اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

زرتاشہ ۔ اب کی بار انہوں نے اونچی تان لگائی اندھیرا بڑھ گیا تھا۔ وہ بیٹھی بھی گھنی کچنار کے نیچے تھی۔ جس پر بور لگے بہت دن ہوچکے تھے اب کلیاں بن رہی تھیں اور جن کی خوشبو نے تمام فضا کو مہکا رکھا تھا ایسے میں کیڑے مکوڑوں کا خطرہ بھی ہوتا تھا اگر اسے کچھ کاٹ گیا تو… لیکن وہ تو ایسی مگن تھی جیسے پورے زمانے میں صدف کتاب ، ہیڈ فون ، کرسی اور اس کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو انہیں خوب ہی غصہ آیا۔ وہ اس کی خبر لینے کے ارادے سے بڑھیں تھیں کہ ابتہاش کو آتے دیکھ کر وہیں رک گئیں۔ بسم اللہ۔ ماں صدقے کدھر رہ گئے تھے بچے۔ میرا تو سانس ہی اٹک گیا تھا اتنی دیر کہاں رہ گئے تھے؟
ارے آپ کیا پریشان ہوگئیں تھیں۔ ابتہاش نے انہیں بازو کے گھیرے میں لے لیا میں کوئی بچہ نہیں آپا بی ادھر ہی تھا باہر کچھ لوگوں نے روک لیا تھا ان کے ساتھ بیٹھا تو پھر وقت گذرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ اف کچھ مت پوچھیں یہاں گاؤں میں کتنے مسائل ہیں صحت کے اس پر افسوس کہ لوگ انتہائی لاپروا ہ ہیں انہیں تکلیف سہنا آسان لگتا ہے بجائے بہتر علاج کروانے کے لئے ہر بیماری کو معمولی نوعیت کی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں تآنکہ معاملہ زیادہ بگڑ نہ جائے۔ بہت سے لوگ تو ایسے ہیں کہ جنہیں صحت کے متعلق عام باتیں سمجھانے کے لئے بھی اک عرصہ درکار ہے۔ اب اور کسی کی کیا بات کروں یہاں کونسلر صاحب کی ہی سن لیجیے جو علامات وہ مجھے بتارہے تھے اس کے مطابق ان کا نمونیہ بگڑا ہوا ہے اور وہ یہاں کے حکیم صاحب سے ملیریا کی میڈیسن لے کہ کھا رہے ہیں حد نہیں ہوگئی کم علمی کی ایک اور حضرت ہیں ان کے گردے میں اسٹونز ہیں اور وہ کب سے پیٹ درد کی پھکیاں لے لے کر پھانکے جارہے ہیں۔ اب میں کیا بتاؤں میرا تو دماغ گھوم گیاہے تو ابھی ند ایک کہیں ہیں جانے اور کتنے لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہوں گے وہ حکیم صاحب، میں نے تو سب سے کہا کہ کل پر صورت شہر جاکر اپنے اپنے ٹیسٹ کروائیں اور درست میڈیسن لیں۔ خدانخواستہ اس طرح تو ان کی جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ اچھا مجھے پانی تو پلوائیں آپا بی میری تو اپنی حالت بری ہوگئی یہاں کی صحت عامہ کی صورت حال دیکھ کر۔” وہ حد درجے پریشان دکھائی دے رہا تھا ان کے تخت پر جا بیٹھا۔
