اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

آہ۔ یہ اس نے کیا پوچھ لیا تھا۔ اس کی زندگی کا وہ زخم جسے وہ بہت چھپا کر رکھے ہوئے تھی۔ سجیلہ خالہ اس کی ننھیال کی وہ شخصیت جن کی ذہانت و لیاقت کے ڈنکے بجتے تھے۔ جنہوں نے میڈیکل کی فیلڈ میں خوب نام و مقام بنایا۔ وہ کم سن سے ہی انہیں آئیڈیا لائز کرتی تھی اور انہی کے جیسا بننا چاہتی تھی۔ اور وہ بن سکتی تھی۔ بچپن سے ہی تعلیم کے میدان میں جھنڈے گاڑتی آرہی تھی۔ پھر کچھ کرنے کی لگن۔ یقینا اس کے لئے مشکل نہ ہوتا۔ مگر مشکل تب بنی جب باقاعدہ اپنی خواہش کا اظہار کرنے پر اسے مما سے خوب سخت ست سننے کو ملیں۔” مجھے بھی سجیلہ خالہ کی طرح ڈاکٹر بننا ہے۔ کہتی تو وہ شروع سے ہی تھی، نفیسہ کبھی سن کر اگنور کردیتیں یا اسے گھور کر چپ کروادیتیں۔ مگر اس روز تو حد ہی ہوگئی انہوں نے اسے تھپڑ کھینچ مارا۔
یہی بے کار کام رہ گیا ہے کرنے کو۔ تمہارے لئے کوئی اور فیلڈ نہیں بچی اس دنیا میں۔ سخت نفرت ہے مجھے اس پیشے سے۔ خبردار جو آئندہ تذکرہ بھی کیا۔
مگر مما۔ خالہ بھی تو…
”جسٹ شٹ اپ… جو میں نے کہا تم نے سنا نہیں۔”
شدید شاک سے باہر آتے رندھے گلے کے ساتھ اس نے صدائے احتجاج بلندکرنا چاہی تھی۔ دلیل سمیت مگر جو مما کی ایک ہی دھاڑ سے دبادی گئی اور یہی پر بس نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے تو بابا سے بھی جانے کیا کچھ کہا کہ وہ جو پہلے اس کی ہر خواہش پوری کرنے کو تیار رہتے تھے اس معاملے میں لاپرواہ ہوگئے۔ پھر تو جیسے دل ہی ٹوٹ گیا۔ جیسے تیسے بی ایس سی کے بعد اس نے کتابیں سمیٹ کر پرے کردیں۔
اچھی بات ہے لڑکیوں کے لئے اتنی تعلیم ہی کافی ہوتی ہے۔ انہوں نے کرنا ہی کیا ہوتا ہے۔ گھر ہی سنبھالنا ہے تو اس کے لئے یہ بھی بہت۔ اس کی ویل ایجوکیٹڈ اور شہر کی سب سے بڑی این جی اوز کی روح رواں مما کا بیان تھا وہ پرسکون تھیں۔ بابا ان کی مرضی پر راضی تم نے پہلے بھی غلط اسٹیپ لیا تھا اب بھی غلط کررہی ہو۔ گھر بیٹھ کر کروگی کیا۔ تمہیں آگے پڑھنا چاہیے؟ جرار نے تو بہیترا کیا۔ اس نے چپ کی بکل اوڑھ لی۔
اور آج بہت دنوں بعد کسی نے اندر کے نچلے کونے میں دبی چنگاری کو ہوا دے ڈالی تھی۔ روکتے روکتے بھی پلکیں بھیگنے لگیں اور وہ اس کی کیفیت سے بے خبر سنک پر ہاتھ دھورہا تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا تو ابتہاش نے بھی اصرار نہیں کیا تھا وہ چولہے پر چائے کے لئے پانی چڑھا چکی تھی۔
اب اس میں کیا ڈالتے ہیں؟ کاؤنٹر سے ٹھیک لگائے سینے پر بازو باندھتے وہ اک نیا سوال کررہا تھا۔
”آف کورس پتی۔” شکر ہے وہ اتنی پھوہڑ نہیں تھی جتنی وہ اسے سمجھ رہا تھا۔ بروقت جواب سوجھ گیا۔
