رسول اللہ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم فرماتے ہیں:
”شرک اس امت میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ خفیہ طور پر موجود ہوگا۔” صحابہ نے عرض کیا:
”اے اللہ کے رسول! اس سے نجات کیوں کر ہو؟ تو آپۖ نے فرمایا:
”کہو! اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ دانستہ تیرے ساتھ میں شرک کروں اور جو میں نہیں جانتا (کہ یہ معاملہ بھی شرک تک پہنچ جاتا ہے) اس شرک سے بھی تیری مغفرت چاہتا ہوں۔”
محبت کا ایک خوب صورت تعلق اللہ اور اس کے بندے میں ہے۔ بندے کو رب تعالیٰ بن مانگے بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے، بدلے میں بس ایک چیز کا تقاضا کرتا ہے اور وہ ہے ”توحید۔” عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ اللہ کو پہچانو، جانو اور مانو۔ توحید تک پہنچ جانا اِس فانی اور اُس ابدی زندگی میں کامیابی کا ضامن ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب قرآن کریم آیت اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبَسُوا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ (سورئہ الانعام، آیت 82) نازل ہوئی تو اس نے مسلمانوں پر خوف طاری کردیا اور کہنے لگے: یارسولۖ! ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو؟ اور آیت میں ہے کہ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا، وہی باامن اور راہِ راست والے ہیں۔ تو آپۖ نے فرمایا:
ظلم سے مراد عام گناہ نہیں ہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یہ بڑا بھاری ظلم ہے۔
ظلم کے معنی ہیں ”حق مارنا اور خلافِ انصاف کوئی کام کرنا۔” شرک کو ”ظلم عظیم” کہا گیا کیوں کہ انسان مخلوقِ خدا کو اپنے خالق کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور بارگاہِ الٰہی میں ظالم سمجھا جاتا ہے۔ حضرت انسان انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ٹھہرتا ہے جو کہ اُس کا مقصدِ حیات ہے۔ توحید عدل ہے اور شرک ظلم ہے۔ سورئہ الزمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”انہوں نے جیسی چاہئے ایسی اللہ کی قدر نہیں کی۔ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ذات ہے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔”
درحقیقت، جیسی محبت اللہ کے لیے ہونی چاہیے ویسی محبت کسی اور کے لیے رکھنا شرک ہے۔ حجرِ اسود کے سوا کسی دوسرے پتھر کو چومنا شرک ہے۔ شیطان کی غلامی شرک ہے۔
نفس کی اندھی تقلید شرک ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور سے توبہ کرنا شرک ہے۔ بیت اللہ کے سوا کسی اور گھر کا طواف شرک ہے۔ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا شرک ہے۔ غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ ذاتِ الٰہی کے علاوہ کسی اور سے نفع و نقصان کی امید رکھنا شرک ہے۔ کسی کو رحمن کا بیٹا سمجھنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کو صفات سے معطل ماننا شرک ہے۔
فرعون منکرِ توحید ہے۔ وہ کہتا ہے: ”رب العالمین کیا چیز ہے؟”
پھر کہتا ہے: ”اے ہامان! میرے لیے ایک ایسی اونچی عمارت بناؤ کیا عجب کہ میں آسمان کے دروازوں تک پہنچ جاؤں اور موسیٰ کے معبود کو دیکھ لوں مجھ کو تو کامل یقین ہے کہ موسیٰ جھوٹ بولتا ہے۔” (نعوذ باللہ)
اللہ کے ناموں کی مشابہت اختیار کرنا کسی کو بھی جائز نہیں۔ آپۖ فرماتے ہیں۔
”اللہ کے نزدیک ذلیل ترین نام یہ ہے کہ کسی آدمی کا نام شہنشاہ یا ملک الملوک رکھا جائے۔ حالاں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک الملک نہیں۔”
شرک، مقصدِ تخلیق کی ضد ہے۔ اللہ ہی وحدہ لاشریک ہے۔ توحید کا حق بجالانا ہی درحقیقت اللہ سبحان و تعالیٰ کی عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان نے دوسری نصیحت جو اپنے صاحبزادے کو کی وہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوئی:
”یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔”
لقمان حکیم نے ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنے کی تلقین فرمائی اور خصوصاً ماں کی عظمت و ہمت کا ذکر فرمایا۔ مفسرین کے مطابق حضرت لقمان نے بیٹے کو باپ کا حق نہیں بتایا کہ کہیں اس سے اپنی غرض معلوم نہ ہو۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے حق کا ذکر فرمایا تو ساتھ ہی والدین کے حقوق کی ادائی کا حکم صادر فرمایا۔ والدین روحِ انسانی کو دنیا میں لانے کا موجب بنتے ہیں۔ خصوصاً ماں جو دورانِ حمل تکالیف اُٹھاتی ہے۔ نو ماہ بچے کو اپنے خونِ جگر سے سینچتی ہے۔ اپنی توانائی صرف کرتی ہے تو اولاد دنیا میں آنکھ کھولتی ہے۔ ماں کی مدتِ رضاعت تقریباً دو سال مقرر فرمائی گئی۔ ماں اپنا سکھ اور چین تیاگ کر اولاد کی پرورش ممکن بناتی ہے اور باپ بھی اس سارے عمل میں مشقت اُٹھاتا ہے اور دونوں اپنی سب سے پیاری چیز کی حفاظت کرتے ہیں۔ تبھی رب العالمین نے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تلقین فرمائی اور والدین کا حکم ماننے کی تاکید کی۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو نصیحت کی ہے کہ میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر بجا لاؤ اور میری ہی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا شکر گزار بننے کا حکم دیا اور پھر والدین کا۔ درحقیقت شکر گزاری ہے اُس نعمت کی جو رب تعالیٰ نے اولاد کی صورت میں عطا فرمائی اور والدین کو اس قابل بنایا کہ اپنی اولاد کی صحت مندانہ پرورش کریں۔ اگر وحدہ لاشریک نہ چاہے تو کچھ بھی ممکن نہیں اور لوٹ کے ماں باپ کو اور اولاد کو اس کے حضور حاضر ہوتا ہے اور پھر سب کا فیصلہ ہوجائے گا۔ آگے حضرت لقمان فرماتے ہیں:
”لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کر جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہر گز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ۔”
حقوق اللہ اور حقوق الوالدین کو ایک دوسرے سے ٹکرانا نہیں چاہیے۔ اگر کوئی ایسا موقع آئے تو والدین کے حقوق بعد میں آتے ہیں۔ شرک صرف بت پرستی کا نام نہیں، اگر انسان والدین کے حکم پر اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین کے حقوق مکمل طور پر ساکت ہوگئے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں ربِ کائنات نے والدین سے حسنِ سلوک کی تاکید اس طرح فرمائی:
”اور تیرے رب نے فیصلہ فرما دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے اور والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جُھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔”
والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا لیکن اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوسکتی ہے۔ دنیاوی معاملات میں ان کی خیر خواہی کرنا، خیر گیری کرنا اور ان کی خدمت کرنا افضل عبادت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک روز اللہ کے رسولۖ نے فرمایا:
”ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا، ذلیل ہوگیا” صحابہ کرام نے عرض کیا:
”یا رسولۖ اللہ! کون ذلیل ہوگیا؟” آپۖ نے فرمایا:
”وہ شخص جس نے اپنے ماں باپ کو یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر وہ جنت میں داخل نہ ہوا۔”
جنت کی یقین دہانی والدین کی خدمت سے مشروط کردی گئی ہے۔ یعنی جنت کا حصول بہت آسان کردیا گیا۔ والدین اور اولاد کا رشتہ بہت خوب صورت اور معصوم رشتہ ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے عمل بڑے انعامات کا موجب ہوں گے۔ لیکن احکاماتِ خداوندی کو مدِنظر رکھتے ہوئے۔ آگے اللہ تعالیٰ انسان کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”مگر پیروی اس شخص کے راستے کی جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے۔ اُس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیسے اعمال کرتے رہے ہو۔”
تیسری نصیحت جو سورئہ لقمان میں بیان ہوئی ہے وہ ہے کہ:
”پیارے بیٹے! اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ خواہ وہ پتھر کے تلے ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو، اسے اللہ تعالیٰ ضرور لائے گا، اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔” اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے انسانی عقل و فہم بہت معمولی ہے۔ خدائی علم لامحدود ہے۔ ہر چیز اللہ کے ریکارڈ پر موجود ہے خواہ وہ کسی چٹان میں چُھپا ایک دانہ ہو، اندھیرے میں کالے پتھر پر چلتی ایک چیونٹی، آسمانوں کی وسعتوں میں ہوتا کوئی تغیر، کسی درخت کے پتے گرنے کی آہٹ، دل میں آیا لمحے کا وسوسہ، زمین کے تہ در تہ بدلتے حالات۔ وہ باریک بین اور ہر ایک چیز سے واقف ہے۔ روزِ آخر ہر ایک کا ریکارڈ اس کے سامنے آموجود ہوگا۔ اے بنی آدم! تب نہ ہوگا بچنے کا کوئی ٹھکانا۔
رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں:
”اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی عمل کرے، کسی بے سوراخ پتھر کے اندر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو، نہ کوئی کھڑکی ہو، نہ سوراخ ہو، تاہم اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کردے گا خواہ کچھ ہی عمل ہونیک یا بد۔”
عمل کرتے ہوئے یہ بات مدِ نظر رکھو کہ ہزار پردوں میں چُھپا عمل بھی اللہ کے سامنے ہے۔ اگر عمل نیک ہے تو اس کے اجزا ہے اور عملِ بد کے لیے سزا مقرر کردی گئی ہے۔
حضرت لقمان فرماتے ہیں:
”اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر، یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔”
اللہ تبارک تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کو بس ایک بار پہچان کر اس کی عبودیت کا اقرار کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ ضروری امر یہ ہے کہ کوئی طریقہ ایسا ہو جس میں اس ذاتِ باری تعالیٰ کی توحید کا مسلسل اقرار ہو، اس کی تعریف کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی تعریف بے حد پسند ہے۔ نماز اس محبت کا بہترین اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عجزو انکساری کے ساتھ قیام، رکوع اور سجدہ کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ انسان کا دل کینہ، حسد اور بعض سے پاک ہو۔ تبھی تو وہ امر و بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عملی تفسیر بنے گا۔ اس نصیحت میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جب بھی نیکی کے راستے پر نکلو گے تو مصائب کا سامنا ناگزیر ہے اورجو بھی مسائل درپیش ہوں ان کو صبرو تحمل سے برداشت کرنا چاہیے۔ یہ کام بہت ہمت و حوصلے کے ہیں اور اصلاحِ خلق میں مشکلات اور اذیتوں سے سامنا پیش آنا کم ہمت لوگوں کے کرنے والے کام نہیں۔ حق میں کڑواہٹ ہوتی ہے۔ فرعون و نمرود کے دربار میں جاکر دعوتِ حق کی تبلیغ کرنا آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ سورئہ العصر میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: