یہ مقبرہ بلند چبوترے پر ہے۔ اس سے مغرب کی جانب بیگم پورہ تھی جس کے دس مغربی دروازے تھے جن کا اب نام و نشان نہیں ملتا۔ اُن دنوں پنجاب کا گورنمنٹ ہاؤس بیگم پورہ ہی میں واقع تھا۔
شرف النساء بیگم نواب عبدالصمد خاں کی دوسری بیوی تھیں۔ لاہور کا حاکم علی مردان خاں فوت ہوا تو اُس کی جگہ عبدالصمد خاں کو 22 فروری 1713ء کو لاہور کا حاکم مقرر کیا گیا۔ بہادر شاہ اوّل کی وفات کے بعد اُس کے فرزندوں میں جنگ تخت نشینی کے باعث ہوئی۔ جہاں دارشاہ کے عیش و عشرت اور فرخ میر سے اس کی جنگوں کے سبب بندہ بیراگی کو اپنی پہاڑی پناہ گاہوں سے نکل کر میدانی علاقوں کو تاخت و تاراج کرنے اور مسلمان کو نقصان پہنچانے کا موقعہ مل چکا تھا۔ بندہ بیراگی اب پہلے سے زیادہ طاقتور اور خونخوار ہوچکا تھا۔ ساڈھورے کے قریب بیراگی نے قلعہ تعمیر کرایا اور وہاں مقیم ہوگیا۔ عبدالصمد خاں نے اپنے فرزند زکریا خاں فوجدار جموں اور زین الدین احمد خاں فوج دار سرہندکی مدد سے بندہ بیراگی کو کئی معرکوں میں شکست دی۔ قصہ مختصر یہ کہ بندہ بیراگی کا خاتمہ عبدالصمد خاں کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
محلہ بیگم پورہ نواب عبدالصمد خاں کی بیوی بیگم جان ہی کا آباد کیا ہوا ہے۔ اس کے ہر گوشے میں اس خاندان کے محلات، باغات اور شاندار مقبرے تھے جن کا سلسلہ باغبانپورہ سے چاہ میراں تک پھیلا ہوا تھا۔ بیگم پورہ میں آج بھی اُس دور کا ایک محل موجود ہے جس کی چھت پر بنے حوض میں شہزادیاں غسل کرتی تھیں۔ کئی سو سال گزرنے کے باوجود محل کی وہ چھت اُسی طمطراق سے استادہ ہے۔ اُس دور کے کاریگروں کو داد دینی پڑتی ہے جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود عمدہ اور پختہ حوض بنایا جو آج تک ٹپکانہ اس میں دراڑیں آئیں۔
: بندہ بیراگی کا بھی مختصر حال جانتے چلئے
بندہ بیراگی 1670ء میں لیاقت پونچھ کے مقبہ راجوری میں پیدا ہوا۔ اس کا نام لچھمندیوسنگھ اور باپ کا نام رام دیوتی جو ڈوگرہ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
بندہ بیراگی سے سکھ ”بابا بندہ سنگھ بہادر“ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ایک سفاک اور ستم گر انسان تھا۔ عام ڈوگروں کی طرح مسلمانوں کی دشمنی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس نے ناصرف مغلوں کی سرکاری فوج سے جنگ کی بلکہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی بستی نظر آئی اُسے تاخت و تاراج کردیا۔ شوالک کے پہاڑی سلسلے میں اِس نے اپنا اڈابنا رکھا تھا۔ 26 جولائی 1737ء کو عبدالصمد خاں اور 1745ء میں زکریا خاں فوت ہوکر بیگم پورہ ہی میں شرف النسا بیگم کے مقبرے سے متصل تھوڑے ہی فاصلے پر بہ جانب جنوب کے دفن ہوئے۔ ان دونوں باپ بیٹا، ناظمان لاہور کے مقبرے راقم نے دیکھے تھے اور اُر دو ڈائجسٹ کے شمارے میں اُن کی تصاویر بھی شائع کی تھیں مگر اس میں اب دونوں مقبرے صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ یہ وہی نواب زکریا خاں تھا جن کے جنازے پر اتنے پھول برسائے گئے کہ شہر میں اُس وقت پھول نایاب ہوگئے اور کسی قیمت پر نہ ملتے تھے۔