تحریر کے چند گُر سٹیفن کنگ سے
سٹیفن کنگ کی باتیں لکھاریوں کے لیے سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ پہلے کنگ صرف لٹریچر لکھنے والوں کے بارے میں بات کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں سکرین رائٹرز کو بھی بہت سی ہدایات سے فیض یاب کیا۔ ہم ان کے کچھ اقوال آپ تک پہنچا رہے ہیں جو سکرین رائٹنگ کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
(1) ”کہانی صرف پیسہ کمانے کے لیے مت لکھیں۔ اس کے لیے دنیا کے کئی اور شعبے موجود ہیں۔ تحریر ایک آرٹ ہے۔ پیسہ کمانے، دوست بنانے، مشہور ہونے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ لکھنا ہو تو ایسے لکھو کہ نہ صرف تمہارے پڑھنے والوں کی زندگی بلکہ تمہاری اپنی میں بھی واضح اور مثبت تبدیلی آئے۔ یہ وہ فن ہے جو اٹھنے، کر گزرنے اور زندگی جینے کی تحریک دیتا ہے۔۔۔خوش ہونے کی تحریک دیتا ہے۔ تو لکھو!”
(2) ”معلوم نہیں آپ پہلے اس تجربے سے گزرے ہیں یا نہیں، لیکن پورا ناول لکھ لینے کے بعد اسے ایک لمبے وقفے ،مثلاً چھے ، آٹھ ہفتے کے وقفے کے بعد پڑھنا ایک نہایت سُرور بخش تجربہ ہوتا ہے۔ کہانی آپ ہی کی ہوتی ہے، آپ اسے ”اپنی ” کے طور پر پہچان بھی رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ فلاں جملہ لکھتے ہوئے آپ کے سٹیریو پر کون سا گانا بج رہا تھا، یہ تک یاد ہوتا ہے۔۔۔لیکن پھر بھی یقین نہیں آ رہا ہوتا کہ آپ کے ذہن میں ایسی ایک دنیا آباد تھی جہاں اس پوری کہانی، اس ایک پوری زندگی نے جنم لیا۔ اس لیے کہانی کو مکمل کرنے کے بعد چھوڑ دیں، اور ایک لمبے وقفے کے بعد اٹھا کر پڑھیں۔ کہانی کی خامیاں اور اچھائیاں بہت واضح طریقے سے آپ کے سامنے آئیں گی۔ اورچونکہ آپ لکھنے جیسی جذباتی کیفیت سے نکل چکے ہوں گے، تو مسودے میں تبدیلی دل پر بھاری نہیں گزرے گی”۔
(3) ”ایک بات پر یقین کر لیں:آپ کبھی کسی دوسرے لکھاری کی طرح نہیں لکھ پائیں گے، بے شک آپ کی نظر میں اس لکھاری کا اسلوب اور اس کی زبان کتنی ہی سادہ اور آسان کیوں نہ ہو۔ اگر بالفرض آ پ نے ایسا کر بھی لیا تو آپ ساری زندگی اس دوسرے لکھاری کا ایک بے رنگ سا عکس ہی رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی، احساسات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اور سچ کی تعریف دو الگ لکھاریوں کی سائیکولوجی میں الگ ہوتی ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی کہانیاں اپنے انداز سے کہی جائیں، کیوں کہ آپ جیسے بس آپ ہی ہیں اور کوئی اور بننے کی کوشش نہ صرف بے کار بلکہ خلافِ فطرت بھی ہے”۔
(4) ”ایک ریڈیو ٹاک شو میں میز بان نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیسے لکھتے ہیں میرا جواب تھا ”ایک وقت میں ایک لفظ” وہ لاجواب رہ گیا۔ وہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ میں سنجیدہ ہوں یا مذاق کررہا ہوں لیکن میں سنجیدہ تھا۔ کہانی جیسی بھی ہو ہمیں ایک وقت میں ایک لفظ ہی لکھنا چاہیے۔” مطلب یہ بڑی بات نہیں کہ آپ ایک بار میں بیٹھ کر 110 صفحات لکھ دیتے ہیں۔ آپ کو ایک ایک سین ایک ایک لفظ کرکے لکھنا چاہیے۔ تھوڑا لکھو مگر بہترین لکھو”۔
