حضرت خضر علیہ السلام
عمیرا علیم
انسان کی ظاہر بین نگاہ جو دیکھتی ہے وہ اس سے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کرتا ہے۔ درحقیقت کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں، جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ جیسا کہ بدکاروں کا عیش و عشرت میں ہونا، ظالموں اور نافرمانوں پر انعامات کی بارش، نیک لوگوں کا خستہ حال ہونا، بہ ظاہر ایسے حالات ہیں، جن کی وجہ سے لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
نبوت کے آغاز سے ہی کفار نے نبی کریم ﷺ مخالفت شروع کر دی تھی اور پھر یہ مخالفت انتہا تک پہنچ گئی۔ مخالفین نے آپﷺ اور اصحاب کے خلاف اعتراضات، الزامات، تضحیک اور مخالفانہ پروپیگنڈے کا محاذ قائم کر رکھا تھا۔ اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے سورۂ کہف میں مختلف واقعات بیان کیے گئے، جن میں مسلمانوں کو ہمت و حوصلے کا درس دیا گیا اور سمجھایا گیا کہ بہ ظاہر مسلمانوں کو ایک مشکل دور ضرور درپیش ہے لیکن جلد ہی یہ وقت گزر جائے گا۔ لہٰذا مسلمان صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
سورۂ کہف میں بیان کردہ واقعات میں سے ایک اہم واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا ہے اس واقعے میں اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے اپنے کارخانۂ مشیت میں شب و روز رونما ہونے والے واقعات میں سے چند ایک پر پردہ اُٹھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہلکی سی جھلک دکھائی اور یہ واضح کیا کہ ظاہر و باطن میں کیا تفریق پنہاں ہے۔
روایات میں یہ قصہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام لوگوں کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے اور آپ علیہ السلام کے بیان سے لوگوں پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ کسی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا روئے زمین پر آپ سے بھی بڑا کوئی عالم ہے؟‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی بات سخت ناپسند فرمائی اور آپ علیہ السلام کی سرزنش فرمائی کہ آپ علیہ السلام نے علم و حکمت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں نہیں فرمائی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی گئی کہ ’’میرا ایک بندہ جو دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا ہے وہ تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو ارشاد ہوا: ’’اپنے ساتھ ایک مچھلی لیجئے اور اِسے ٹوکرے میں رکھئے۔ جس جگہ مچھلی گم ہو گی۔ وہی آپ کی جائے ملاقات ہو گی۔‘‘
ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت خضر علیہ السلام سے جس شخص کی ملاقات ہوئی تھی وہ اللہ کے رسول اورنبی حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بکتا ہے۔‘‘
قرآن اس شخص کے نام کے حوالے سے خاموش ہے جس سے ملنے کی خواہش کا اظہار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا لیکن تمام معتبر احادیث میں ان کا نام خضر بتایا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کی کچھ روایات کے مطابق یہ قصہ حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کے کئی برس بعد پیش آیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لی اور سفر کا آغاز اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کشتی کے ذریعے کیا۔ آپ علیہ السلام نے جس ساتھی کے ساتھ سفر کیا اُس کا نام قران میں نہیں بتایا گیا۔ لیکن بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ حضرت یوشع بن نون تھے اور ان کی ڈیوٹی تھی جہاں مچھلی گم ہو جائے آپ علیہ السلام کو فوراً آگاہ کرے۔ راستے میں دونوں سستانے کے لیے بیٹھ گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ تب ہی اچانک مچھلی ٹوکری میں تڑپنے لگی۔ قریب ہی دریا میں گر گئی اور جہاں جہاں سے گزری ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور پانی ساکت ہو گیا یہ تھی اللہ کی قدرت۔ آپ علیہ السلام کے ساتھی نے آپ علیہ السلام کو نہ جگایا اور ارادہ کیا کہ جب آپ جاگیں گے تو آپ کو خبر دیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قیام کیا وہاں ایک چٹان کے نیچے حیات (زندگی) نامی چشمہ بہتا تھا، جس بھی چیز تک اُس کا پانی پہنچ جاتا وہ زندہ ہو جاتی۔ جیسے ہی مچھلی اُس پانی میں گئی وہ زندہ ہو گئی اور بے تاب ہو کر پانی میں کود گئی۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جاگے تو آپ علیہ السلام کے ساتھی یہ بات بھول گئے اور اس کا ذکر نہ کیا۔ سفر کا دوبارہ آغاز ہوا اور جب دوسرا دن ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا: ’’ہمارا صبح کا کھانا لے آؤ بے شک ہمیں اپنے سفر میں بڑی مشقتبرداشت کرنی پڑی ہے۔‘‘ تب یوشع بن نون نے آپ علیہ السلام کو مچھلی کے بارے میں اطلاع دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی کے ساتھ واپسی سفر کیا اور اس جگہ پہنچے جہاں مچھلی پانی میں کودی تھی یہاں ان کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ نبی کریم ﷺ کے فرمان ہے کہ: ’’ دونوں نشان دیکھتے ہوئے واپس لوٹے حتیٰ کہ چٹان تک پہنچ گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے لیٹاہوا ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے سمندر کے درمیان پانی پر چٹائی بچھائی ہوئی تھی اور اس پرلیٹے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بتایا: ’’میں موسیٰ علیہ السلام ہوں۔‘ ‘حضرت خضر علیہ السلام بولے: ’’بنی اسرائیل کا نبی موسیٰ علیہ السلام؟‘‘ آپؑ نے فرمایا: ’’ہاں میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ مجھے اس ہدایت کی تعلیم دیں جس سے آپ کو نوازا گیا ہے۔‘‘
حضرت خضر علیہ السلام فرمانے لگے۔ ’’اے موسیٰ! اللہ نے آپ کو تو رات سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس تو وحی آتی ہے۔ آپ کو جو علم عطا ہوا وہ مجھے سیکھنا نہیں چاہیے اور جو علم مجھے ملا وہ آپ کو نہیں سیکھنا چاہیے۔‘‘ تبھی ایک پرندے (چڑیا) نے سمندر سے اپنی چونچ سے پانی پیا۔ یہ دیکھ کر حضرت خضر علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میرے اور آپ کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم سے وہ نسبت بھی نہیں جو چڑیا کی چونچ میں موجود پانی کو سمندر سے ہے۔‘‘ لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زیادہ اصرار کیا تو حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ’’اے موسیٰ ! آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بار بار کہنے پر وہ آپ علیہ السلام کو ساتھ لے کر چلنے لگے اور فرمایا :’’ اگر آپ کو ساتھ رہنا ہے تو میں جو بھی کروں گا، اس کے بارے میں کوئی سوال مت کیجیے گا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ چلنے لگے۔ ساحلِ سمندر کے ساتھ چلتے ہوئے وہ ایک کشتی پر سوار ہوئے۔ کشتی کے ملاحوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ آپ تو اللہ کے نیک بندے ہیں لہٰذا انہوں نے اس بندۂ صالح کو کرایہ لیے بغیر سوار کرلیا۔ حضرت خضر نے چپکے سے کشتی میں سوراخ کر ڈالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ فعل سخت ناپسند فرمایا اور بول اُٹھے: ’’کیا تو نے اس لیے شگاف کیا ہے کہ اس کی سواریاں ڈوب جائیں۔ یقیناًتم نے بہت برا کام کیا ہے۔‘‘ حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا میں نے آپ کو کہاتھا آپ میرے ساتھ رہتے ہوئے صبر نہیں کر سکیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عذر خواہی چاہی اور بولے میری بھول تھی۔ اس دفعہ درگزر فرمائیں۔
کشتی سے اُتر کر دونوں نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اُنہیں راستے میں ایک لڑکا ملا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر کچل ڈالا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا اور اس مسخرے کافر لڑکے کو پکڑا، لٹایا اور چھری سے ذبح کر ڈالا۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ فعل برداشت نہ کر سکے اور نہایت غضب ناک ہو کر بولے: ’’آپ نے ایک معصوم ذی نفس کو مار ڈالا۔‘‘ حضرت خضر علیہ السلام بولے: ’’میں نے کہا تھاکہ آپ سے کہ آپ میری معیت میں صبر نہیں کر سکیں گے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ معذرت خواہ ہوئے اور فرمایا: ’’اگر میں ایسی غلطی کا دوبارہ ارتکاب کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ مت رکھیے گا۔‘‘
