پہلا باب
ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے اس کی روح کھینچ لی ہو۔ اس کے تاثرات خطرناک حد تک عجیب تھے۔ آنکھوں میں ایک انجانا سا خوف اور دل تو جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا تھا۔
”یہ… یہ جھوٹ ہے یہ سب۔ دھوکا ہے، فریب ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ بھلا میرے ساتھ ایسا کیسے ہوسکتا ہے!!” یک دم اُسے ہوش آیا تھا۔ ”میں… میں… نہیں… ہرگز نہیں… آخر کیوں… میں ہی کیوں… ایسا سخت امتحان… میں نے تو… تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، پھر ایسی بدعا…” الفاظ ٹوٹ رہے تھے اور شاید وہ خود بھی۔ اچانک ہی اس کا سر چکرایا اور کاغذ کا ٹکڑا جانے کب کااس کے ہاتھوں سے پھسل کر گر چکا تھا۔ آخری منظر جو اس نے دیکھا وہ کوئی شخص تھا جو اندر داخل ہوا تھا کون تھا وہ؟؟وہ وی سی صاحب کے شان دار دفتر میں بیٹھا تھا۔ وہ کسی میٹنگ کی وجہ سے لیٹ ہوگئے تھے اور اسے انتظار کرنے کو کہا گیا تھا۔
”خوش ہو؟” اچانک اندر سے آواز اُبھری تھی۔
”خوش… ہاں شاید تھوڑا سا… مگر تمہیں کیا تم چپ رہو۔” اس نے جیسے خود کو ڈانٹا۔
”کیوں؟ میں کیوں چپ رہوں۔ تم خوش ہو’ تو میں کیوں نہ جھوموں ناچوں خوشیاں منائوں؟”
ایسا ہرگز مت کرنا۔
”مگر کیوں؟ مہر داد عالم۔”
”تمہیں پتا ہے نہ کہ میری خوشیوں کی عمر بڑی مختصر ہوتی ہے۔ تم کیوں چاہتی ہو کہ میرا سکون برباد ہو۔”
”سکون… میں ایسا کیوں چاہوں گی… تمہارے سکون سے میرا چین بھی مشروط ہے۔ مان لو کہ تم ڈرپوک ہو۔”
”ہاں ہاں میں ڈرپوک ہوں… ڈرتا ہوں میں ا ور مجھے اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ یہ میری زیست کا حصہ ہے سمجھی تم؟ جائو اب۔”
”السلام علیکم ینگ مین! سوری تمہیں بہت انتظار کرنا پڑا۔” وی سی صاحب اپنے دفتر میں داخل ہوئے تھے۔
”وعلیکم السلام سر! اور معافی کس بات کی۔ میرے پاس کافی وقت ہے آج کل۔”
”تمہارے آغا جان کیسے ہیں مہر؟”
”اللہ کا شکر ہے سر! بس تھوڑے سے ضدی ہیں، باقی سب سیٹ ہے۔” اس کی بات پر وہ ہنس پڑے۔
”ارے اب عمر ہی ایسی ہے ہم بڈھوں کی۔ اس عمر میں ضد نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟ وہ بھی کیا دن تھے جب ہم جوان تھے۔” وہ ماضی کی حسین یادوں میں کھو گئے۔ جب وہ صرف شجاع بخاری تھے۔ کوئی وی سی نہیں، وہ اور مہر داد کے آغا جان آغا حسین عالم اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ آغا صاحب جیسے خوب رو اور ذہین شخص سے دوستی کا ہر کوئی خواہاں تھا۔ شجاع حسین ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں ان کی گہری دوستی میسر تھی۔ آغا حسین عالم ملک کے نامور رئیسوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ درحقیقت سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے’ مگر اتنی دولت کے باوجود عاجزی ان کی طبیعت کا خاصا تھی۔ بہت سے گھرانوں کے پیٹ ان کے دم سے بھرتے تھے اور آج پچاس سال بعد ان ہی کا وارث شجاع صاحب کے سامنے تھا۔ چھے فٹ سے نکلتا قد، چوڑا سینہ، کشادہ پیشانی، سرخ و سفید رنگت اور بہت گہری سیاہ آنکھیں جو بہت کچھ کہتی تھیں۔ اس کی شخصیت کا سحر دیکھنے والوں کو جکڑ لیا کرتا تھا’ مگر اس کی مغرور ناک جو صرف مغرور نظر آتی تھی اور آنکھوں کی سرد مہری کسی کو اس کے قریب نہیں جانے دیتی تھی۔ وہ سیاہ آنکھیں چیخ چیخ کر کہتی تھیں ہمارے پاس مت آئو یہاں تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔
شجاع صاحب اچانک چونک پڑے۔ وہ ان سے کچھ کہہ رہا تھا۔
”سر کہاں کھو گئے’ آپ نے بتایا نہیں کیوں بلوایا ہے مجھے۔”
”مہرداد میں چاہتا ہوں کہ تم کچھ عرصہ یونیورسٹی میں بہ طور معلم خدمات سرانجام دو جب تک تم آگے کا کچھ سوچ نہیں لیتے تقریباً تب تک۔” انہوں نے سنجیدگی سے کہا تھا’ مگر مہرداد سمجھ گیا کہ یہ کوئی درخواست نہیں بلکہ حکم ہے۔
”دیکھو بیٹا! تم بہت ذہین ہو۔ اپنا گولڈ میڈل یوں ضائع مت کرنا یہ اس بات کی نشانی ہے کہ تم یہاں کے قابل ترین اسٹوڈنٹ ہو’ تو اپنے علم سے دوسروں کو بھی فیض یاب ہونے دو یہ تمہارا فرض ہے میرے بچے۔ یہ صرف میری ہی نہیں تمہارے آغا جان کی بھی خواہش ہے۔”
مہرداد نے ناراض ہونے کی اداکاری کی’ مگر مدمقابل شجاع صاحب تھے۔ اس نے فوراً ہی اپنے تاثرات تبدیل کیے تھے۔
”سر یہاں مجھے سب جانتے ہیں اسی سال تو ایم بی اے کیا ہے میں نے۔ میں یہاں استاد کی حیثیت سے نہیں پڑھا پائوں گا۔ اپنی طرف سے اس نے بات ختم کی تھی’ مگر شجاع صاحب کے الفاظ نے اسے دوبارہ وہیں لاکھڑا کیا تھا۔
تم اس کی فکر مت کرو، تمہیں یہاں نہیں پڑھانا نہ ہی قائداعظم یونیورسٹی کے کسی اور کیمپس میں۔ تم لاہور جارہے ہو، تمہیں وہاں ایجوکیشن یونیورسٹی کے طالبات کو سٹیٹس پڑھانی ہے۔”
اسے آغا جان کا سارا پلان سمجھ آگیا تھا۔ وہ اسے تنہا رہ کر گھٹنے نہیں دینا چاہتے تھے۔ وہ بچپن ہی سے ایسا کیا کرتے تھے۔ اسے ہمیشہ مصروف رکھتے تھے اور اب پڑھائی ختم ہونے کے بعد جب اس نے کچھ عرصہ کے لیے تنہائی چاہی’ تو اسے وہ بھی نہیں دی گئی تھی’ مگر وہ اس تنہائی کا کیا کرتا جو اس کے دل میں تھی۔ کاش وہ آغا جان کو سمجھا سکتا۔
٭…٭…٭
وہ ساری رات بے چین رہا اور ٹھیک سے سو بھی نہیں سکا تھا۔ صبح پانچ بجے وہ اپنی روٹین کے مطابق جاگنگ ٹریک پر تھا۔ راستے میں اسے آغا جان مل گئے۔ وہ جوانی سے جاگنگ کے عادی تھے۔ یہ عادت اس نے انہی سے لی تھی۔ بچپن میں جب وہ اٹھنے میں سستی کرتا’ تو آغا جان کہتے:
”صحت کی بنیاد قائم کرنے اور تندرستی برقرار رکھنے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان عادات سے گریز کیا جائے جو طاقت اور قوت کو ضائع کرتی ہیں۔”
”وہ کون سی عادات میں آغا جان؟” وہ معصومیت سے پوچھا کرتا۔
