اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

ماموں نے کچھ دن پہلے ہی نئی شکاری بندوق خریدی تھی۔ ان کے دوست یار بھی آتے رہتے تھے۔ وہ نانا کے زمانے والی بندوق تو اب بہت پرانی اور خراب ہوچکی تھی۔ جرار نے یہ شوق نانا سے لیا تھا اور اس کا نشانہ بھی ٹھیک تھا ۔ ابتہاش نے تو خیر کبھی بندوق اٹھا کر بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ آج صبح تڑکے ہی وہ ماموں کی مصیبت میں پوری تیاری کے ساتھ مہم جوئی پر نکلے تھے اور اب واپسی پر خوب تھکے ہوئے لیکن اپنی کامیابی اور کارکردگیوں کی داستانیں لے کر لوٹے تھے۔
میں تو کتنے کتنے عرصے بعد بندوق پکڑتاہوں اوراکثر تو میرا ہاتھ ہی سیدھا نہیں پڑتا لیکن بھئی کیا نشانہ ہے اپنے جری کا یہ بھی کمال کا بھانجا ہے۔ آج تو اس کی مہارت نے مجھے ابا جی کی یاد لوادی۔ ماموں تعریف کررہے تھے۔ وہ پھولے نہ سما رہا تھا۔ آج کی بہترین یادگار ایک بڑی ساری مرغابی رہی تھی۔ جو اس کے ہاتھوں کا کارنامہ تھا۔ آئے ہائے کیا بات تھی تمہارے ابا کی بھی۔ ایسا نشانہ باندھتے تھے کہ کتنا ہی چوکنا پرندہ ہو تا اگلے پل اڑان بھول جاتا اور ایک بار تو یوں ہوا… آپا بی کی آنکھوں میں کوئی یاد گم گشتہ جگمگائی۔ ماموں بھی شدومہ سے سرہلارہے تھے۔ سعیدہ خالہ کیوں پیچھے رہتیں پھر تو سماں بندھ گیا۔ اور یہ زمانہ گزشتہ کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں جب بھی چھیڑ لو ۔ ایک تار سے دوسرا تار از خود بندھتا چلا جاتا ہے اور پھر یادوں کا یہ کھلا تھان لپٹے نہیں لپٹتا۔
اف نانا جی اتنے ظالم تھے۔مجھے پتہ ہی نہیں تھا۔ سب تو تعریف و توصیف کررہے تھے ایک وہ تھی سارے قصے سن کر ناک چڑھائے بڑبڑائی تھی۔ ابتہاش نے بمشکل مسکراہٹ ضبط کی۔ ایک تو اس کی بڑبڑاہئیں جو وقفے وقفے سے کانوں میں پڑ رہی تھیں دوسرا اس کے چہرے کے انتہائی درد بھرے تاثرات گویا وہ نانا جی کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ دوسری جنگ عظیم کا احوال سن رہی ہو۔ اسے تو گدگدی سی ہورہی تھی وہ تو بھلا ہو مامی رشنا کا جنہوں نے آکر سب کا دھیان بٹایا وگرنہ وہ سب تو وہیں شام کردیتے۔
آپ لوگ باتیں ہی کئے جائیں گے یا ان سب کا کچھ کرنا بھی ہے۔
ہاں ہاں بھئی لاؤ میں صاف کئے دیتا ہوں۔ اور یہ مرغابی تو آپا بی صرف آپ ہی اچھی بناسکتی ہیں۔ چڑے سعیدہ خالہ فرائی کرلیں گی اور بھئی مچھلی ہمارے ہاشو شہزاد نے پہلی بار شکار کی ہے۔رشنا اسے تم خود ذرا اچھی سی کرکے بنالو۔ماموں نے کام بھی بانٹ دیئے۔
بہت تھک گئے ہیں یار کوئی اللہ کا نیک بندہ چائے ہی پلادے۔ جرار فریاد کررہا تھا۔
”جاوؑ زری پتر فٹا فٹ سب کے لئے اچھی سی چائے بنالاؤ۔” آپا بی کو وہی نظر آی تھی۔ جو چار وناچار اٹھی اتنی تکلیف تو پیٹ درد والے مریض کے چہرے پربھی نہیں ہوتی جتنی اس پل اس کی شکل پر تھی۔ ابتہا نے بغور دیکھا اور سرہلا کر رہ گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بمشکل دو انچ کا ہوگا وہ اوپر سے سبز اور نچلا حصہ بالکل زرد۔ اتنے خوبصورت کلر کمبی نیشن کے ساتھ وہ چڑیا کا بے حد پیارا بچہ تھا جو باریک سی چونچ کھولے مسلسل چوں چوں کئے جارہا تھا۔ سنچیریا کی گھنی شاخوں میں کئی ایک چھوٹے چھوٹے سے گھونسلے بنے ہوئے تھے ایسی مہارت اور نفاست سے کہ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ایک چھوٹی سی چڑیا کو قدرت نے کیسی کاریگری سکھادی یہ سبز چڑیاں تھیں جن کا پورا خاندان آبادتھا یہاں ۔ بیل کے نیچے اکثر وہ آکر بیٹھ جاتی مگر پھر محسوس کیا کہ چڑیاں اس کے آنے سے بے چین ہوجاتی ہیں آجکل وہ سب انڈے سی رہی تھیں تو وہ احتیاط کرنے لگی آج یونہی بے دھیانی میں ادھر بیٹھی تو گھنے سبز پتوں اور بے شمار پھولوں بھری ٹہنیوں میں ادھرسے ادھر چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھرتا وہ ننھا سا بچہ نہ صرف اسے بلکہ سامنے ہی شہتوت کی شاخ پر جھولتے بدنیت حریص کو ے کو بھی متوجہ کر ، جس نے سری کاٹیں کاٹیں شروع کرکے الگ ہی کھپ ڈال دی۔
دفع ہوجاؤ کم بخت۔ ایک ننھی سی چڑیا اور تم اپنے پورے قبیلے کو دعوت دینے لگے۔ وہ گھبرا کر اٹھی دوپٹہ لہرا کر کوے کو اڑایا لیکن ہوا یہ کہ وہ بچہ بھی بوکھلا کر نیچے فرش پر آگیا ۔ وہ جھٹ پکڑنے کو لپکی مگر ابھی وہ اتنا بھی غافل نہیں تھا اڑان بھر کر پنچ سے دور ہوگیا۔ کوا زیادہ دور نہیں گیا تھا وہ پھر سے واپس آبیٹھا۔
”تم تو جاکر مرو کہیں۔” زرتاشہ کا بس نہ چلا اندر سے ماموں کی شکاری بندوق لاکر اس کلمو ہے کو تو اڑا ہی دیتی۔ عجیب مشکل میں پھنس گئی تھی وہ ایک ننھے سے پرندے کے لئے سخت بے اعتبار ٹہری تھی جو اسے قریب آتے دیکھ کر پھر سے دوسری جانب اڑجاتا۔
اف وہ کیسے اسے سمجھاتی اس کی جان خطرے میں تھی اس بدبخت کوے نے تو اگلا سانس بھی نہیں لینے دینا تھا منٹ میں چٹ کر جاتا۔ وہ اب قدرے اونچی شاخ پر تھا اور وہ ادھر ادھر کوئی چیز تلاش رہی تھی جس پر چڑ ھ کر اسے قابو کرسکے۔ کونے میں رکھا بنچ اسے نظر آگیا تھا جسے لپک کر کھینچ لائی اور قبل اس کے کہ اس پر چڑھتی پیچھے سے کسی نے ہاتھ بڑھا کر منہ کھولے سانسیں لیتے ننھے سبز پرندے کو پکڑ کر اس کے سامنے کردیا۔ پندرہ منٹ کی چک پھیریوں نے اسے ہانپنے پر مجبور کردیا تھا تو وہ تو پھر ننھی سی جان تھی سانس اس کا بھی پھول گیا تھا۔ مزید کسی مزاحمت کے آرام سے پکڑائی دے دی۔ اور پکڑنے والے نے داد طلب نظروںسے اسے دیکھا تھا جبکہ وہ خواہ مخواہ چڑ گئی طنزیہ مسکان لبوں پر سجا کر بولی۔
”آئے ہائے اب اس بے چارے کی گردن پر چھری نہ پھیر دیئے گا اس میں تو ایک بوٹی بھی پوری نہیں نکلے گی۔ آپ کا حلق تو کیا تر ہوگا داڑھے بھی گیلی نہ ہوگی۔ ویسے سچ میں آپ کو اس پر ترس آگیا؟ یہ تو بہت چھوٹا سا ہے اور چھوٹے پرندوں کو بچانے کا تو ثواب بھی تھوڑا سا ہوگا(انگوٹھے اور انگلی کے درمیان رتی بھر فاصلہ رکھ کر دکھایا) زیادہ ثواب کیلئے بڑے پرندوں کی جان بچانی چاہیے۔”
