سوئی رہوں۔ میں اپنے کیے پر اس قدر شرمندہ تھی کہ میں نے امریکہ چھوڑ نے کا فیصلہ کیا۔ یہاں بڑی دادی کے پاس آکر میں نے زندگی کے نئے معانی سمجھے۔” سویرا بول رہی تھی اور غرنیق دم سادھے سن رہی تھی۔
”میں نے اپنے دین کو اور اپنے معاشرے کو قریب سے جانا۔ مجھے محبت ہوگئی تھی اور وہ بھی ایک غیرمسلم سے۔ یہ ادراک مجھے بہت دیر سے ہوا۔ یہ ادراک اس قدر جان لیوا تھا کہ میں نے پل پل اذیت میں کاٹا۔ میں نے خود کو سمجھانا چاہا’ مگر میں اپنے دل سے ہار گئی۔ یہ دل ایک بار کسی شخص کی شبیہ کو خود میں بسا لے تو اسے مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں اب اس دل میں کسی اور کو جگہ نہیں دے پائوں گی۔ میں نے خود کو اللہ سے دعائوں میں اسے مانگتے پایا۔ پھر میں ہر روز یہی کرنے لگی اور آج میرے رب نے میری پکار سن لی۔ بے شک وہ دلوں کو بدل دیتا اور دلوں کے راز جانتا ہے۔”
”محبت ایسی ہی پیاری چیز ہے جو انسان کو مشکل ترین کاموں کے لیے مجبور کردیتی ہے۔ تمہاری ریاضت اور محبت نے ہی اسے رونلڈ سے دوبارہ سیف بنایا۔ بے شک وہ دو جہانوں کا مالک اپنے بندوں کو بے پناہ چاہتا ہے۔ وہی ہے جو بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تم اس کارخیر میں وسیلہ بنو اس لیے انہوں نے مونٹی کے ذریعے تمہیں اکسایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے سویرا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ساری چالیں’ تو ہماری چلی ہوئی ہیں’ مگر بے شک اللہ سے بہتر تدبیر کوئی نہیں کرسکتا۔”
”بے شک!” وہ دونوں رات کو اپنے مشترکہ کمرے میں لیٹی باتیں کررہی تھیں۔ باتیں کرتے کرتے سویرا سو گئی ‘ مگر غرنیق جاگ رہی تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
٭…٭…٭
ان کی کار کے بریک فیل ہوگئے اور راستہ انتہائی خطرناک تھا۔ جب تک انہیں اس بات کا علم ہوا کہ بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں’تو اچانک ان کی کار سامنے آتی گاڑی سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھے دونوں گاڑیاں کھائی میں جاگریں۔ سامنے سے جو گاڑی ان کی کار سے ٹکرائی تھی وہ سیدھی نیچے گری اور زور دار دھماکے سے گاڑی میں آگ لگ گئی ۔ اُس میں بیٹھے تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ ان کی گاڑی معجزانہ طور پر ایک مضبوط درخت کی شاخوں میں الجھ کر فضا میں جھول گئی’ مگر کسی بھی لمحے گرسکتی تھی۔ سب سے پہلے مہردادکے اوسان بحال ہوئے ۔ اس نے شہریار اور آمنہ کو حوصلہ دیا جو بُری طرح بوکھلائے ہوئے تھے۔پھر شہریار اور اس نے مل کر آمنہ کو نہایت احتیاط سے اوپر چڑھایا جو پچھلی سیٹ پر بیگ تھامے دبکی ہوئی تھی۔ پھر مہرداد نے شہریار کو چڑھنے میں مدد دی ۔ شہریار پہلے نہیں جانا چاہتا تھا’ مگر مہرداد نے ضد کی’ تو مجبوراً وہ مان گیا۔ابھی شہریار اوپر پہنچا ہی تھا کہ ہوا کا ایک زور دار جھونکا آیا اور گاڑی لڑھکتی ہوئی کھائی میں جاگری۔ مہرداد خوشی قسمتی سے چٹانوںپر گرنے کے بجائے ندی میں جا گرا۔ جب اس کی آنکھ کھلی’ تو وہ ہسپتال میں تھا۔ بے ہوشی کے دوران اسے لگتا کہ غرنیق کسی تکلیف میں ہے اور اسے پکار رہی ہے۔ کبھی آغا جان نظر آتے اسے بہت یاد کررہے ہیں اور پھر سب کچھ ختم ہو جاتا۔ بس ایک بوڑھی عورت کی آواز رہ جاتی جو اس سے باتیں کرتی’ مگر وہ اسے جانے کیوں علی احمد پکارا کرتی تھی۔ ہوش میں آنے پر اسے پتا چلا کہ وہ پچھلے چھے ماہ سے کوما میں رہا ہے۔ گائوں کے لوگوں نے اسے ندی میں بہتا ہوا دیکھا’ تو اسے قریبی ہسپتال پہنچا دیا۔ جب اس کا کوئی اتا پتا نہ لگ سکا’ تو گائوں کی ایک معمر امیر خاتون نے اس کے اخراجات اٹھائے اور اس کا علاج جاری رکھا۔ بوڑھی خاتون جن کا نام کنول بی بی تھا وہ بالکل اس کی داد ی کی عمر کی تھیں۔ وہ اسے اپنے گھر لے آئی تھیں۔ جب تک وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہوگیا بڑی دادی اور ان کی پوتی سویرا نے اس کی بہت خدمت کی۔ بڑی دادی اسے علی احمد بلاتی تھیں۔ یہ ان کے بیٹے کا نام تھا جو بچپن میں چھت سے گر کر فوت ہوگیا تھا۔ اسے بھی یہ نام پسند آیا تھا۔ شہریار سے رابطہ ہونے پر اسے معلوم ہوا کہ آغا جان اس کی خاطر کس قدر پریشان ہیں۔ اس کے کھائی میں گرنے کی خبر سنتے ہی انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ہوش میں آنے پر آغا جان اسے ہر وقت یاد کرتے رہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا پوتا شیر جوان ہے اسے کچھ نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ بڑی دادی سے اجازت لے کر گھر واپس آگیا تھا۔ آغا جان کے گلے لگ کر وہ بچوں کی طرح رویا تھا۔ بیگ کا پوچھنے پر اسے پتا چلا کہ آمنہ کے بھائی کی مدد سے بیگ محفوظ ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے۔ شعیب خان کے تمام ثبوت سچ ثابت ہوئے اور ملک سے غداری کرنے ‘ جہاں زیب عالم اور ان کی اہلیہ کے قتل کے جرم میں اسے عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ حارث اور اس کی والدہ نے ان سے معذرت کی تھی۔ حارث بے قصور ہوتے ہوئے بھی بہت شرمندہ تھا۔ اسے اپنے ڈیڈ سے ایسی گھنائونی حرکت کی امید نہیں تھی۔ مہرداد نے اسے گلے لگا لیا۔
٭…٭…٭




رات کے پچھلے پہر وہ چھت پر بیٹھا غرنیق کو اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا۔ غرنیق کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مہرداد نے رات کو اسے کچن میں جاتے دیکھا’ تو اسے لے کر چھت پر آگیا تھا۔ غرنیق بھی مہرداد کے حصے کی صفائی سننا چاہتی تھی’ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ مہرداد کا مقصد کس قدر عظیم تھا۔
”محبت نے میرے دل سے تمام خوف نکال دیے ہیں۔ میں نے جانا ہے کہ چاند دوبارہ طلوع ہو سکتا ہے، پرندوں کی چہچہاہٹ اور درختوں کے پتے دوبارہ آسکتے ہیں’ لیکن ایک بار کھوئی ہوئی محبت ہمیشہ کے لیے چھن جاتی اور جھیلنے کے لیے صرف غم رہ جاتا اور میں غم زدہ ہوکر زندگی نہیں گزار سکتا۔”