”سستی اور کاہلی۔ میرے بچے عام انسان کے لیے سات گھنٹے، کاہل کے لیے نو گھنٹے اور آوارہ انسان کے لیے گیارہ گھنٹے نیند درکار ہے۔ میں نہیں چاہتا تم سست اور کاہل بنو۔”
دس میں نو حصے برائیاں اور تکالیف صرف سستی سے پیدا ہوتی ہیں۔
تو کیا تم سست بن کر وہ تکالیف جھیل سکو گے۔ آغا جان اسے سمجھایا کرتے۔
”السلام علیکم! صبح بہ خیر آغا جان۔”
”وعلیکم السلام! صبح بہ خیر میرے بچے۔ جیتے رہو، خوش رہو، مسرتیںتمہارا مقدر بنیں۔” وہ اسے ہمیشہ ہی ڈھیر ساری دعائوں سے نوازا کرتے تھے اور وہ سوچتا رہ جاتا کہ کیا خوشیاں واقعی اس کا مقدر بن سکتی ہیں… آج کل یونیورسٹی سے فارغ ہوکر وہ تھوڑا بہت خوش تھا’ مگر اس کی آنکھیں پھر بھی اس کا ساتھ نہ دیتی تھیں۔
”مہر داد چلو بیٹا گھر چلیں۔” آغا جان اس سے مخاطب تھے۔
جی چلیں! وہ گھر کے راستے کی طرف گامزن تھے۔
”بیٹا تم نے اپنا سامان پیک کرلیا۔”
”جی آغا جان۔ مہر داد میرے بچے تم قسمت کے بارے میں اتنا مت سوچا کرو۔” آغا جان نے جیسے اس کے دل کی بات پڑھ لی ہو۔ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے۔ اس کی ہر تکلیف کو فوراً سمجھ لینے والے۔
”قسمت کے متعلق ایک بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ انسان ہر اچھے کام کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے اور ہر غلط کام کے لیے قسمت کا رونا روتا ہے۔”
”اور اگر قسمت نہ بدلے تو آغا جان۔”
”خود کو بدل دو، قسمت خود بہ خود بدل جائے گی۔” ایک دم ہی جیسے وہ تپتی ریت سے ٹھنڈے سمندر میں آگیا تھا۔ اس نے خود کو بدلنے کا کبھی نہ سوچا تھا۔ وہ خود کو بدلے گا اگر قسمت کو بدلنے کا یہی راستہ ہے تو وہ ضرور کوشش کرے گا۔ آغا ولاز کے باہر آج اس نے خود سے عہد کیا تھا اب اسے وہ عہد نبھانا تھا۔
”محبت اگر خود ساختہ اصول کی پابند ہوتی’ تو اس کا وجود مٹ چکا ہوتا۔ یہ تو وہ جبلی جذبہ ہے جو ازل سے ابد تک قائم رہے گا۔ زمانے کی اقدار کے ساتھ اس کے روپ اور انداز بے شک بدلتے رہتے ہیں’ لیکن اس کے جذبے کے حسیاتی پہلو کا جہاں تک تعلق ہے، یہ وہی ہے جو دنیا کے پہلے انسان کا تھا اور دنیا کے آخری انسان کا ہوگا۔”
ارے واہ محترمہ غرنیق شاہ صاحبہ آپ کا فلسفہِ محبت تو کمال ہے۔ ردا نے اسے داد دیتے ہوئے کہا تھا۔
وہ مسکرا کر بولی:
”ڈئیر یہ کوئی فلسفہ نہیں یہ حقیقت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہم سب محبت کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور یہ ہمارے وجود کا بنیادی اصول ہے۔”
ردا نے یہ بات سنتے ہوئے گھڑی دیکھی’ تو فوراً کھڑی ہوگئی۔ ”ہم محبت کی یہ کلاس بعد میں جاری رکھیں گے۔ فی الحال مجھے شاپنگ کے لیے جانا ہے۔ پہلے ہی دیر ہوگئی ہے سوگڈ بائے۔”
”اللہ حافظ ردا۔” اسے چھوڑ کر جب وہ اوپر واپس آئی اور حسبِ عادت لالہ صاحب کے کمرے میں جھانکا’ تو وہ سو رہے تھے۔ اس نے اے سی آن کیا اور ان پر کمبل ڈال کر باہر نکل آئی تھی۔
٭…٭…٭
