”قسم ہے زمانے کی انسان نقصان میں ہے۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہے اور صبر کی ہدایت کرتے رہے۔ (وہ البتہ نقصان میں نہیں ہیں)۔”
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگوں کے سامنے اپنے گالوں کو پھلا کر رکھنا، زمین پر اکڑ کر چلنا دراصل خود پسندی اور خود نمائی کی علامت ہے۔ باہمی میل جول میں تکبر کرنے سے اپنی گردن کو اکڑ کر رکھنے سے انسان پہاڑوں کی اونچائی تک نہیں پہنچ سکتا۔ انسانی شخصیت میں توازن ہونا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے چال میں بھی اعتدال کو پسند فرمایا۔
دولت، طاقت، علم اور حسن کی فراوانی انسانی نفس کے گرد پنجے گاڑ لیتی ہے اور بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا شخص کی چال ڈھال بتا دیتی ہے کہ وہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ اس کے برعکس مسکینی کی حالت میں بھی انسانی نفس نمائشی درویش کا روپ دھار کر مریل چال چلنے لگتا ہے۔ لقمان حکیم کی منشا کے مطابق مریل پن، اکڑپن اور زہدوانکسار کی نمائشی علامات سے نکل کر ایک شریف النفس اور معقول انسان کی سی چال اختیار کرنا ہی بہترین طریقہ ہے۔ یہ بات سورئہ لقمان میں ان الفاظ میں بیان ہوئی:
”لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر۔”
ایک مرتبہ ایک شخص بہت مضمحل سی چال چل رہا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے دیکھا تو پوچھا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ بتایا گیا یہ قُراء میں سے ہیں (یعنی تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والا اور قرآن پڑھنے پڑھانے والا)۔ یہ بات سُن کر آپ فرماتی ہیں کہ حضرت عمر سیّد القرّاء تھے مگر جب چلتے تھے تو زور سے چلتے تھے اور جب بات کرتے تھے تو قوت سے بولتے تھے اور جب پیٹتے تھے تو خوب پیٹتے تھے۔
وہ آخری نصیحت جو حضرت لقمان نے فرمائی وہ یہ تھی کہ اپنی آواز پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔ آپ کا مقصد یہ کہنا مطلوب نہیں کہ پست آواز میں بات کرنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی ہمارے نزدیک ہو تو آواز اور لہجہ نرم و شائستہ اور پست ہوگا۔ لیکن جب کوئی دور ہوگا تو آواز زیادہ ہوگی۔ انسانی فطرت ہے کہ جب دلیل کمزور پڑنے لگتی ہے تو وہ آواز بڑھا لیتا ہے تاکہ مخالف کو دبا سکے اور بات میں وزن آجائے۔ آپ کے فرمان کے مطابق آوازو لہجے میں تکبرو خود پسندی، دھونس جمانا اور ذلیل و مرعوب کرنے کے لیے آواز بلند کرنا گدھے کی طرح بات کرنا ہے۔
حکمت صرف انبیاء کرام کا خاصا نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خوب صورتی و بدصورتی کی کوئی امتیازی صفت مقرر فرمائی ہے۔ یہ وہ نعمتِ خداوندی ہے جو قربِ الٰہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ رب تعالیٰ امتِ محمدیہ کو حضرت لقمان کی نصیحتوں پر غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق فرمائے۔ (امین)
٭…٭…٭