”تم جانتی ہو غرنیق جب میں بے ہوش تھا’ تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی میرے اندر ٹوٹ رہا ہے۔ یہ میں نہیں تھا۔ میں نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھنا چاہا’ مگر میں حیران رہ گیا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکنیں شور مچاتی ہوئی محسوس ہوئیں’ لیکن یہ شور بڑا عجیب تھا۔ عین اسی وقت محبت کا”ت” مجھ پر آشکار ہوگیا تھا۔ جب ہمارا دل کسی اور کے دل سے جڑ جاتا ہے’ تو اس کی دھڑکنیں ہماری دھڑکنوں سے مل جاتی ہیں اور پھر ایک شور سا اُٹھتا ہے۔ یہی شور محبت کرنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس شور میں ڈوب کر انہیں صرف دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آواز اس قدر بلند ہوتی ہے کہ انہیں کوئی اور صدا سنائی نہیں دیتی۔ محبت کرنے والوں کی دھڑکنیں اس وقت ایک ہوجاتی ہیں۔”
مہرداد کے الفاظ غرنیق کے دل کی آواز تھے۔ اب وہ اسے اپنا وہ خراب سنا رہا تھا جو داستانِ محبت پر مبنی تھا’ مگر اس بار وہ داستانِ کامل تھی۔ وہ سب قطار میں بیٹھے تھے۔ وسیع و عریض ہال میں کئی قطاریں تھیں۔ مہرداد، آغا جان، غرنیق، لالہ صاحب شہریار اور آمنہ پہلی قطار میں بچھی کرسیوں پر براجمان تھے۔ بڑی دادی، سیف اللہ، سویرا اور سیف کے والدین دوسری قطار میں تھے۔
”ناظرین آج کی یہ تقریب ڈاکٹر جہاں زیب عالم کے لیے منعقد کی گئی ہے جنہوں نے نہ صرف فارمولا بیج تیار کرکے وطن پاکستان کی خوش حالی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ دشمن عناصر کو اس سرزمین کے رازوں سے دور رکھنے کے لیے اپنی جان بھی قربان کردی۔ جی ہاں ہم بات کررہے ہیں ڈاکٹر جہاں زیب عالم کی جنہیں حال ہی میں نوبل پرائز بھی دیا گیا ہے۔ یہ تقریب مسز جہاں زیب عالم کے لیے منعقد کی گئی ہے جنہوں نے وطن کی باوفا بیٹی ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ یہ تقریب ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سرزمین پاک کی محبت میں کٹ تو سکتے ہیں مگر بک نہیںسکتے۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ مہرداد عالم، شہریار علی اور ان کی اہلیہ آمنہ شہریار کو جنہوں نے اس راز کو وطن کے محافظوں تک پہنچانے میں اپنی جان کی بازی لگا دی۔ ”اسٹیج پر کھڑے آرمی جنرل کی تقریر ختم ہوئی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہر طرف پاکستان زندہ آباد کے فلک شگاف نعرے لگ رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب خود اس تقریب میں موجود تھے۔ ڈاکٹر جہاں زیب عالم کو ستارہ امتیاز دیا گیا اور اسلام آباد ریسرچ لیبارٹریز کا نام جہاں زیب عالم لیبارٹریز رکھ دیا گیا۔ مہرداد، شہریار اور آمنہ کو تمغہ جرأت دیا گیا۔ تقریب میں حارث اور اس کی والدہ بھی شریک تھے اور تقریب کے آخری میں انہوں نے مہرداد سے کہا تھا۔
”تمہارے آغا جان ٹھیک کہتے ہیں۔ میرا پوتا بہادر شیر جوان ہے۔
٭…٭…٭