نیو ڈیفنس لاہور کے اس علاقے میں سب سے شان دار بنگلے کے باہر شاہ ہائوس کی تختی لٹک رہی تھی۔ شام کے نیلگوں سائے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اس شان دار سے بنگلے میں سیڑھیوں سے اوپر دائیں جانب، پہلے کمرے میں وہ اپنے بستر پر نیم داز تھی۔ اس نے کسل مندی سے کروٹ لی’ تو اچانک وال کلاک پر نگاہ پڑی وہ فوراً اُٹھ بیٹھی۔ یہ لالہ صاحب کی دوائی کا وقت تھا۔ وہ فریش ہوکر جلدی سے نیچے آئی۔ لالہ صاحب باہر لان میں بیٹھے تھے۔ چھٹی کے دن وہ سرشام ہی لان میں بیٹھ کر اخبار پڑھا کرتے تھے۔
”السلام علیکم لالہ صاحب!”
”وعلیکم السلام! اُٹھ گئی میری بچی۔”
”جی لالہ صاحب! آپ نے مجھے اُٹھا دیا ہوتا جانے کب تک سوتی رہی میں۔ آپ کی دوا کا وقت ہوگیا تھا۔ وہ تو شکر ہے میری آنکھ کھل گئی۔” ”کوئی بات نہیں بیٹا۔ تھوڑا بہت آگے پیچھے تو چلتا ہے۔ یہ دوائیاں تو ویسے بھی میری دشمن ہیں۔ لالہ صاحب نے مُسکراتے ہوئے کہا ا ور اپنی پیاری بھانجی کو غور سے دیکھنے لگے۔
کتنی بڑی ہوگئی تھی غرنیق۔ انہیں وہ چار سال کی بچی یاد آئی جب وہ پہلی بار ان کی عزیز از جان بہن فاطمہ شاہ اور ان کے پیارے دوست اور بہنوئی فیاض شاہ کے انتقال کے بعد ان کے گھر ہمیشہ کے لیے رہنے آئی تھی۔ شروع میں بہت ڈرا کرتی تھی’ مگر آہستہ آہستہ سنبھل گئی جس کی دار اِن کی شریک حیات رابعہ شاہ تھیں۔ ملک کے نامور صنعت کار ہونے کے باوجود وہ ایک نعمت سے محروم تھے۔ وہ نعمت اولاد تھی۔ غرنیق کی صورت میں اکرام شاہ اور رابعہ شاہ کو بیٹی مل گئی تھی۔ آہستہ آہستہ غرنیق بھی انہیں اپنا ماں باپ ماننے لگی تھی۔ دوسال پہلے رابعہ بیگم کے انتقال کے بعد غرنیق ہی ان کا واحد سہارا تھی۔ وہ کبھی باپ بیٹی بن جاتے، کبھی دوست تو کبھی بہن بھائی۔ غرنیق میں انہیں اپنی بہن فاطمہ کا عکس نظر آتا تھا۔ غرنیق شاہ جو خوب صورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ کھلتی گلابی رنگت بڑی بڑی بادامی آنکھیں، لمبی دراز پلکیں، بھر بھرے گلابی ہونٹ، ستواں ناک اور ہونٹوں کے اوپر تل وہ بالکل ان کی فاطمہ ہی تھی۔
”لالہ صاحب آپ نے دوا نہیں لی ناں۔” غرنیق کی بات پر وہ گڑ بڑا گئے۔ انہیں اپنے کاموں میں دوا یاد ہی کہاں رہتی تھی۔ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے’ مگر دوا سے ہمیشہ جان چھڑاتے تھے۔ غرنیق ہی ان کے پیچھے پڑی رہتی اور انہیں تمام دوائیاں وقت پر کھلاتی تھی۔
”او بیٹا بس میں لینے ہی والا تھا۔” لالہ صاحب نے فوراً بہانہ تراشا۔
” اچھی طرح جانتی ہوں میں سب، آپ پھر سے دوائی سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ اپنی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ جائیں، مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔” اس نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