ارے تم کیوں فکر کرتے ہو بیٹا یہ تو یہاں کے عام حالات ہیں۔ لوگ بے چارے مجبور ہیں کیا کریں روز روز شہر جا نہیں سکتے کوئی کوئی سمجھدار ڈاکٹر یہاں آتا نہیں ہے۔ اور یہ صرف اس گاؤں کا ہی مسئلہ نہیں ہے آگے اور ستر دیہات میں بھی یہی کچھ چل رہا ہے کوئی مڈل پاس تو کوئی دسویں فیل چھوٹا موٹا حکمت کا کورس کرکے بڑا حکیم صاحب بنا بیٹھا ہے اور دن رات اور اندھا دھند لوگوں سے مفت کے پیسے بٹور رہا ہے اور ان کی صحتوں کا بیڑا غرق کررہا ہے غضب خدا کا کوئی پوچھ تاچھ کرنے والا بھی نہیں ان نامرادوں سے۔ بے چارے دیہاتیوں کے ساتھ تو ہر معاملے میں وہ سلوک ہوتا ہے ہمارے ہاں جو سوتیلی ماں کرتی ہے۔ میں چھوڑو پرے کس کس کا دکھ کروگے تم۔ اچھا میں پانی منگواتی ہوں تمہارے لئے۔ اسے تسلی دے کر انہوں نے ادھر رخ پھیرا تھا کتاب پر سر رکھے ہچکولے کھاتے اس کے وجود کو دیکھ کر بوکھلا اٹھیں۔
ہائیں ۔ ہائیں ۔ زری۔ تاشے۔ بچے کیا ہوا ۔ رو کیوں رہی ہو۔ خیر تو ہے؟ کیا ہوا کس کا فون آیا تھا کیا؟ ابتہاش کی بھی نظر پڑی اور وہ آپا بی سے پہلے اس تک جا پہنچا۔
زرتاشہ۔ وائے آر یو کرائنگ؟ واٹ ہیپنڈ؟ دوسری کرسی اس کے قریب کھینچ کر بیٹھتے وہ پوچھ رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اوہو۔ ہوا کیاہے لڑکی کچھ بتاؤ تو میں کیا جرار کے جانے سے اداس ہوگئی ہو ایک تو دونوں بہن بھائی دنیا سے نرالے ہو بھئی۔ سامنے ہوتے ہے تو دشمنوں کی طرح لڑتے ہو۔ ایک دوسرے کا دیکھنا بھی برداشت نہیں ہوتا بے مقصد لڑائیاں کرکرکے اگلوں کو بھی دق کرتے ہو۔ اور دور ہوتے ہو تو اک دوجے کے لئے ہلکان۔ ارے اس نے تو جانا ہی تھا کچھ روز میں امتحان ہیں اس کے۔ دعا کرو اللہ کامیاب کرے اور بس چپ ہوجاؤ شام کا وقت ہے اس وقت رونا ویسے ہی تری نحوست اللہ ہر بری گھڑی سے بچائے۔” اس نے سراٹھایا۔ آنسوؤں سے بھری آنکھیں بھیگے گلابی عارضی جنہیں دوپٹے سے رگڑ کر اس نے کچھ اور رنگ لیا۔ ابتہاش کی نظر ٹہر سی گئی۔ یوں لگا جیسے کچلتے تارے اور صبح نو کی روشنی یکجا ہوگئی ہو اک عجب نظارا تھا جو اس نے دیکھا اسے تو زندگی میں اب تک کے دیکھے سارے نظارے بھول گئے۔ اک طلسم تھا جس نے جکڑ لیا۔
ہوا کیا ہے کچھ پھوٹو بھی۔آپا بی جھنجھلا رہی تھیں۔
”کچھ نہیں ہوا آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔” وہ اک جھٹکے سے اٹھی سامنے ہی ٹیبل پر اوندھی پڑی کتاب اٹھانے لگی کہ حواس سنبھالتے ابتہاش نے اس سے پہلے اچک لی۔
”جنت کے پتے۔” ٹائیٹل پر جلی صروف میںبڑا ہی انسپائرنگ نیم تھا اسے غور فرماتے دیکھ کر وہ زچ ہوتی اندر چلی گئی۔ اس نے کتاب سیدھی کرکے وہ مضحہ سامنے کیا جو وہ پڑھ رہی تھی۔
