”سچی ؟“ اُس نے جوش سے گلابی رنگ کی گوٹی مٹھی میں دبالی۔ بانو کی تعریف سے چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بڑی خوشی سما گئی تھی۔
”مسئلہ تو وہی ہے بانو، اِس خواہش کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟“وہ دل گرفتہ ہو کر گلابی گوٹی دھاگوں والے ڈبے میں رکھنے لگی۔
”غم کیوں کرتی ہے پگلی، پھر سے پیسے جمع کر لے۔ اِس بار میں تجھے کپڑے کی تھیلی سی دوں گی، اُس پر چند پھول کاڑھ کے موتی ستارے بھی لگا دوں گی۔“بانو نے نئی خواہش کو نئی راہ دکھائی تو بینا نے جھٹ سے اُسے گلے لگا لیا۔
اُسے چمکیلی تھیلی پر بہت پیار آیا تھا۔ بانو نے اُسے بنایا ہی اِتنا خوب صورت تھا۔ وہ اُسے سینے سے لگائے رکھتی اور بڑے شوق سے اُس میں پیسے جمع کرتی۔ اُس کا سر، نئے خواب کے تکیے پر تھا اور جیب خرچ کا ایک روپیہ تھیلی کی آغوش میں چھپتا جارہا تھا۔امّاں کی سلائی میں اچھی کمائی ہوتی، تو وہ چند پیسے اور بھی دے دیتی تاکہ اُس کی اچھی عادت بنی رہے۔
خواب کی تعبیر آس پاس محسوس ہونے لگی کیوں کہ عید قریب آرہی تھی۔ امّاں کے ہاتھ جتنی بھی تیز رفتار سے چلتے ابھی خوش حالی کی پہنچ سے بہت دور تھے۔ آمدنی اِتنی تھی جس سے بہ مشکل گھر کا نظام اور ابّا کی سانسیں چل رہی تھیں۔ امّاں نے دکھ سے اعلان کر دیا کہ اِس عید پر کسی کے کپڑے نہیں بنیں گے، مگر ٹیپو نے صرف ماں کا اعلان ہی نہیں بلکہ اپنے ننھے منے دوستوں کا اعلان بھی سنا جو اچھے اچھے کپڑے بنا رہے تھے۔ وہ رو رو کر ضد کر رہا تھا اور امّاں رو رو کے دعا۔وہ خالی ہاتھ تھی اور چھوٹے لاڈلے بیٹے کے ہاتھ میں خواہش کی تتلی جس تک پہنچنے کا اُسے ایک ہی راستہ نظر آیا۔
”وہ چھوٹا ہے، بہت نازک دل ہے اُس کا۔عید پر اُس کے ساتھی اچھے کپڑے پہنیں گے، تو اُس کا دل ٹوٹے گا۔میں جلد ہی تجھےویسا غرارہ بنا دوں گی۔“ ایک اور خواہش منزل تک پہنچتے پہنچتے پھر لُٹ چکی تھی۔وہ اِتنی سمجھ دار ہو گئی تھی کہ مٹھی میں بند پھول خود نیچے گرا دے۔کوئی بحث کیے بغیر اُس نے چمکیلی تھیلی ماں کے سامنے رکھ دی ۔
اب وہ زیادہ وقت بانو کے گھر گزارتی تھی تاکہ سلائی سیکھ کر چند پیسے کما سکے۔اُسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ ابّاکے چلتے پھرتے صرف پانچ جماعتوں کا سفر طے ہوا تھا، مگر اب ہاتھوں میں قلم کتاب کی جگہ دھاگوں کی گوٹیاں تھیں جنہیں وہ کبھی ناگواری سے پٹختی تو کبھی مجبوری سے اُٹھا لیتی۔وہ اب بازار نہیں جاتی تھی۔اُسے بازار سے نفرت محسوس ہوتی تھی، جو نئی چیزوں کا جھانسا دے کر غریبی کا احساس دلاتا تھا اور خوب صورت خواب دکھا کر بدصورت تعبیر دیتا تھا۔
امّاں آج بازار سے اُس کے لیے نیلا پرس لائی تھی ۔وہ تھوڑی پرسکون ہوئی کہ شاید لٹ جانے والی خواہشوں کو تسلی دی جارہی ہے۔
”بانو، رات وہ پھر آئی تھی ایک بڑا پھول تھما گئی ہے ہاتھوں میں۔“
”کیا کہتی ہے اب تیری پری؟“بانو کو سفید دھاگے سے کھیلتی کالی آنکھیں بے حد اُداس لگیں۔
”کہتی ہے چار جماعتیں اور پڑھ لے، جیون کی گاڑی چلانے کے قابل ہوجا، ورنہ تو بس اِس گاڑی کو گھسیٹنا ہی مقدر ہوگا۔
”پیسے توتُو، جیسے تیسے کرکے جمع کر ہی لے گی ،لیکن اب تُو بڑی ہو گئی ہے، اسکول جائے گی تو لوگ مذاق اُڑائیں گے۔“سفید دھاگے کی گوٹی کو ہاتھ میں مسلتے ہوئے بانو نے کالا دھاگا پکڑایا۔