اور اس کے بعد؟ لو وہ تو پورا ہی امتحان لینے پر اتر آیا تھا۔ زرتاشہ نے دیکھا اس کے چہرے پر دلفریب شرارتی سی مسکان رقص کناں تھی جو سراسرا سے اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہوئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”آپ جائیں یہاں سے مجھے بنانا آتی ہے چائے۔” وہ فوراً بدلحاظ ہوئی۔ اسے اپنی نالائقی یا کام چوری سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور علاوہ آپابی کے کبھی اسے کسی نے کچھ کہا بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی خامیوں سے پوری طرح آگاہ تھی اور ان پر نالاں بھی نہیں تھی مگر اس شخص کی مسکراتی آنکھیں اسے مجبور کررہی تھیں کہ وہ اپنی کوتاہیاں مان لے۔
اوہو میں نے کب کہا کہ تمہیں چائے بنانا نہیں آتی بٹ آئی سوئیر کے تجرباتی چائے پینے کا قطعاً کوئی شوق نہیں۔ اچھا یوں کرتے ہیں کہ چائے میں بناتا ہوں اور تم مجھے مطلوبہ اشیاء فراہم کرتی جاؤ۔ بازو فولڈ کرتا وہ گویا میدان میں اتر آیا۔
”آ… آپ بنائیں گے چائے؟” اسے حیرت ہوئی تھی۔
ہاں بھئی۔ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ ایٹ لسٹ ناول پڑھنے سے تو بہت ہی ایزی ہے اور صرف چائے کیا میں توکئی ڈشز بہت اچھی بنالیتا ہوں۔ ان فیکٹ شروع سے ہی گھر کا ماحول ایسا تھا کہ مما جاب کی وجہ سے بہت بزی ہوتی تھیں۔ جب انہیں وقت ملتا دو چار ڈشز بناکر فریز کردیتیں کیونکہ گھر میں خانساماں ہونے کے باوجود ڈیڈ کو مما کے ہاتھ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کا کھانا اچھا ہی نہیں لگتا تھا اور مجھے یہ فیل ہوتا تھا کہ جس وقت میں مما کو آرام کرنا چاہیے وہ کام کررہی ہوتی ہیں۔ میں بے اختیار ان کا ہاتھ بٹانے لگتا ہیں۔ وہیں سے بہت کچھ سیکھ لیا۔ اور ایگزامز کے دنوں میں تو میں کسی کو ڈسٹرب نہیں کرتا تھا خود ہی اپنے لئے چائے یا کافی بنالیتا اس سے اتنی پریکٹس ہوگئی کہ اب میری بنی چائے میں کوئی نقص نکال ہی نہیں سکتا۔ مجھ سے سیکھ لو فائدے میں رہوگی۔” بات کرتے کرتے وہ آرام سے کہ گیا وہ بے اختیار ہنس دی۔
اتنی دیر ہوگئی تھی اور اس نکمی لڑکی سے ایک کپ چائے کا نہیں تھا۔ آپا بی تو پوری تیاری کے ساتھ اس کے لتے لینے کے ارادے سے ہانپتی کانپتی وہاں تک پہنچیں تھیں کہ سامنے ان دونوں کو ہنستے مسکراتے ایک ساتھ کام کرتے دیکھ کر وہیں رک گئیں۔ جو کہنا تھا وہ تو بھول ہی گیا۔
”ارے آئیے ناں آپا بی۔ آج میرے ہاتھ کا ناشتہ کریں۔ سارے ناشتے بھول جائیں گی۔” اس کی ہدایت پر زرتاشہ فریج سے انڈے اور بریڈ نکال رہی تھی۔ وہ اسے چائے کپوں میں چھاننے کا کہہ کر کھٹا کھٹ پیاز کاٹ رہا تھا۔ بڑے خوشگوار ماحول میں ناشتہ تیار ہوا۔ ابتہاش کے جوہر کھل کر سامنے آئے تھے۔ زرتاشہ تو متاثر ہوئی ہی تھی آپابی بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں۔