(5) ”کتاب کا پہلا مسودہ چاہے وہ جتنا بھی لمبا ہو تین مہینے کی مدت میں پورا ہوجانا چاہیے جتنا کہ ایک موسم کا دورانیہ ہوتا ہے۔”
اگر ایک رائٹر پہلا مسودہ 3 ماہ میں مکمل کرنا سیکھ جاتا ہے۔ تو وہ آنے والے طوفان کے لیے تیار ہے۔
(6) ”عام طور پر کھانے کے دوران کچھ پڑھنے کو بد تہذیبی سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر آپ ایک ایسے لکھاری بننا چاہتے ہیں جو اپنی کہانی اپنے ہی طریقے سے کہے، دوسروں کی پروا کیے بغیر، تو پھر دوسرے کس چیز کو تمیز اور کس چیز کو بدتہذیبی سمجھتے ہیں، اس میں مت پڑیں۔ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے رہیں، بہت زیادہ پڑھیں، چاہے وہ کھانے کی میز پر ہی کیوں نہ ہو!”۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کو خوش رکھنا ایک ناممکن کام ہے، اور ایک لکھاری کے طور پر یہ آپ کی ذمہ داری ہے بھی نہیں۔ آپ کا کام اپنے آس پاس پھیلی کہانیوں کو حتی الامکان سچے طریقے سے قاری تک پہنچانا ہے ، بس۔
بہت زیادہ پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد اپنے آپ کو اپنی رائٹنگ کو بار بار پرکھے۔ اگر آپ کے پاس پڑھنے کا زوقت نہیں تو لکھنے کا وقت بھی مت نکالیے۔
(7) ”Passive Verbکمزور اور خوف زدہ لکھاریوں کا آلہ ہے۔ اپنی تحریر اوراپنے فن پر شکوک ، ایک ڈرپوک رائٹر کو passive verb استعمال کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک جملے کی مثال لیتے ہیں: ”میٹنگ کا وقت ساڑھے سات بجے رکھا گیا ہے۔” اس سے زیادہ بے کار، ڈھیلا اور ناکارہ کوئی اور جملہ ہو سکتا ہے! کاغذ اور قلم ہاتھ میں ہے تودل میں خوف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اپنا جادو دکھائیں، ڈر کیسا! مٹائیں اُس پچھلے جملے کو اور لکھیں ؛”میٹنگ ساڑھے سات بجے ہے۔” ڈر کم ہوا نا؟
(8) ”بہت زیادہ پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد اپنی رائٹنگ کو بار بار پرکھیں۔ اگر آپ کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں تو لکھنے کا وقت بھی مت نکالیے”۔
(9) ”جب مجھ سے میری ‘کامیابی’ (ایک بے تکا آئیڈیا، کیوں کہ آپ کامیابی کو کیسے بیان کر سکتے ہیں، ہر کسی کی نظر میں اس کی تعریف الگ ہے!) کا راز پوچھا جائے تو میں دو راز بتاتا ہوں: میں صحت مند رہتا ہوں اور شادی شدہ ہوں۔ ”یہ ایک اچھا جواب ہے کیونکہ نہ صرف یہ سوال پوچھنے والوں کو مطمئن کر دیتا ہے، بلکہ اس میں سچائی بھی ہے۔ ایک صحت مند جسم اور ایک خود انحصار بیوی جو کسی کی فضول بات چاہے وہ میں نے ہی کیوں نہ کی ہو، برداشت نہیں کرتی ۔۔۔ان دو چیزوں کے مجموعے نے میرے کام کے تسلسل کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگر اسے الٹ کر دیں ، تو بھی شاید ٹھیک ہے۔۔۔کہ میری تحریر اور اس سے ملنے والے سکون اور خوشی کی وجہ سے میری صحت اور میری بیوی سے میرا ایک اچھا رشتہ قائم ہے”۔
(10) ”آپ کے لکھنے والے کمرے میں فون نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ TV بھی نہیں ہونا چاہیے یا ویڈیو گیم وغیرہ جو آپ کا دھیان بھٹکا سکے۔ اگر آپ کے کمرے میں کھڑکی ہے تو پردے گرا دیجیے”۔