”نہیں جاﺅں گی تو میرا دل مجھے کوسے گا، دماغ بے عزت کرے گا ۔راستے دو ہی ہیں بانو! منہ پر جہالت کا تالا لگا کر ضمیر کی ہنسی پر چپ رہوں یا قابلیت کے در کھول کر لوگوں کے تمسخر کا جواب دوں۔“ اُس نے بات اتنی گہری کی تھی کہ بانو چند ثانیے اُسے تکتی رہ گئی۔
وہ باقاعدگی سے امّاں کے دیے گئے بٹوے میں پیسے جمع کر رہی تھی۔ وہ اُس ہنر میں طاق ہو چکی تھی جس نے اُسے دن کے وقت کپڑے اور رات کو اُدھڑے ہوئے خواب سینا سکھایا تھا۔ہاتھو ں نے سلائی کڑھائی سیکھ لی تھی پر خوابوں کی پیوندکاری میں مات کھا گئے تھے ۔ اُس نے جتنے بھی ٹانکے لگائے، خوابوں سے دھاگے نکل ہی گئے۔ جتنی بھی آبیاری کی، بند مٹھی میں کچھ پھول مر ہی گئے ۔آگے پڑھنا، بانو کی شادی پر اُسے اچھا تحفہ دینا، میلا دیکھنا، نئے کپڑے بنانا، نہ جانے کتنی خواہشیں دل کے زندان میں گُم نام ہو چکی تھیں۔
مشین کا پہیہ گُھوم رہا تھا پر قسمت وہیں رکی ہوئی تھی۔ بٹوے میں جمع ہونے والے پیسے، کبھی ٹیپو کی کاپی پنسل پر خرچ ہوتے تو کبھی سجّو کی فرمائش پر ،کبھی ابّا کی دوائی پر لگتے، تو کبھی گھر کے راشن پر۔ امّاں نے محبت میں بٹوے کا تحفہ دے کر اُس کی محنت اور صبر کا خوب امتحان لیا تھا۔
بانو جب بھی میکے آتی، بینا سے ضرور ملتی۔ آج کتنے عرصے بعد اُسے بینا کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آئی، شرمیلی سی مسکراہٹ۔
”بانو! اب تو پری بھی بڑی ہو گئی ہے۔بڑی بڑی باتیں کرتی ہے ۔اِس بار جو اُس نے پھول دیا ہے، اُس کی تو خوش بو ہی نرالی ہے ، مدہوش کرنے والی ، نشیلی سی خوشبو۔“ وہ سُرخ دھاگے کو پیار سے چھو رہی تھی۔
”اچھا، تو کیا سکھا گئی ہے وہ تجھے؟“بانو کو اُس کی اِس خیالی دنیا سے اب خوف آتا تھا۔
”سکھایا نہیں، بتایا ہے اُس نے کہ اب میں گاﺅں چھوڑ کر شہر جانے والی ہوں ۔نئی دنیا میں، نئے لوگوں میں، جہاں میری سب خواہشیں پوری ہوں گی۔“
”واقعی ! سچ کہہ رہی ہے تُو؟“ بانو نے اُس کا ماتھا چوم کر خوشی سے گلے لگا لیا۔ وہ اِس خوش خبری کی کب سے منتظر تھی۔
امّاں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُس کے پیسوں سے اب اُسی کی چیزیں بنائے گی۔ یہ پہلا وعدہ تھا جو امّاں نے پورا کیا۔اُس کے جہیز کی چند چیزوں میں اُس کی اور امّاں کے خون پسینے کی محنت شامل تھی۔ گھر بدل گیا تھا۔جگہ بدل گئی تھی، مگر لوگ وہی تھے، خواہشوں کی آنکھیں نکالنے والے، خوابوں کی گردن پر پاﺅں رکھنے والے، ارمانوں کے سینے پر وار کرنے والے۔
پیٹ کاٹ کاٹ کر بنائی گئی چیزوں میں جس کو جو پسند آیا، اُس نے لالچ کے منہ میں ٹھونس لیا اور وہ اِس پھول کو روتا دیکھ کر مصنوعی ہنسی ہنستی رہی ۔کبھی کبھی اُسے لگتا کہ امّاں نے جلد بازی میں اُسے بیاہ دیا تھا۔ کچھ لوگوں نے غربت پر ترس کھایا، تو امّاں شرافت سے متاثر ہو گئیں، مگر وہ بھی بڑائی کا دیدہ زیب لباس پہنے اندر سے کھوکھلے انسان نکلے۔
پہلے اور اب کی زندگی میں کوئی فرق نہ تھا۔میکے میں اُس کی خواہشیں مجبوری کی چھری سے ذبح ہوتی تھیں، تو سسرال میں اُس کے خواب بے حسی کے خنجر سے قتل ہونے لگے۔وہ پھر بھی کچھ لکھنا پڑھنا جانتی تھی، مگر اُس کا شوہر لکھنے پڑھنے کے علاوہ سمجھنا بھی نہیں جانتا تھا ۔انسانوں کی کڑوی زبانوں سے گھبرا کر اُس نے پھر مشین کی میٹھی آواز سے دوستی کر لی۔