”میری سجیلہ تو بڑی کاہل تھی تم کہاں سے اتنے سلیقہ شکار ہوگئے لڑکے۔” غلط بالکل غلط۔ میری مما نہایت آرگنائزڈ خاتون ہیں۔ ان کا ہر کام پرفیکٹ ہوتا ہے۔ سلیقہ تو ان پر ختم ہے۔ آپ تب کی بات کرتی ہیں جب وہ آپ کے گھر میں تھیں۔ اب آپ انہیں ان کے گھر میں جاکر دیکھیں۔ تو آپ کو خبر ہو۔ اس نے ماں کی بھرپور وکالت کی تھی۔ آپابی مسکرادیں۔ ناشتے سے پورا انصاف کرنے کے بعد اٹھتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں۔
جب فارغ ہوجاؤ تو ماں کا نمبر ملا کر بات کروانا میری۔ تمہیں اتنا قابل بنادیا اس نے۔ میں اس سے پوچھوں تو یہی کیا وہ ذرا سا سلیقہ میری زرتاشہ کو بھی سکھا دے گی۔ اور ان کی بات کا اصل مفہوم سمجھے بنا وہ ٹھٹکی تھی۔
”تو یہ ہے آپا بی۔ آپ کو تو میں موقع چاہیے میری برائی کرنے کا۔”
ابتہاش کا دھیان بھی اپنی پلیٹ کی طرف تھا وہ بھی نہ جان سکا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں ان دونوں کی نظر اتارتیں آپابی دل میں کیا ٹھان چکی ہیں۔
٭…٭…٭
اور جب انہوں نے سجیلہ سے اپنا ”خیال” کہا تو وہ بے حد مسرور ہوئیں۔
سچ آپابی یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے آپ نے تو مجھے ایک بڑی مشکل سے بچالیا آجکل تو اپنے فیملی سیٹ اپ اور مزاج کے مطابق بہو تلاش کرنا بھی کنویں میں سے موتی نکالنے کے برابر ہے۔ گوکہ میں نے تو ابھی اس بارے میں بالکل کچھ نہیں سوچا۔ ابھی تو ابتہاش کا ایم بی بی ایس مکمل ہے۔ محسن کا تو ارادہ ہے کہ اسے مزید تعلیم کے لئے باہر بھیج دیا جائے جب وہ سیٹلڈہوگا تب ہی ہم اس کے لئے کچھ پلان کرتے مگر اب آپ کی بات بھلا میں ٹال سکتی ہوں۔ زرتاشہ تو میری اپنی بچی ہے اور وہ تو اتنی کیوٹ ہے ماشاء اللہ میرے لئے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوگی کہ وہ میرے گھر کی رونق بنے۔ ابتہاش آپ کے پاس ہی ہے آپ اس کی رائے لے لیں اور کیا آپا مان جائیں گی انہیں تو کوئی اعتراض نہ ہوگا؟
”ہاں ہاں۔ میں ابتہاش کی بھی مرضی معلوم کرلیتی ہوں بھئی زندگی تو ان بچوں نے ہی گزارنی ہے۔ ان کی منشاء تو پہلے ہے اور لو بھلا نفیسہ کیوں نہ مانے گی۔ اپنی بیٹی کے لئے کیا اس سے بہتر رشتہ اسے ملے گا کہیں۔ وہ زرتاشہ کی ماں ہے تو میں اس کی بھی ماں ہوں کیا مجھے اتنا سا بھی حق نہیں کہ میں اپنے بچوں کے لئے کوئی فیصلہ کرلوں۔” وہ بااعتماد تھیں۔
”کیوں نہیں۔ آپا بی آپ کو پورا حق ہے۔ ہم سے زیادہ تو ان بچوں پر آپ حق رکھتی ہیں۔ جیسے آپ کا دل خوش ہو آپ ویسا کریں میری طرف سے تو بات پکی ہی سمجھیں۔ مجھے تو جب حکم کریں گی۔ میں حاضر ہوجاؤں گی پوری تیاری کے ساتھ۔” ہمیشہ کی فرمانبردار سجیلہ نے اس بار بھی ان کا مال بڑھا دیا تھا وہ نہال ہوگئیں۔