لو اب تم بھی آنکھیں پھوڑو۔ ایک وہ لڑکی ہے اللہ جانے کیا لکھا ہے ان کتابوں میں ہر وقت چپکی رہتی ہے ان سے۔کبھی ہنستی ہے کبھی روتی ہے۔ پاگل نہ ہو تو یہ اگر کچھ دن اور یہاں رہی تو مجھے بھی پاگل کرکے چھوڑے گی۔ ایک لڑکی اس کی بھی تربیت نہ کی گئی نفیسہ سے، پتہ نہیں کیا بنے گا اس کا آپا بی بڑبڑائیں پیچھے ہولیں۔ اور یہ پیرا پڑھ کر ہی وہ سوچ رہا تھا۔
اف… یہ ناول نگار بھی ناں ایسے لفظوں کا طومار باندھتے ہیں کہ اچھے خاصے ہوش مند حواس کھو بیٹھیں۔ ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ اندھے کو بھی نظر آئے گئے کہنے کو افسانہ مگر حقیقت دکھاتا ہوا کہا ں سے آتا ہے ان کے پاس ایسا دماغ جو دوسروں کا ہی دماغ گھما دے۔ ویری اسٹرینج رکھ دو میاں ابتہاش محسن یہ تمہارے بس کا روگ نہیں۔ اس نے کتاب رکھی پھر کچھ سوچ کر اٹھالی۔
چہرے کے آثار بتاتے تھے آج رات وہ بھی ”گھومنے” کا ارادہ کرچکا ہے۔
٭…٭…٭
چچ چچ ، بے چاری حیا، کچھ زیادہ ہی برا نہیں ہوگیا اس کے ساتھ۔ اتنے کٹھن حالات الجھے ہوئے واقعات، اغوا، پھر اس قدر بہیمانہ سلوک، رائٹر نے تو ذرا بھی ترس نہیں کھایا اس بے چاری معصوم سی لڑکی پر ، اتنی بے دردی ، تم بالکل ٹھیک رو رہی تھیں۔ ا ف میرا تو اپنا دل دہل گیا پڑھ کر بڑا ترس آیا مجھے۔”
سعیدہ خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ رات ہی کہہ گئیں تھیں کہ صبح سویرے نہیں آسکوں گی۔ فرحت اسکول ہوتی تھی اس وقت۔ آپا بی کے اپنے جوڑوں کا درد بڑھ گیا تھا وہ تو ساری رات ”حیا” کے دکھ میں سوتی جاگتی رہی تھی وہ بھی اپنے پلنگ پر ہائے وائے کرتی رہیں اب انہوں نے اسے جگا کر چائے بنانے بھیج دیا تھا ان کی حالت کے پیش نظر وہ کوئی رددکہ بھی نہ کرسکی اب کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہاں سے کام شروع کرے کہ وہ بلیک سڑیک سوٹ میں ملبوس کچن کے دروازے میں آکھڑا ہوا۔
بکھرے براؤن بال، سفید رنگت جو مسلسل دوڑتے رہنے کے باعث سرخی مائل ہورہی تھی۔ پیشانی پر چمکتا پسینہ جسے وہ لاپروائی سے آستین سے صاف کررہا تھا۔ ابھی ابھی جوگنگ سے لوٹا تھا اسے دیکھ کر ادھر آگیا۔ زرتاشہ کو اس کے تبصرے پر خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ یعنی اس نے ناول پڑھا تھا چلو شکر ہے کوئی تو اپنے جیسے ملا وگرنہ تو اس کی عادت سے سب ہی اب خائف ہونے لگے تھے۔ ناول پڑھ کر ہضم کرلینا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے فریج میں رکھا حلوہ آپ چھپ کر اور بہت زیادہ کھالیں اور بعد میں طبیعت پر گرانی محسوس ہونے لگے۔ مل بانٹ کر اور ہنستے کھیلتے کھانا ہی اچھا لگتا ہے بالکل ایسے ہی کتاب پڑھنے کے بعد جب تک اس پر اظہار خیال نہ کیا جائے تو تسلی ہی نہیں ہوتی وہ تو ترسی ہوئی تھی یہاں کوئی ایسا ملے جس کے ساتھ بیٹھ کر مناظرہ کیا جائے گھر میں تو بابا تھے اس کی انٹ شنٹ بھی توجہ سے سن لیتے تھے یہاں کون سنتا؟ نہایت پر شوق لہجے میں پوچھا۔
