اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

اور آپابی نے سراسر سیاسی بیان پر پیار بھری گھوری سے نوازا۔
”بہت تیز ہو بھئی۔ اب اگر یہی سوال میں کسی ایک لڑکی کے بارے میں پوچھوں تو سیاست مت کرنا میرے ساتھ۔ سیدھا سیدھا جواب دو مجھے اب بتاؤ کیسی لڑکی اچھی لگتی ہے تمہیں۔” اور وہ رج کے حیران ہوا اتنی عمر ہوگئی ماں کے سامنے جوان ہوا تھا۔ ایسا سوال اور خیال ابھی تک انہیں تو چھو کہ نہ گزرا تھا۔ یہ آپابی کو کیا ہوا۔ جو ازحد پیار سے استفسار کررہی تھیں اسے ان کے پیار پر تو قطعاً شک نہیں تھا مگر جو کیفیت اس کی تھی اور جو وہ جواب مانگ رہی تھیں اگر ٹھیک وہی جواب دے دیتا تو پھر ان کا اگلا رویہ کیا ہوتا اس بارے اسے کوئی یقین نہیں تھا سو سابقہ انداز برقرار رکھا۔
”لڑکی، لڑکیوں جیسی ہی اچھی لگتی ہے۔ میں لڑکی میں لڑکیوں والی خصوصیات ہوں اور…” اور آپابی نے ہنستے ہوئے اسے ایک شفقت بھری دھپ لگادی تھی۔
”اچھے بھلے آئے تھے تم۔ جرار کی چار دن کی محبت نے تمہارا بھی مزاج بدل دیا۔ مخول نہ کرو میرے ساتھ اور سنو ابھی تمہاری ماں سے بات ہوئی ہے میری…”
اور پھر جو بات انہوں نے اسے بتائی وہ گنگ رہ گیا۔
”کیا واقعی؟” دل نے چاہ کی تھی اور اس کی چاہت میں اتنا صدق تھا کہ بن مانگے ہی دعا پوری ہوگئی تھی۔ وہ صبح دم اجالوں جیسی جس کے معصوم سے چہرے پر تازہ کھلے پھولوں سی شگفتگی جھلکتی تھی۔ جس کی آنکھیں مثل چشم آہو سی تھیں۔ وہ بہار کے پہلے سبک مدھ بھرے جھونکوں سا مزاج رکھنے والی لڑکی جو سب لڑکیوں سے الگ اور منفرد دکھتی تھی۔ قدرت کتنی مہربان تھی من چاہا نصیب مل رہا تھا وہ جتنا بھی خوش ہوتا کم تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

گڑیا اور احزم کی کل ڈرائنگ کی کلاس تھی وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ اس کی ڈرائنگ کس قدر بہترین ہیں۔ سو وہ ساری شام اس کے سر ہوئے رہے تھے۔ ابھی کچھ دیر پہلے دونوں کو زبردستی بھیجا تھا اور خود وہ دکھتے ہاتھوں اور سر کے ساتھ نڈھال سی وہیں فلور کشن پر ہی ڈھے گئی۔ آپابی نماز عشاء پڑھ کر آئیں تو اسے یوں پڑے دیکھ کر بولیں۔
”ارے ایسے کیوں لیٹی ہو اٹھو اپنے بستر پر آجاؤ۔ یہ بچے بھی نرے فتنے ہیں۔ خواہ مخواہ میں تمہیں تھکا دیا۔ ادھر آمیرے پاس میرا بچہ۔” اسے پچکارتے وہ پلنگ پر بیٹھ رہی تھیں۔ زرتاشہ نے جھٹکے سے سراٹھایا۔
”ایں۔ یہ آپابی ہی ہیں ناں۔” وہ مسکراہٹ دباتی جلدی سے اٹھ کر ان تک آئی۔
”کیا بات ہے آپابی؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں آپ کی۔ ویسے تو آپ کا بی پی ہائی ہوتا ہے۔ مگر لگتا ہے اس وقت لو ہورہا ہے لیکن گھبرایئے گا مت۔ تشویش کی کوئی بات نہیں آپ کا ڈاکٹر نواسا تو گھر میں ہی ہے۔ کہیں تو بلا لاؤں۔ چیک کردیں گے؟” آنکھوں سے شرارت پھوٹی پڑ رہی تھی انہوں نے ایک چپت رسید کردی۔
”غصہ کرتی ہوں تو اعتراض ہوتا ہے۔ منہ پھلائے پھرتی رہتی ہو۔ پیار سے بلا لوں تو شک کرتی ہو میری محبت پر، ہیں۔”