”ماں صدقے، میری بچی، جیتی رہو، اللہ سہاگ سلامت رکھے۔ سدا خوشیوں سے دامن بھرا رہے۔ تم نے تو مجھے سرشار کردیا۔ میں اب میں باقی کا معاملہ بھی نپٹاتی ہوں۔” ابتہاش کا فون وہ خود کیسی آئیں تھیں۔ وہ بیڈ کراؤن سے دو تکیے ٹکائے نیم دراز بڑی محویت سے ناول پڑھنے میں مگن تھا۔ آپابی نے بغور کتاب کا ٹائٹل دیکھا اور مسکرادیں۔
یہ لو۔ ایک زرتاشہ کیا کم تھی کہ اب تم بھی اس کام سے لگ گئے۔
اوہ آپابی۔ آپ… مجھے بلالیا ہوتا۔ وہ جھٹ سیدھا ہو بیٹھا۔ کتاب سائڈ ٹیبل پر رکھی۔ ”وہ میں کچھ اور نہیں تھا کرنے کو تو سوچا یہی پڑھ لیتا ہوں۔”
”ہاں۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ چلو اچھی بات ہے۔ فارغ وقت کو گزارنے کا کتاب سے بڑھ کر اور کوئی اچھا مصرف ہو ہی نہیں سکتا۔ میں تو زرتاشہ کو بھی یونہی ٹوکتی رہتی ہوں۔ دراصل رات جاگ جاگ کر پڑھتی رہتی ہے۔ تو یہ فکر ہے کہیں نظر نہ خراب کرلے ورنہ بھلا مجھے کیوں اعتراض ہونے لگا اور پھر بہت ہی سارہ اور معصوم سی بچی ہے ہماری اور کوئی شوق تو ہیں نہیں اس کے نہ عام لڑکیوں کی طرح زیور کپڑے بنانے کی عادت۔ جو ماں نے لادیا وہی پہن اوڑھ لیا۔ کبھی بے جا ضد نہیں کی اس نے کسی بھی معاملے میں۔ شہر میں رہتے بھی اسے زمانے کی ہوا نہیں لگی ورنہ تو آجکل کی لڑکیاں توبہ توبہ۔ ایسے ایسے فیشن کرتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایک یہ ہماری لڑکی ہے مست ملنگ سی۔ اول جلول حلیے میں پھرتی رہے گی لاپروائی سے۔ بس وہ ہے اور اس کی کتابیں۔ وہ تو کھانے پینے کی بھی شوقین نہیں تم نے دیکھی ہیں ناں اس کی عادتیں۔” وہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے تمہید باندھ رہی تھیں۔ ابتہاش کو ذرا سی حیرت تو ہوئی کہ ہر وقت نواسی کے پیچھے لٹھ لئے پھرنے والی آپابی اس وقت اس کی تعریفیں کیوں کررہی ہیں۔ مگر یہ کوئی ایسا بھی ناممکن نہ تھا۔ ہر لمحہ ڈانٹتے رہنے والے بڑوں کو کبھی کبھی چھوٹوں پر پیار بھی تو آجاتا ہے۔ وہ مسکرا دیا۔ اس نے بالکل دیکھی تھیں اس کی عادتیں اور وہ عادتیں ہی تو ”دل” لے رہی تھیں۔
”اچھا تم بتاؤ تمہیں کیسی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔” وہ اب کہ نہایت دوستانہ لہجہ میں دریافت کررہی تھیں۔ اسے اچھتبا ہوا پھر ہنس کر کندھے اچکا دیئے۔
”خیریت۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔ ویسے اچھی لڑکیاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ اور لڑکیاں تو ساری ہی اچھی ہوتی ہیں۔ اب میں کیا بتاؤں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!