بلیو مَنڈے
نادیہ ناز غوری
”عیان بیٹا! اب اُٹھ بھی جائو،سات بج گئے ہیں، اسکول کے لیے دیر ہورہی ہے”۔ امّی جان نے عیان کو جگاتے ہوئے کہا۔
”امّی جان! آج میں اسکول نہیں جائوں گا۔” نیند میں ڈوبی آواز میں عیان نے جواب دیا۔
”ارے!کیوں بھئی ؟کیا ہوا میرے بیٹے کو؟” امی جان نے پریشانی سے پوچھا۔
”بس ایسے ہی… اسکول جانے کو دل نہیں کررہا آج۔” عیان نے کمبل منہ پر لیتے ہوئے کہا۔
”اوہو بیٹا! میں سمجھ گئی ہوں۔ آج مَنڈے یعنی مَنڈے ہے اور تم ہر سوموار یہی ضدکرتے ہو۔”امی جان نے تشویش سے کہا مگر عیان نے کوئی جواب نہ دیا۔ امی عیان کی اس عادت کی وجہ سے بہت تنگ تھیں۔ انہیں ڈرتھا کہ کہیں اسکول سے عیان کی شکایت نہ آجائے۔اُن کا یہ خوف سچ ثابت ہوا۔واقعی آج اسکول سے آنے والی کال نے عیان کے کان بھی کھڑے کردیے تھے۔ ایک مہینے میں یہ تیسرا مَنڈے تھا کہ عیان کی اسکول سے غیر حاضری تھی۔
امی جان گھر کے ضروری کام نمٹا کر عیان کو لیے اسکول روانہ ہوگئیں۔ اُن کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات امڈ رہے تھے۔ پرنسپل صاحبہ کے آفس میں پہنچ کرامی جان نے سب سے پہلے معذرت کی پھر عیان کی چھٹی والی عادت اور ضد سے انہیں آگاہ کیا۔ پرنسپل صاحبہ نے عیان کو کلاس میں جانے کا حکم دیا اور خود اُس کی امی سے باتیں کرنے لگیں۔
”دیکھیں! عیان تقریباً ہر مَنڈے کو چھٹی کرنے لگا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے تشویش نا ک ہے۔” پرنسپل صاحبہ نے کہا۔
”جی میڈم! میں تو خود اِس وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں!” عیان کی امی نے اپنی پریشانی بتائی۔
”مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گاورنہ عیان دوسرے بچوں سے بہت پیچھے چلا جائے گا۔” یہ کہہ کر پرنسپل صاحبہ نے چپڑاسی کے ذریعے مِس سعدیہ کو بلایا ۔ مِس سعدیہ سائنس پڑھاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ وہ بچوں کی نفسیات کی بھی ماہر تھیں۔ پرنسپل صاحبہ نے عیان کا کیس مس سعدیہ کے سامنے رکھا تو وہ ایک لمحے کے لیے مسکرا دیں۔
”میں عیان کا سارا معاملہ سمجھ گئی ہوں ،دراصل عیان ”بلیو مَنڈے ”کا شکار ہے۔”
”بلیو مَنڈے؟ ارے یہ کس بلا کا نام ہے ؟ ” پرنسپل اور عیان کی امی ایک ساتھ پکار اُٹھیں۔
”بلیو مَنڈے” اصل میں انگریزی اصطلاح ہے، بلیو کا ایک مطلب تو نیلا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ ”غم اور اداسی” کے معنی میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ بلیو مَنڈے دراصل ایک کیفیت کا نام ہے، جس کا شکار ہوکراکثر بچے مَنڈے کو اسکول جانے سے گھبراتے ہیں۔” مس سعدیہ نے تفصیل سے بتایا۔
”اوہ! تو یہ بات ہے ۔ عیان بھی پھر اسی ”بیماری” کا شکارہے۔” پرنسپل صاحبہ نے کہا تو عیان کی امی سر ہلا کر رہ گئیں۔
”ویسے یہ کیفیت کیو ں پیدا ہوتی ہے؟” عیان کی امی نے مس سعدیہ سے پوچھا۔
”دیکھیں! جب پورا ہفتہ بچے ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق وقت پرپڑھتے اور ہوم ورک کرتے ہیں، وقت پر سوتے اورجاگتے ہیں، ایسے میں ہفتے اور اتوار کا دن آتا ہے۔ تب بچے ٹائم ٹیبل بھول کر اِن دو دنوں میں صرف کھیلتے اور تفریح کرتے ہیں، دیر سے سوتے اور صبح دیر سے جاگتے ہیں۔ مَنڈے کو اگر امّی جان ہزار جتن کرکے زبردستی جگا بھی دیں تو اُن کا دل اسکول جانے اور پڑھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا، بس کھیل کود اور تفریح پر اکساتا ہے۔ بچے اسکول جانے کے نام پر منہ کے ایسے برے زاویے بناتے ہیں کہ جیومیٹری کی ٹیچر اگر دیکھ لیں تو پڑھانا ہی چھوڑ دیں۔”
”تو مس سعدیہ !اس کا کوئی حل بھی تو ہوگاپھر؟” میڈم نے پوچھا۔
”جی میم! اِس کا حل یہ ہے کہ ہم مَنڈے کو اسکول میں پڑھائی کا ایک پیریڈ کم کرکے آرٹ کا پیریڈ ڈبل کردیں۔ عیان چوں کہ پینٹنگ کا بہت شوقین ہے اس لیے مَنڈے کو عیان اسکول میںاپنی پسندیدہ پینٹنگ کرے گا۔ یوں وہ مَنڈے کو بھی اسکول خوشی خوشی آئے گا۔” مس سعدیہ نے بلیو مَنڈے کا حل بتادیا ۔ اتنا خوب صورت اور مفید حل سنتے ہی عیان کی امّی جھوم اٹھیں اور ٹیچر سعدیہ اور میڈم کا شکریہ ادا کرکے خوشی خوشی گھر لوٹ آئیں۔
بچو!عیان میاں کو معلوم تھاکہ پرنسپل نے امی جان کو اسکول بلایاتھا۔ آج اس کی خیر نہیں، وہ اس لیے ڈرے ڈرے گھر واپس آئے۔ لیکن یہ کیا! امّی جان کا موڈ ایسا خوش گوار تھا کہ جیسے پرنسپل نے ایوارڈ دیا ہو۔ عیان نے حیرت سے پوچھا: ”امّی جان! پرنسپل صاحبہ نے کیا کہا؟ جواب میں امّی جان نے عیان کوپرنسپل اور مِس سعدیہ کی تمام باتیں بتائیں، عیان میاں حیرت سے سب سن رہے تھے۔
بچو! آج مَنڈے ہے،عیان میاں ابھی سو رہے ہیں، عیان کی امّی جان اُسے اٹھانے جارہی ہیں۔
”عیان بیٹا!اب اٹھ بھی جائو، سات بج گئے ہیں۔” عیان میاں نے ایک دم بستر سے چھلانگ لگائی اورامّی جان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
”یاد ہے امّی جان! آ ج مَنڈے ہے یعنی کہ ”فن ڈے” ہے۔ہررّا… بہت مزا آئے گا آج۔” یہ کہہ کر عیان میاں خوشی خوشی اسکول کے لیے تیار ہونے لگے۔ اس کی امی ایک طرف کھڑی مسکرا رہی تھیں۔
٭…٭…٭