”ارے ارے… نہیں میری مجال کہ میں شک کروں وہ دراصل کبھی کبھی پیار کرتی ہیں ناں اس لئے یقین مشکل سے آتا ہے۔ ایک میری اماں جان ہیں ان کے پاس وقت نہیں ہوتا پیار کے لئے آپ کے پاس آتی ہوں تو آپ کا موڈ نہیں ہوتا اکثر۔ ویسے سچ بتائیں آج خیر ہے ناں یہ لاڈ کیوں آیا مجھ پر۔ کہیں مما تو واپس نہیں بلا رہیں مجھے۔” وہ مزے سے ان کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ آپا بی کے چہرے پر غیر معمولی مسکراہٹ تھی۔
”کیا بات ہے بڑی خوش لگ رہی ہیں کہیں بڑے ماموں تو نہیں آرہے ود فیملی؟”
”ہونہہ… بڑے ماموں تمہارے۔ وہ انسان جسے سال میں ایک بار کبھی بھولے سے بوڑھی ماں کا خیال آتا ہے۔ میں اس کے آنے پر کیوں خوش ہونے لگی بھلا۔ چھوڑو پرے۔ میرے لئے تو اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات ہے۔” انہوں نے جھک کر اس کی روشن پیشانی چوم لی۔
”اوہ اچھا یعنی واقعی میں کوئی بڑی خبر ہے۔ چلیں جلدی سے بتائیں مجھے بھی۔ مجھے بھی آجکل اچھی اچھی باتیں سننے کی سخت ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ حیا سلمان، ہنیہ سجاد، امامہ ہاشم اور تانیہ کے دکھوں نے تو میرا دل ہی ادھ موا کر ڈالا ہے۔”
”ہائیں… یہ سب کون ہیں؟ اور اللہ رحم کرے کیا دکھ ہیں ان کو؟” آپا بی کے سوال بجا تھے ان ناموں کی لڑکیاں تو پورے خاندان میں دور دور تک نہیں تھیں اور نہ ہی اس کی کوئی سہیلیاں۔ تو پھر کون؟
”آئے ہائے مت پوچھیں۔ یہ وہ پیاری لڑکیاں ہیں۔ جنہیں بے درد رائٹرز کے ہاتھوں بڑے بڑے دکھ دیکھنے پڑے ہیں۔ ان کے لئے رو رو کر تو میری آنکھیں بھی خشک ہوچلی ہیں۔ اب کیا تفصیل بتاؤں میں۔ آپ نہیں سمجھیں گی۔ مجھے تو فٹا فٹ وہ بات بتائیں جس نے آپ کے چہرے پر گلاب کھلا رکھے ہیں۔ وہ مارے بے قراری کے اٹھ کر بیٹھ گئی اور ان کے ہاتھ تھام لئے۔ اور انہیں تو جانے کیا ہوا۔ بے اختیار آنکھیں بھیگنے لگیں۔ کسی یاد نے چپکے سے دل پر ہاتھ رکھ دیا۔ دو بیٹیاں بیاہی تھی انہوں نے اور وہ وقت ان کے لئے کیسا کڑاتھا۔ آج بھی جب دھیان میں آتا پلکیں نم کردیتا۔ بیٹیاں گھر بار والی ہوگئیں پھر گھر کے علاوہ بھی ان کی مصروفیات وہ تو کہیں جاکہ سال بہ سال منہ دکھاتیں۔ وہ تو کوئی گلہ بھی نہین کرسکتی تھیں۔ اب یہ ایک نواسی تھی جو انہیں جی جان سے پیاری تھی جب اداس ہوتیں دھڑلے سے بلوالیتیں۔ مگر جب وہ بھی اپنے گھر بار کی ہوجائے گی تو کیا ایسے ہی بے فکری سے ان کی تنہائی بانٹنے آجایا کرے گی۔ یہ خیال ہی سوہان روح تھا۔
”افوہ۔ اب آپ رونے کیوں لگیں کیا ہوا ہے؟” وہ پریشان ہونے لگی تھی انہوں نے نفی میں سرہلاتے اسے کھینچ کر سینے سے لگا لیا۔
”میں رو تو نہیں رہی یونہی دل بھر آیا تھا۔ میری چھوٹی سی گڑیا دیکھتے دیکھتے کب اتنی بڑی ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ نفیسہ اور سجیلہ سے تو میں کب کی فارغ ہوئی۔ اب ان کی یاد بھی آئے تو میں پرواہ نہیں کرتی۔ بھئی میری پیاری سی پری جو دل بہلانے کو میرے پاس ہوتی ہے۔ مگر آج ایکدم سے احساس ہوا کہ اب تمہاری فکر کرنے کے بھی دن آنے لگے ہیں۔”