صبح بہت روشن اور چمک دار تھی۔ پرندے چہچہا رہے تھے۔ ہوائیں گنگناتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ غرنیق نے کسل مندی سے آنکھیں کھولیں۔ سورج کی کرنیں چھن چھن کرکے اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔ بستر سے اُٹھ کر اس نے کھڑکی کے پٹ کھول دیے۔ اچانک کچھ خیال آنے پر اس نے بستر کی جانب دیکھا مہرداد پھر غائب تھا۔ ان کی شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے۔ ان پانچ سالوں میں مہرداد نے آغا جان کے بزنس کو بہت ترقی دی۔ سویرا رخصت ہوکر سیف کے سنگ عراق چلی گئی۔ عبدالرحمن بن عوف کا وسیع کاروبار اب سیف نے سنبھال لیا تھا۔ ان دونوں کی شادی ایک ہی دن ہوئی تھی۔ سویرا اور سیف کی زندگی میں الف اور احمد کی صورت میں حسین اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ دونوں بہت خوش تھے اور سال میں ایک بار پاکستان ضرور آتے۔ لالہ صاحب مستقل طور پر بڑی دادی کے پاس رہنے لگے۔ خود غرنیق اور مہرداد کی زندگی میں اُسید عالم کی آمد سے بہاریں آئی تھیں۔ وہ باہر آئی تو آغا جان لائونج میں بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھے۔ آج کل ان کی روٹین میں عبادت کرنا اور اُسید کے ساتھ کھیلنا شامل تھا۔ توقع کے عین مطابق وہ دونوں اسے لان میں مل گئے تھے۔ اُسید جو اپنی تازہ تیار کردہ کہانی مہرداد کو سنانے میں مصروف تھا اسے دیکھ کر بولا:
”مما جلدی آئیں آپ نے بڑا اہم پارٹ مس کردیا ہے’ میں آپ کو بعد میں سنائوں گا۔ تو بابا جان پھر فیری نے پرنس کو وہ قیمتی پتھر دے دیا۔”
اُسید کی پیدائش پر انہوں نے بہت سوچ کر اس کا یہ نام رکھا تھا۔ اُسید کا مطلب ”نوجوان شیر تھا” اور اپنے نام کو لے کر وہ اسی عمر میں ڈھیر ساری کہانیاں بنا چکا اور بہت سی باقی تھیں۔
اس کی شکل بالکل مہرداد جیسی تھی۔ ویسی ہی مغرور سی ناک بقول غرنیق میرا بیٹا کہیں اینگری برڈ ہی نہ بن جائے’ مگر اس کی تمام عادتیں ونڈر لیڈی جیسی ہی ہیں۔ مہرداد اس کو چِڑانے کے لیے کہا کرتا۔ کیوں کہ اُسید کی کہانیاں بنانے کی عادت بالکل غرنیق جیسی تھی۔
”آج آفس نہیں جانا کیا؟”
”میڈم جب تک صاحب زادے کی اسٹوری ختم نہیں ہو جاتی۔ میرے فرشتوں نے بھی کہیں نہیں جانا۔” مہرداد ہنستے ہوئے کہتا۔
”اُسید بیٹا چلو بس کرو بابا کو آفس جانا ہے۔”
”اوکے بابا میں گریٹ گرینڈ آغا جان کو سناتا ہوں، آپ کو باقی شام میں سنائوں گا۔” اُسید کہہ کر اندر بھاگ گیا۔ وہ اپنے بیسٹ فرینڈ گریٹ گرینڈ آغا جان کو پہلے بھی یہ اسٹوری سنا چکا تھا’ مگر وہ کبھی اس کی کسی اسٹوری سے نہیں اکتائے تھے۔ اس لیے تو گریٹ گرینڈ آغا جان کا خطاب پایا تھا۔
” تو مسٹر اینگری برڈ اب اگر آپ کو بھی کوئی کہانی نہیں سنانی تو چلیں اندر تیار ہو جائیں۔”
”مائی ونڈر لیڈی ہماری تو ہر کہانی آپ ہی سے شروع اور آپ ہی پر ختم ہوتی ہے۔”مہرداد نے جھکتے ہوئے کہا۔
”غرنیق میں نے کل وہ کارڈز پڑھے جو آپ کی کلاس نے آخری دن میرے لیے لکھے تھے۔ یقین مانیے سب سے دلچسپ کارڈ میری بیگم ہی کا تھا۔ ”غرنیق یاد آنے پر مُسکرا دی ۔ اس نے لکھا ہی کچھ ایسا تھا۔
