”غریب لوگ بھی گھومنے پھرنے جا سکتے ہیں نا؟“ اُس نے حسرت کی باریک سوئی میں مان سے سوال کا دھاگا گزارا۔
”عقل مندی کی بات کر ، بڑا مشکل ہے یہ۔“ صغیر نے بے مرّوتی کی قینچی سے فوراً دھاگا کاٹ دیا۔
”بانو کا شوہر غریب ہے، وہ پھر بھی اُسے سمندر گھمانے لے گیا تھا اور آپ کی بہن بھی تو گئی تھی لاہور گھومنے۔“ اُس نے پھر دو چار مثالوں کے دھاگے ہاتھوں میں اُٹھا لیے۔
”تو تجھے کیا لینا دینا اِس سے ؟ تُو کیوں پوچھ رہی ہے ؟“ سیدھی بات کے اجلے دھاگے سے بے وقوفی کا میلا دھاگا اُلجھا۔
”میری بڑی تمنا ہے کہ میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ گھومنے جاﺅں۔“ اُس نے خود ہی ساری گرہیں کھولیں۔
”تو جوڑ لے چند پیسے، تجھے بھی لے جاﺅں گا گھومانے۔“
”سچ ؟“ وہ خوشی سے تقریباً اُچھل پڑی۔ صغیر نے بے پروائی سے اُمید کی گوٹی پھینکی تھی جو اُس نے مضبوطی سے تھام لی۔
اُس نے ایک بار پھر پری کا دیا ہوا پھول دل سے لگا لیا ۔وہ ایک نئے جوش سے کپڑے سینے میں لگ گئی۔ گھر کے اخراجات میں سے بھی پیسے بچا بچا کر بچت کرتی ۔ کانچ کا خواب، لکڑی کی پرانی الماری میں رکھ دیا گیا تھا۔ وہ روز اُسے دیکھتی اور حساب کتاب لگاتی۔ وہ پھول کاڑھتے کاڑھتے گنگناتی رہتی اورکپڑے سیتے سیتے مسکرانے لگتی۔ اُس کے چہرے پر جو مسرت کی لہریں اُبھر رہی تھیں، صغیر جان گیا تھا کہ وہ سمندر دیکھنا چاہتی ہے۔
آج اُس نے سوچا الماری سے رقم نکال کر گنے اور صغیر سے کہے کہ چلو اِس دنیا سے دور کسی اور دنیا میں سکون کے چند پل گزار آئیں۔ وہ پیسے ہاتھ میں تھامے سپنے دیکھ رہی تھی کہ حقیقت کا در کھلا اور صغیر بوکھلاہٹ میں اندر داخل ہوا۔
”بینا! میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے لا یہ پیسے مجھے دے۔“ صغیر نے روتے ہوئے پیسے اُس کے ہاتھ سے جھپٹ لیے۔ پھول اِتنی زور سے کھینچا گیا کہ پتی پتی بکھر گئی۔ ایکسیڈنٹ میں اُس کے دیور کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی معاً اُس کے حسین خواب کی کمر بھی۔ اُس نے بے بسی سے پری کو دیکھا اور آنسوﺅں میں بھیگی پتیاں اُس کے سپرد کر دیں۔
خواہشوں کی کثرت اور ناکامیوں کی زیادتی نے اُسے اندرونی کیا، ظاہری طور پر بھی بدل دیا تھا۔ ملائم ہاتھوں کو کھردری پرت نے ڈھانپ لیا، تو بھوری آنکھیں موٹے چشمے میں چھپ گئیں، گورے رنگ پر رات نے قبضہ کیا، تو سیاہ بالوں پر دن نے ڈیرا ڈال لیا۔ وہ جتنے بھی پیسے جمع کرتی، کبھی نندوں کا جہیز بنانے میں لگتے، تو کبھی دیور کے مسائل سلجھانے میں ،کبھی ساس کی صحت پر خرچ ہوتے، توکبھی شوہر کے کاروبار پر۔وہ بت بنی پھولوں کے ملنے، مرجھانے اور بکھرنے کا تماشا دیکھتی رہی۔
نندیں، دیور اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو ئے تو اُس کی زندگی میں بھی کچھ ٹھہراﺅ آیا۔ پری اب بھی آتی تھی، لیکن وہ منہ پھیر لیتی، جیسے اُسے جانتی ہی نہ ہو ۔مشین کی آواز بلند سے مدھم ہو گئی، مگر اِس آواز سے رشتہ، کمزور ہونے کے بہ جائے مضبوط ہو چکا تھا۔ دھاگے اب بھی اردگرد پھیلے ہوئے تھے، مگر اُن کے رنگوں میں اُسے اپنی نہیں بچوں کی خواہشیں نظر آتی تھیں ۔ دونوں بچے جوان ہو رہے تھے ۔پری بھی اپنے شباب پر تھی، مگر ان تھک محنت نے اُسے بوڑھاکر دیا تھا۔