”کیا مطلب؟” زرتاشہ نے ان کے سینے سے سراٹھایا اور آپابی نے بڑے پیار سے مطلب سمجھایا تھا۔ وہ ہکا بکا سی سن رہی تھی۔
وہ دل پر اترا بارش کی پہلی بوند کا سا احساس…
وہ صحرا کی ٹھنڈی چاندنی رات جیسا خیال…
وہ سیپ میں رکھے سجے موتی سارو پہلا خواب…
وہ سجیلے روپ والا جسے نظر بھر کر دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے چڑھتے سورج کو دیکھا جائے۔ وہ ہنستی آنکھوں سے دھڑکن زیر و زبر کردینے والا شخص اس کا مقدر ہے؟
سچ میں؟ اور وہ اس کی زندگی کی پہلی رات تھی جب اک پل کو آنکھ نہ لگی۔
سرہانے رکھے سارے ناول بھی بھول گئے۔
٭…٭…٭
نفیسہ آئی تھیں… بالکل اپنے نام کی جیسی نفیس اور طرحداد شخصیت، اس پر ان کا وہ نخوت بھرا انداز۔ جو ان پر خوب جچتا بھی تھا۔ نہایت تکلف سے ملیں۔
”کب آئے؟ کیسے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ سب ٹھیک؟ اللہ جانے پرس میں کیا کھو گیا تھا اس میں جھانکتے چند ایک سوال کہے پھر جواب کا انتظار کئے بنا اٹھ کر آپابی کے کمرے میں چلی گئیں۔ ابتہاش نے محسوس بھی نہ کیا، زندگی میں انہیں جتنی بار دیکھا تھا۔ ایسا ہی دیکھا تھا۔ نپا تلا بولتیں۔ آدھا پونا مسکراہٹیں، یوں جیسے دودھ ملائی سی جلد پر زیادہ ہونٹ ہلانے سے شکنیں پڑنے کا اندیشہ ہو۔ خوبصورت تو وہ تھیں ہی خود کو بہت خوبصورت رکھتی بھی تھیں۔ اس عمر میں بھی ڈریسنگ لاجواب تھی پھر سر کے کلپ سے لے کے پیروں کے جوتے تک ایسی پرفیکٹ میچنگ… زرتاشہ کے ساتھ کھڑی تو وہ اس کی ماں کے دعائے بڑی بہن ہی لگتی تھیں اور ان جیسی ویل ڈریسڈ خاتون کی وہ حد درجے لاپرواہ بیٹی جسے اتنے دنوںمیں ابتہاش نے سادہ سے حلیے میں ہی دیکھا تھا اب بھی وہ سعیدہ خالہ کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ فیروزی رنگ کے سوٹ پر کسی اور سوٹ کا پرنٹڈ دوپٹہ لئے۔ وہی ازلی بے فکر انداز کے ساتھ مگر یہ سچ تھا کہ اس روپ میں بھی وہ دل موہ رہی تھی۔ وہ تو سادگی میں بھی پرکاری کی مثال تھی۔ یوں ہی اتنی اچھی لگتی تھی اگر جو سجنے سنورنے لگے تو… اور یہ تصور کرنے کے لئے یہ جگہ بالکل بھی مناسب نہیں تھی وہ مسکراتا ہوا اٹھ گیا۔ آپابی کے بالکل برابر والا کمرہ اس کے زیر استعمال تھا اور باتوںکی آواز بالکل صاف آرہی تھی۔
”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپابی۔ آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے؟” میں تو زرتاشہ کو لینے آئی ہوں۔ مجھے تو کل جرار سے باتوں ہی باتوں میں علم ہوا کہ آپ کی چہیتی کا بیٹا آیا ہوا ہے۔ اور مجھے تو یہی بات ہضم نہیں ہورہی کہ جب اس کی اولاد آپ کے پاس تھی تو آپ نے میری بیٹی کویہاں کیوں روکا۔ آپ کو اسے جرار کے ساتھ ہی واپس بھیج دینا چاہیے تھا۔ میں نے تو اس کی بھی خبر لی ہے۔ مجھے تو یہ سب اچھا نہیں لگا کہ اب آپ نے اک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ کس کے دماغ کی اختراع پے یہ آپ کی یا آپ کی اس لاڈلی کی۔” اس نے اپنی خوبصورت جلد کی پرواہ کئے بغیر اتنی لمبی بات کی وہ بھی بے حد تڑختے لہجے میں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ ارے وہ بچہ تو جرار سے پہلے ہی جارہا تھا۔ وہ تو میں نے زبردستی روک لیا اور ویسے بھی کل سویرے خیر سے واپس جارہا ہے وہ۔ مگر اس کے یہاں ہونے سے خدانخواستہ زرتاشہ کو کیا مسئلہ ہے؟ یہ کس طرح کی بات کی تم نے اور نیا شوشہ کیسا؟ میرے دل کی خوشی ہے یہ۔ سجیلہ نے تو میرے آگے اک حرف اگر مگر کا نہیں کیا اس نے تو سر آنکھوں پر لیا ہے میری خواہش کو۔ اور ایک تم ہو کہ…”