ایک بار پھر سفرشروع ہوا اور دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں پہنچے۔ بھوک سے بے حال، گاؤں والوں سے کھانا طلب کیا لیکن گاؤں والوں نے آپ کی میزبانی سے انکار کر دیا۔ وہاں ایک دیوار گرنے کے قریب تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو دوبارہ تعمیر کر دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے اور بولے آپ کے ساتھ گاؤں والوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ آپ کو اس دیوار کی تعمیر کی اُجرت لینی چاہیے تاکہ کھانا خریدا جا سکے۔ یہ سُن کر حضرت خضر علیہ السلام نے کہا: ’’بس اب ہمارے راستے جدا ہوئے۔ لیکن میں وہ حقائق واضح کر دوں جن کی وجہ سے میں نے یہ تینوں کام سرانجام دیئے۔
وہ کشتی جس میں ہم سوار ہوئے وہ چند غریب آدمیوں کی تھی۔ جس راستے سے وہ گزر رہی تھی وہاں آگے ایک بادشاہ رہتا تھا، جو زبردستی کشتیاں چھین لیتا۔ لیکن وہ عیب دار کشتی نہیں پکڑتا تھا یہی وجہ تھی کہ میں نے اُس میں شگاف ڈالا۔ تاکہ وہ لوگ اس کی مرمت کروا کر دوبارہ استعمال کر سکیں۔
اور جس لڑکے کو میں نے مار ڈالا وہ مومن والدین کی اولاد تھا۔ لیکن اُس نے جوانی میں سرکشی اور کفر میں مبتلا ہو کر اپنے والدین کے لیے اذیت کا باعث بننا تھاچناں چہ میں نے اُس کو قتل کر دیا۔ اب اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اُن کو نیک اور صالح اولاد عطا کرے گا۔
اور جہاں تک دیوار کا معاملہ ہے، وہ دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچیں گے تو وہ اس کو دیکھ لیں گے اور میں نے یہ تمام کام اللہ تبارک تعالیٰ کی مرضی سے سر انجام دیئے۔‘‘
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس خزانے سے مراد علم ہے (یعنی وہاں کتابیں دفن ہوں گی) حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس خزانے کا اللہ تبارک تعالیٰ نے کتابِ مبین میں ذکر کیا ہے وہ دراصل سونے کی مضبوطی تختی تھی جس پر یہ عبارت کنندہ تھی: ’’مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے اور پھر مشقت میں پڑتا ہے۔ مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو جہنم کا ذکر کرتا ہے اور پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جس کے سامنے موت کا ذکر کیا جاتا ہے اور پھر بھی وہ غافل رہتا ہے۔لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہماری تو یہ تمنا ہے کہ کاش حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ہمیں کچھ مزید بھی بتاتا۔‘‘
علماء حضرت خضر علیہ السلام سے متعلق مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ علماء کا خیال ہے کہ آپ نبی تھے، کچھ کہتے ہیں کہ آپ ولی تھے جب کہ کچھ کی یہ رائے ہے کہ آپ فرشتے تھے۔ بہرحال قرآن سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ بندے تھے، آپ کوئی عام شخص نہ تھے۔ کیوں کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جو تین کام کیے، ان میں سے پہلے دو کام تمام شریعتوں سے متصادم ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی شریعت یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ کسی بے گناہ کو قتل کر دیا جائے یا کسی کی ذاتی چیز کو خراب کیا جائے۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام اللہ کی رضا سے سرانجام دیئے ۔ اللہ نے آپ کو ایک خاص علم سے نوازا تھا اور ان کاموں کو کرنے میں اللہ کی مصلحت کار فرما تھی۔
اصل سوال یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی۔ کیوں کہ یہ تشریحی احکام نہ تھے اور نہ ہی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلا ثبوت الہام کی بنیاد پر ناحق قتل کرے یا کسی کی مملوکہ چیز خراب کرے۔ یہ احکام ان تکوینی احکام سے ملتے جلتے ہیں جن کے تحت کوئی بیمار ہو جاتا ہے، کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کو موت آتی ہے جب کہ کسی کو صحت و تن درستی عطا ہوتی ہے۔ تمام علماء اکرام اس بات سے متفق ہیں کہ کوئی انسان الہام کی بنیاد پر یہ افعال سرانجام نہیں دے سکتا۔ ان کاموں کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔
یہ ایک لاحاصل بحث ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام ولی تھے، نبی تھے، فرشتے تھے یا اللہ کی کوئی اور مخلوق رہیں اس قصے سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور وہ سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں اور ذاتِ باری تعالیٰ کے ہر کام میں بہتری کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے۔ اس لیے جو بھی معاملہ درپیش ہو اللہ کی رضا پر راضی رہیں اور صبر کریں۔ بے شک اللہ آسانیاں پیدا کرنے والا ہے۔
****