”ارے میرے بچے! آپ ناراض کیوں ہو رہی ہیں۔ آئی پرامس میں آیندہ اپنی ساری دوائیاں ٹائم سے لوں گا۔” غرنیق کا منہ ہنوز پھولا ہوا تھا اور اکرام صاحب جانتے تھے کہ اسے کیسے منانا ہے۔
”ٹھیک ہے۔ اگر آپ ناراض ہیں’ تو وہ قلفہ فلیور آئس کریم میں جو میں لایا ہوں۔ مجھے ہی کھانی پڑے گی اب۔” انہوں نے مصنوعی اداکاری کرتے ہوئے کہا ۔
”واؤ آئس کریم… او آئی لو یو لالہ صاحب…” وہ کہہ کر اندر بھاگ گئی اور لالہ صاحب مسکرا دیے۔ وہ ایسی ہی تھی معصوم بالکل بچوں جیسی۔
٭…٭…٭
”رون… رون… سنو تو رک جائو پلیز… ”وہ مسلسل اسے پکار رہی تھی’ مگر وہ تو جیسے سن ہی نہیں رہا تھا۔
مسٹر رونلڈ ویلبر آئی سیڈ سٹاپ “Mr. Ronald Wilbar I said stop” لنڈ ا نے غصے سے کہا’ تو وہ چلتے چلتے رک گیا۔
”ِلِنڈا پلیز اب تم سینڈی کی حمایت مت شروع کردینا۔”
”میں اس کی حمایت نہیں کروں گی۔ میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جو کچھ ہوا بہت غلط ہوا۔ تمہیں اسے تھپڑ نہیں مارنا چاہیے تھا۔” رونلڈ نے غصیلے تاثرات کے ساتھ اس کی بات سنی اور ساتھ ہی اپنے کیبن کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ لِنڈا بھی اس کے پیچھے اندر آ گئی ۔
”تھپڑ نہ مارتا’ تو اور کیا کرتا۔ اس کی حرکت ہی ایسی تھی جب وہ جانتی ہے کہ مجھے اُس میں کوئی دل چسپی نہیں پھر کیوں آتی ہے وہ بار بار میرے پیچھے۔” وہ اپنی راکنگ چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولا ۔
”کیوں کہ وہ تمہیں بہت پسند کرتی ہے رون۔ بس اس کا اظہار کرنے کا طریقہ تھوڑا غلط ہے۔”
”پسند… پسند اور زبردستی میں فرق ہوتا ہے۔ وہ انتہا درجے کی گِری ہوئی لڑکی ہے۔ کس حق سے وہ ہر جگہ میرا پیچھا کرتی پھرتی ہے۔ میں نے اسے بہت اگنور کیا، غصے سے اور ٹھنڈے دماغ سے سمجھانے کی کوشش بھی کی’ مگر وہ اس قدر ضدی ہے۔”
لِنڈا جانتی تھی رون اپنی جگہ سہی ہے۔ سینڈی ان کے باس کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ چیزوں کو حاصل کرنا اپنا حق سمجھتی تھی جو چیز اسے پسند آجاتی وہ اس کی ہوکر رہتی تھی’ مگر رون کوئی کھلونا نہیں تھا جسے وہ حاصل کرسکتی۔ سینڈی نے اپنی تمام تر کوششیں کرکے دیکھ لیں تھیں’ مگر رون ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ جوپورے آفس میں ”روڈ ڈوڈ” Rude dude کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ بلاشبہ بے حد وجیہہ تھا۔ خوب صورت تو بہت سے مرد ہوتے ہیں’ مگر وہ شان دار تھا اور مغرور بھی۔ جنہیں وہ روڈ ڈوڈ لگتا تھا ان کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ اپنی ذات میں گم رہنے والے رونلڈ ویلبر کی واحد دوست لِنڈا جیمز تھی۔ وہ امریکی سیاہ فام تھی اور رونلڈ کو بچپن سے جانتی تھی۔ ان کی دوستی کی ابتدا تب ہوئی جب لِنڈا کے پڑوس میں وہ چھوٹا سا رون آبسا تھا جو خوب صورت لڑکیوں سے دور بھاگتا تھا۔ بالکل ہر خوب صورت شخص سے۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے لِنڈا سے اس کی دوستی ہوگئی۔ اس دوستی میں بنیادی کردار آٹھ سالہ لِنڈا ہی کا تھا جو بیس سال گزرنے کے باوجود قائم تھی۔