ابتہاش کی دونوں بھنویں آپس میں جڑ گئیں بڑی حیران نگاہ تھی۔ نہ کوئی مروت نہ احسان وہ تو الٹا باتیں سنانے لگی اک پل کے لئے تو جی میں آئی کہ مٹھی کھول دے مگر پھر اردگرد منڈلاتے کوے دیکھ کر ارادہ بدل دیا۔
”بائے دا وے میں نے بڑے پرندوں کی جان کب لی ارے بھئی میں نے تو کبھی چیونٹی کو بھی نہیں مارا اور پرندے تو بے حد کیوٹ اینڈ انوسنٹ جاندار ہوتے ہیں انہیں مارنا تو ویسے بھی غلط بات ہے۔”
اچھا آپ کو پتہ ہے۔ بہت خوب اس نے یوں آنکھیں پھیلائیں گویا بے حد متاثر ہوئی ہو۔ وہ اب اتنا بھی کم فہم نہیں تھا جو اس کے اکھڑے رویے کا پس منظر نہ جان پاتا وہ ماموں اور جری کو تو کچھ کہہ نہیں پائی تھی وہ ہاتھ لگ گیا تو اس پر ہی خفت جھاڑنے لگی اور اس کی خفگی قطعاًبری نہیں لگی تھی بلکہ اک خوشگوار سا احساس ہوا تھا وہ جان بوجھ کر اسے چڑا گیا۔
جی ہاں مجھے پتہ ہے۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ چھوٹے پرندوں کا شکار کرنا قانوناً اور اخلاقاً جرم ہے۔ وہی آپ کے والی بات کہ اس میں سے نکلے گاہی کیا۔ جو اتنی محنت کی جائے۔ وہی کوشش بڑے پرندے کے لئے کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ میرا تو آج کا فرسٹ ایکسپرینس تھا اینڈ بلیو می آئی رئیلی انجوائے اٹ۔ جرار بتارہا تھا مرغابی کا گوشت ب حد لذیذ ہوتا ہے۔ میں تو بے تابی سے ویٹ کررہا ہوں کب میں مزے لے لے کر کھاؤں گا۔ میں نے تو اسی انتظار میں ابھی تک کچھ کھایا نہیں میں تو چائے بھی چھوڑ آیا ہوں۔ حالانکہ آپ چائے بہت ہی اچھی بناتی ہیں۔” اس نے تو تعریف کی تھی زرتاشہ نے یوں دیکھا جیسے اس نے طنز کیا ہو پھر اس کی مٹھی میں پھڑپھڑاتے ننھے پرندے کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھادیا۔
”چائے سعیدہ خالہ بناتی ہیں اور وہ اچھی ہی بناتی ہوں گی۔ میں چائے نہیں پیتی نہ ہی مجھے بنانی آتی ہے۔ میں کچن کے کاموں سے سخت الرجک ہوں۔” اسے جھوٹ بولنے کی نہ عادت تھی نہ ضرورت۔”
”اچھا … اچھا گڈ…” وہ اس کی راست گوئی پر اتنا خوش ہوا گویا اس نے بہت اچھی اطلاع دی ہو۔ زرتا شہ کی توجہ چڑیا کے بچے کی طرف تھی۔
اُف۔ کتنے دلکش کلرز ہیں اس کے۔ کتنا معصوم سا ہے یہ دیکھتے ہی پیار آرہا ہے۔ قدرت نے بھی کیسے کیسے شاہکار بنادیئے ہیں۔ اور کیسے کیسے ظالم بھی جنہیں ذرا رحم نہیں آتا ایسی حسین تخلیقات کو بے دردی سے مارتے۔”
”یہ توبے چارے بے ضرر سے پرندے ہیں ان کے لئے کس کا کیا دل دکھے گا جبکہ آج کل تو انسانوں کا شکار عام ہے۔ واقعی دنیا ظالموں سے بھری پڑی ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔” ابتہاش نے بھرپور اتفاق و دعا کی۔ وہ بیل پر لٹکتے گھونسلوں پر غور کررہی تھی۔ آیا اب اسے کس میں رکھا جائے اول جہاں بآسانی ہاتھ پہنچے۔ وہ اس کی مشکل سمجھ گیا۔