ایک عرصے بعد پری سے پھول قبول کر لیا گیا۔ وہ عمرہ کرنا چاہتی تھی۔ اُس نے ایک بڑی کمیٹی ڈال لی اور دن رات اِس خواہش کے پورا ہونے کی دعائیں مانگنے لگی۔اِس آرزو نے اُس کے اندر زندگی بھر دی تھی، مگر اِس نئی زندگی کی عمر بھی عارضی تھی
”امّاں بہت بوڑھی ہو چکی ہیں ۔پہلا حق اُن کا ہے بینا! پہلے میں اُنہیں عمرہ کروادوں، پھر تجھے بھی لے جاﺅں گا۔“ کمیٹی نکلی تو ایک اور قربانی نے اُسے دبوچ لیا۔ اِس بار وہ روئی نہیں۔ قربانیوں نے اُس کا ظرف اِتنا بلند کر دیا تھا کہ اُس نے خوشی خوشی یہ پھول شوہر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
وہ مشین چلاتی رہی اور وقت دوڑتا رہا۔صغیر ادھورے وعدوں کے سنگ دنیا سے جا چکا تھا۔ وہ اب بیٹوں کے آسرے پر تھی، جو شخصیت میں اُس کے برعکس تھے۔وہ جتنی اعلیٰ ظرف اور فرماں بردار تھی وہ اُتنے ہی کم ظرف اور نافرمان تھے۔ٹوٹا دل پیسے جوڑنے کومانتا ہی نہیں تھا، لیکن وہ پھر بھی پیسے جمع کرتی۔مٹی کے گلّے سے لے کر، کپڑے کی چمکیلی تھیلی تک، چمڑے کے نیلے بٹوے سے لے کر، لکڑی کی پرانی الماری اور کمیٹی تک، اُس نے ہر ذریعے سے پیسے کو آزمایا تھا، مگر وہ اُس کی خواہشوں کے لیے کبھی بھی نہیں تھا۔
کافی سالوں بعد وہ بانو سے مل رہی تھی ۔بانو اُسے دیکھ کر رو پڑی۔ اچھی بیٹی، اچھی بہن، اچھی بیوی، اچھی بہو،اچھی ماں، اچھا انسان۔ ہر رشتے نے کتنی سفاکی سے اُس کی اچھائی کا امتحان لیا تھا ۔وہ تو پاس ہو گئی، مگر ساری خواہشیں ہار گئیں تھیں۔
”پری اب بھی آتی ہے کیا بینا؟“ بانو نے دکھ سے پوچھا۔
”آتی ہے، اُس نے تو میرا پیچھا چھوڑا ہی نہیں۔ بانو اب میری کوئی تمنا نہیں۔ وہ پھول دیتی جارہی ہے۔ پھول جمع ہو رہے ہیں، مگر میں نہیں جانتی کس خواہش کے واسطے ، کس مقصد کے لیے۔ اب پرانے بکسے میں پیسے رکھتی ہوں ،وہی جو امّاں نے دیا تھا۔سب رشتوں، سب چیزوں میں ایک وہی، تو میرے پاس بچا ہے۔ “وہ نقاہت سے بول رہی تھی، مگر اُس کے چہرے پر سکون تھا۔بانو سمجھنے سے قاصر تھی کہ ایک لٹی ہوئی عورت کے اِس سکون کی وجہ کیا ہے؟
بانو دو روز بعد اس کے سکون کی وجہ سمجھ گئی ۔ پھولوں کے جمع ہونے کا مقصد جان گئی ۔بینا ایک طویل مسافت طے کرکے منزل پر پہنچ چکی تھی۔ ایک لمبی بے سکونی کاٹ کر سکون سے سو چکی تھی۔وہ دوسروں کے خواب سیتی تھی اور اُس کے اُدھیڑ دیے جاتے تھے۔ وہ تکیے کے نیچے پھول رکھتی تھی جو کانٹے بن جاتے تھے۔اُس نے رشتوں کو دینا سیکھا تھا اور رشتوں نے بس چھیننا ۔
اُس نے ساری عمر محنت سے پیسے جمع کیے جو اُس پر کبھی خرچ نہ ہو سکے تھے، مگر مرنے کے بعد بے حس بیٹوں نے نہ جانے اپنے پیسے بچائے تھے یا اُس کے پیسوں کا احترام کیا تھا ۔ اُس کی آخری رسومات پر بوسیدہ بکسے کی جمع پونجی لگی تھی۔ خواہشوں کی پری نے سسکتے ہوئے ٹوکری کے سارے پھول، اُس کی قبر پر گرا دیے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