”ذہانت پر تصور کی فتح کا نام محبت ہے۔”
داستانِ محبت وہیں سے شروع ہوئی تھی۔ چاند کی شہزادی اور سورج کے شہزادے کے درمیان ایک خطرناک پل تھا۔ شہزادی کی آنکھوں پر پٹی تھی اور پل کے اس پار سورج کا شہزادہ اس کا انتظار کررہا تھا۔ شہزادی کی ایک غلطی اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شہزادے سے دور کرسکتی تھی۔ شہزادی نے اپنا ہاتھ عین دل کے مقام پر رکھ لیا تھا۔ اچانک شہزادے نے شور سنا ۔ یہ شور تو دھڑکنوں کا تھا، مگر اس شور میں صرف اس کی دھڑکن شامل نہیں تھی۔ اس کی دھڑکنیں شہزادے کی دھڑکنوں سے مل کر ساز بجا رہی تھیں۔ اس کے اندر شہزادے کا دل دھڑک رہا تھا، مگر یہ ہوا کب؟ ادھر پل کے اس پار کھڑے شہزادے کے تاثرات بھی مختلف نہ تھے۔ شہزادی کی دھڑکنوں کا شور اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہا تھا۔ محبت کا ”ت” بیک وقت ان دونوں پر آشکار ہوا تھا۔ یہ ”ت” ہے تجارت کا ایسی ویسی نہیں دلوں کی ”تجارت” کا۔ محبوب کی دھڑکنیں عاشق کے دل میں سنی جاسکتی ہیں۔ یہی دھڑکنیں عاشق کو بتا دیتی ہیں کہ اس کا محبوب کس حال میں ہے۔ اگر وہ خوش ہوتا ہے تو دھڑکنیں بھی پرسکون رہتی ہیں’ لیکن اگر وہ غمگین ہو تو یہی دھڑکنیں اس قدر شور مچاتی ہیں کہ یہ شور زمین و آسمان کی آوازوں سے اونچا محسوس ہوتا ہے۔ محبوب کا دل عاشق کے دل سے ہر بات کرلیتا ہے۔ دلوں کی یہ تجارت محبتوں کے خالص پن کی نشانی ہے۔
تو شہزادی نے شہزادے کے دل کو جب اپنے اندر پایا’ تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی ڈور ہے جو اسے کھینچ رہی ہے اور وہ اسی ڈور کے ساتھ کھینچی چلی آئی اور پُل عبور کرنے لگی۔ وہ صرف شہزادے کے دل کی آواز سُن رہی ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہے۔ آگ کے شیطانوں نے چیخنا شروع کردیا’ مگر شہزادی نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی اسے تو بس ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی۔ شہزادے کی دھڑکنوں کی آواز اور پھر چاند کی شہزادی غرنیق نے سورج کے شہزادے مہرداد کی دھڑکنوں کی پکار سنتے ہوئے آگ، دکھ اور تکالیف کا وہ پل عبور کر ہی لیا۔ اب وہ شہزادے کے ساتھ جاکھڑی ہوئی اور شور بڑھتا چلا گیا۔ یہ شور آگ کے شیطانوں کا نہیں وہ تو کب کے پھولوں کے ڈھیروں میں بدل گئے یہ تو ان کی دھڑکنوں کے ملاپ کا شور ہے۔ یہ داستانِ محبت کے اختتام کا شور تھا۔
اس کے ساتھ ہی ندا اپنا قلم روک دیتی ہے۔بے شک محبتوں میں افضل ترین محبت اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں میں چھپی نفرتوں کو محبتوں میں بدل دے آمین۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صاحبِ حال — بلال شیخ

Read Next

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا – شکیل بدایونی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!