”لاؤ مجھے دو میں رکھ دیتا ہوں۔ اس نے ہتھیلی پھیلائی۔ صاف شفاف چوڑا ہاتھ۔ پنک شرٹ کی بازو فولڈ کی ہوئی تھی۔ اس کے مدھم سے پرفیوم کی دلا ویز خوشبو تو دور سے ہی محسوس ہوئی تھی اس پل وہ انتہائی قریب کھڑا تھا۔ زرتاشہ کی سانس رکنے لگی۔ سراٹھا کر اسے دیکھا پھر فاشی سے بچہ اسے تھمادیا جسے اس نے احتیاط سے گھونسلے میں رکھ کر پوچھا ۔
”اب ٹھیک ہے۔ اب تو ثواب ملے گا ناں مجھے؟” وہ مسکر ا رہا تھا دھڑلے سے اس کی آنکھوں میں جھانکتا وہ یکدم گڑ بڑا کر نظر پھیر گئی۔ دل کی بڑھتی رفتار پر قابو پاکر کندھے اچکادیئے… کہا کچھ نہیں بلکہ کچھ کہا ہی نہ گیا۔ ہوتے ہیں کچھ لمحے ایسے جو آپ کو گنگ کردیتے ہیں۔ پورے وجود کو آنکھ بناکر ساری صلاحیتوں کو سلپ کرکے قفل لگادیتے ہیں۔ وہ بھی آنکھ سن گئی تھی وہ آنکھ جس نے سامنے لمحہ کا عکس اندر اتار کر باقی کا سارا منظر دھند لا دیا۔ وہ رخ ہی بدل گئی کچا چور تھی ناں چوری کپڑے جانے سے ڈر رہی تھی۔ ابتہاش کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی آنکھوں میں شرارت سی مچلی۔
”اندر چلیں۔ آپا بی مرغابی بنارہی تھیں چل کر کھاتے ہیں۔”
”سوری۔ آپ جاکر کھائیں مجھے ایسا کوئی شوق نہیں۔ میں گوشت نہیں کھاتی۔”
”اف لڑکی۔ تم کام کرنے میں تو سست ہو ہی کھانے کے معاملے میں بھی لاپروائی۔ چائے تم نہیں پیتیں۔ گوشت تم نہیں کھاتیں۔ ارے بھئی آخر کھاتی کیا ہو۔ اور کچھ خبر ہے گوشت نہ کھانے سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پتہ بھی ہے کیا ہوتا ہے۔” وہ ڈاکٹر تھا ساری شرارت بھلائے سنجیدگی کے ساتھ ”ڈاکٹری” پر اتر آیا وہ انگلیاں چٹخاتی مؤدبانہ سی اس کا لیکچر سن رہی تھی۔
٭…٭…٭
تسبیح کے دانے گراتی آپا بی کے ہاتھ اک لمحے کو تھمے تھے گردن کھجا کر انہوں نے صحن میں پر پھیلاتی شام کو دیکھا دوسری نظر کرسی پر دونوں پاؤں اوپر سمیٹے بیٹھی زرتاشہ پر ڈالی جس کے ایک ہاتھ میں کتاب تھی سر پر ہیڈ فون لٹکا تھا یعنی کلی طور پر مصروف اس کیانداز نشست نے انہیں سر جھٹکنے پر مجبور کردیا گویا کہہ رہی ہوں ”نہیں سدھر سکتی۔”
دوبارہ دھیان تسبیح کی طرف کیا۔ دعا کے بعد جائے نماز تہہ کرتیں تخت سے اتر آئیں۔
” زرتاشہ او زرتاشہ۔” اسے آواز دی۔
بڑھتا اندھیرا انہیں فکر میں مبتلا کررہا تھا جرار کی چھٹی ختم ہوچکی تھی۔ ابتہاش اسے چھوڑنے بس اسٹاپ تک گیا تھا۔ اڑھائی سے تین گھنٹے ہوچکے تھے۔ تاحال اس کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ پتہ نہیں کہاں رہ گیا۔ پرایا بچہ ہے یا اللہ تیری امان میں۔ ان کا گھبرایا دل اس کی خیر مانگ رہا تھا۔ ایک بار پھر اسے آواز دی ۔ جانتی تھی وہ نہیں سنے گی جس نے سماعت ہی نہیں بصارت کے آگے بھی پردہ تان رکھا تھا ایسا انہماک کس پورٹریٹ کے جیسی ساکت و جامد دنیا و مافیہا سے بے خبر انہیں بے اختیا رسجیلہ یاد آئی وہ بھی یونہی کتابوں میں گم رہا کرتی تھی ایسے ہی سارے جہاں سے بے نیاز ہوکر۔ پھر وہ تو خوب سارا پڑھ لکھ بڑی کامیاب گائناکولوجسٹ بن گئی۔ لیکن اس نے اب کیا بننا ہے بھلا کیا پڑھ رہی ہے یہ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!