”ہاں… سجیلہ اسے تو عادت ہے ہمیشہ سے تابعدار بننے کی۔ اسے تو جو کسی نے کہا اس نے ہنس کر کیا اس کی تو بات نہ ہی کریں میرے آگے۔ ایسی فرمانبرداریوں کے تمغے اسے ہی مبارک ہوں۔ مگر آپ کو ایسا خیال آیا بھی کیوں۔ آپ کو ہمیشہ اسی سے محبت رہی ہے آج ایک بار پھر آپ نے ثابت کردیا اگر آپ کو میرا ذرا سا بھی احساس ہوتا تو ایسی بات سوچتی ہی کیوں۔ کیا آپ کو کچھ یاد نہیں۔ کیا آپ بھول گئیں وہ سب۔” انہیں جانے کس بات پر غصہ تھا۔
”آئے ہائے نفیسہ کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئیں۔ اب گڑے مردے اکھاڑوگی۔ سمجھدار بنو۔ جانے دو سب پرانی باتیں۔ دفع کرو سب قصے۔ تم بس یہ دیکھو ماشاء اللہ کتنا لائق فائق بچہ ہے ابتہاش۔ تعلیم یافتہ ہے۔ خوبصورت ہے۔ باادب ہے۔ ایسی اچھی تربیت کی ہے سجیلہ نے اس کی۔ پھر تمہارا اپنا خون ہے۔ ایک ہی بچی ہے تمہاری اللہ نہ کرے پرائے لوگوں میں جاتے ہوئے سو بار سوچنا پڑے گا۔ آج کل تو دنیا سو پردوں کے پیچھے رہتی ہے۔ خوبصورت ظاہر کے پیچھے بدصورت باطن پوشیدہ ہوتے ہیں۔ کسی کا کیا بھروسہ کون کس مزاج کا ہے۔ پھر جیسی لاپرواہ ہماری لڑکی ہے۔ اس کے لئے ہر طرح سے مناسب ہے یہ گھرانہ کل کلاں کو کم از کم کوئی فکر تو نہ ہوگی۔ اپنے ہیں ہتھیلی کا چھالہ بناکر رکھیں گے۔ میں نے تو بھئی اچھا ہی چاہا ہے مگر تم ہوکہ…”
”ہاں…ہاں۔ آپ نے تو اچھا ہی چاہا۔ ہمیشہ سے اچھا ہی چاہتے رہے ہیں آپ لوگ، آپ سب اچھے، وہ بھی اچھی۔ سارا زمانہ اھا۔ بس اک میں ہی بری تھی ناں۔ آپ نے کتنی آسانی سے کہہ دیا۔ سب بھول جاؤں۔ مجھے بتائیں کیسے بھول جاؤں میں۔ میرے جسم پر زخم لگتا تو کب کا بھر گیا ہوتا۔ میری تو روح پر کوڑے برسائے گئے تھے آپا بی۔ اذیت کی بھٹی میں جھونکا گیا تھا مجھے۔ سارے زمانے میں تماشا بنایا گیا میرا۔ اور مجھے وہ انتہا کی تکلیف اور دکھ دینے والے کون تھے میرے ہی وہ اپنے… جن کی اب آپ صفتیں بیان کررہی ہیں۔ کیسے بھول جاؤں میں۔ وہ سجیلہ۔ وہ محسن عباد۔ اور یہ ابتہاش محسن انہی کی اولاد ہے۔ ان جیسا ہی ہوگا۔ میں نے اتنے سالوں میں اس خاندان سے مکمل تعلق رکھنا گوارہ نہیں کیا۔ تو اب نیا رشتہ کیسے جوڑ لوں۔ امپاسبل۔ نو، نیور، آئی ہیٹ دس فیملی۔” ان کے لہجے میں بلا کی سختی تھی۔ اک سنناتا تیر ابتہاش کے دل میں آکر لگا۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا تھا۔ ”اتنا غصہ۔ اتنی نفرت۔ مگر کس بات پر کیوں آخر؟…”
کمرے کے باہر چائے لئے آئی زرتاشہ کے ہاتھوں سے بھی ٹرے چھوٹ گئی۔ کرچیاں دور تک بکھری پڑی تھیں۔ بالکل اس کے دل کی طرح۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!