”آپ ناولز پڑھتے ہیں؟”
”سوری فالتو کاموں کے لئے بالکل ٹائم نہیں ہوتا میرے پاس۔ یہ ویلے لوگوں کا مشغلہ ہے ہم جیسوں کا نہیں۔”
اف اس کے نفی میں ہلتے سرنے کیا کم ستم ڈھایا تھا کہ وہی سہی کسر لفظوں نے پوری کردی سخت بدمزا ہوئی جل کر لب کشا کئے۔
آپ جیسے لوگ فلمیں تو بہت شوق سے دیکھتے ہوں گے۔
”اونہوں۔ میں نے کہا ناں بالکل ٹائم نہیں ہوتا فالتو کاموں کے لئے، نہ ناولز، نہ فلمز اور نہ ہی کوئی اور ایکٹی ویٹی۔” وہ دروازے سے ہٹ کر اسٹول پر آبیٹھا۔
خیر اور کام ہوتے ہوں گے وقت ضائع کرنے والے لیکن ناولز پڑھنا بالکل بھی فالتو کام نہیں پتہ نہیں لوگ کیوں اسے بے کار مشغلہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ ہماری زمین تو ہمیشہ سے اس معاملے میں بہت زرخیز رہی ہے ایک سے بڑھ کر ایک بہترین لکھنے والے ہیں ہمارے ہاں جو غضب کا ادب تخلیق کررہے ہیں اب میں آپ کے سامنے کس کس کا نام لوں افسوس آپ تو کسی سے واقف نہیں ہوں گے۔ پردے کے پیچھے رہتے ہوئے ایسے ایسے قلمکار ہیں جنہوں نے فکشن کو صرف فکشن ہی نہیں رہنے دیا بلکہ اس میں اتنے رنگ بھردیئے ہیں اب تو عام روایتی باتوں کے علاوہ اتنے متنوع موضوعات پر لکھا جاتا ہے اور اتنی گہرائی اور خوبصورتی سے کہ پڑھنے والا دنگ رہ جائے کبھی وقت ملے تو پڑھ کر دیکھئے گا۔” اسے تو کبھی موقع نہیں ملا تھا ورنہ اس موضوع پر وہ کسی بھی سیاستدان سے زیادہ گرما گرم تقریر کرسکتی تھی اب بھی خوب بولتی اگر جو اس کی چمکتی آنکھیں خود پر مرتکز نہ پاتی۔ پزل ہوئے اس نے جلدی سے مقالہ لپیٹ دیا اور ادھر ادھر ہاتھ مارتی خود کو مصروف ظاہر کرنے لگی۔
ایکچوئیلی میری اسٹڈیز ہی اتنی ٹف رہی ہیں کہ کبھی یہاں وہاں دیکھنے کی ہمت ہی نہیں پڑی اب تم نے کہا ہے تو ضرور کوشش کرونگا ایک آدھ ناول پڑھنے کی۔ بلکہ جو اچھا لگتا ہے وہ بتادینا میں وہی پڑھ لونگا۔ رات تو میں نے صرف چھ پیجز پڑھے اور میری ہمت جواب دے گئی۔ بہت مشکل کام ہے اف۔ ویسے تم کیسے پڑھ لیتی ہو اتنا زیادہ؟ وہ بے حد معصومیت سے استفسار کررہا تھا۔
اتنا مشکل کام تو نہیں ہوتا۔ بہت آسان ہے پڑھنا۔ ایٹ لیسٹ میڈیکل کی موٹی موٹی ضخیم کتابیں پڑھنے کی نسبت تو بہت ہی آسان آپ نے وہ کتابیں کیسے پڑھ لیں؟ الٹا اس نے سوال داغا۔ وہ ہنس دیا (اف وہی جان لیوا نہیں) بس پڑھ لیں۔ آپا بی بتارہی تھیں تمہیں بھی کبھی شوق ہوتا تھا میڈیکل میں جانے کا۔ پھر کیا ہوا گئیں کیوں نہیں اس طرف؟

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!