رونلڈ کے لیے سینڈی کے اس قدر پاگل پن کی وجہ اس کی چڑ تھی۔ جی ہاں وہی چڑ جو رونلڈ کو ہر خوب صورت آدمی سے تھی۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کا باشندہ ہونے کے باوجود وہ صنفِ نازک کی خوب صورتی سے کوسوں دور تھا اور اندر ہی اندر وہ خوب صورتی سے نفرت کرتا تھا۔ کم از کم اس کا یہی خیال تھا۔ اس کا یہ خیال بہت جلد غلط ثابت ہونے والا تھا۔
٭…٭…٭
شاہ ہائوس میں غیرمعمولی چہل پہل تھی۔ لالہ صاحب نوکروں کو مختلف ہدایات دے رہے تھے۔ پورے گھر میں خوب گہماگہمی تھی۔ اس نے بے چین ہوکر تیسری بار پوچھا تھا۔
”لالہ صاحب بتائیں نہ کون آرہا ہے، آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہے۔” اس کی آواز میں اب کی بار ناراضی تھی۔
”غرنیق میرے سب سے پیارے اور مرحوم دوست کا بیٹا آرہا ہے۔ اسلام آباد سے” آخر وہ بول ہی پڑے تھے۔
”مگر لالہ صاحب ہم اسے یہاں کیوں ٹھہرا رہے ہیں۔ وہ کسی ہوٹل میں کیوں نہیں رہ رہا۔” غرنیق کا سوال درست تھا اس سے پہلے انہوں نے کبھی کسی دوست کے بیٹے کو یوں گھر پر نہیں ٹھہرایا تھا۔
”بیٹا جی میں آپ کی حیرانی سمجھ سکتا ہوں، مگر یہ کوئی عام مہمان نہیں ہے۔ مہرداد میرے مرحوم دوست جہاں زیب عالم کی اکلوتی اولاد ہے۔ وہ میرے لیے بالکل سگے بیٹے جیسا ہے۔ میں نے بچپن میں دیکھا تھا اسے صرف پانچ سال کا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہوا۔ آغا جان] اس کے دادا انتہائی رحم دل اور شریف انسان ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب میرے اپنوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا’ مگر آغا جان نے میری ہر طرح سے مدد کی تھی۔ مجھے آج بھی وہ الفاظ یاد ہیں جو آغا جان نے مجھ سے کہے تھے۔
”اکرام بیٹا! کامیاب ترین افراد کو بھی ناکامیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے’ مگر وہ اپنی مضبوط قوت ارادی سے کام لے کر بالآخر کامیابی سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔ ”تمہیں اُٹھ کر گرنے اور گر کر اُٹھنے کا اصول سیکھنا ہوگا۔ بڑی بڑی کامیابیوں کے لیے چھوٹی چھوٹی ناکامیاں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ یہی چھوٹی ناکامیاں بڑی کامیابیوں کے لیے راستے ہموار کرتی ہیں۔” ”ہر ناکامی اپنے دامن میں کامرانی کے پھول لیے ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم کانٹوں میں اُلجھ کر نہ رہ جائیں۔” لالہ صاحب کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ لالہ صاحب اُٹھ کر مہر داد کا کمرا دیکھنے چل دیے ۔ اسے مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسے بھی اب اس اجنبی کا انتظار تھا۔
٭…٭…٭