آدھی آدھی رات تک کتابیں پڑھتی رہتی ہو۔ آخر کب ہونگے موئے تمہارے امتحان؟ وہ جس طرح چڑ کر بولیں تھیں وہ بے اختیار ہنس دی ۔ کھنکتی بے فکر سی ہنسی۔ بانس اٹھاتے اٹھاتے ابتہاش کا ہاتھ وہیں تھم گیا ادھر دیکھا صبح کے اجالوں میں کھلے وہ تازہ پھول سی صورت والی لڑکی آپا بی کے کاندھے پر جھولتی ہنسے جارہی تھی۔
آئے ہائے… میں نے ایسا بھی کیا لطیفہ سنادیا جو یوں لوٹ پوٹ ہوگئیں۔ اور وہ انہیں کیا بتاتی کہ اتنی کلاسیں پڑھ لیں اور نصاب کی کتاب کبھی بھی وہ رات میں پڑھ ہی نہیں سکتی تھی اور اب جو وہ رات گئے تک کتابیں پڑھتی ہے تو ان کا کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ وہ تو اوروں کے امتحان ہوتے ہیں جنہیں ہم بے حد ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔
ارے یہ ”چام چڑک” (چمگاڈر) دن کے وقت آپ کے پاس کیا کررہی ہے آپا بی۔ جرار پوچھ رہا تھا وہ جل بھن ہی گئی گھور کر اسے دیکھا جوا ب ضرور دیتی لیکن لحاظ کرگئی ان دو مسکراتی آنکھوں کا جن سے وہ خوامخواہ ہی خائف ہورہی تھی۔ خو دکو لاپرواہ ظاہر کرنے کو بولی۔ سعیدہ خالہ ناشتا ملے گا؟
کچھ خیال کرلو وہ بے چاری ابھی سارا باورچی خانہ سمیٹ کر آئی ہے اور ابھی بھی فارغ نہیں چلو اٹھو جاکر خود بنالو ناشتہ سعیدہ سے پہلے آپا بی بول اٹھیں۔ اور زرتاشہ نے یوں گھبرا کر انہیں دیکھا جیسے انہوں نے کوئی بہت ہی ناقابل یقین بات کردی ہو۔
”لو اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ بہت مشکل کام کہہ دیا میں نے۔ ارے میں کونسا کہہ رہی ہوں کہ جاکر تندور جلاؤ۔ باورچی خانے میں سلنڈر ہے اور ہیٹر بھی لگا ہے جو آسان لگے وہیں ناشتہ بنالو۔ بیٹا ماں وہ ہے جو ہل کر پانی نہیں پینے دیتی اور اس کی انہی باتوں نے تمہیں سست اور نکما کردیا ہے۔ میں نانی ہوں میری تو کوشش ہوگی کہ تمہیں کچھ نہ کچھ سکھا کر ہی بھیجوں۔ تمہاری عمر کی لڑکیاں بالیاں تو سارا سارا گھر سنبھال لیتی ہیں اور…
بالکل درست فرما رہی ہیں آپا بی۔ میرا ایک دوست ہے اس کی بہن بھی زرتاشہ کی ہم عمر ہے۔ میں جب بھی اس کے گھر چلا جاؤں شیشے کی طرح گھر چمک رہا ہوتا ہے اس کا۔ یقین کریں میں تو حیران ہوجاتا ہوں ان کے گھر کا سلیقہ دیکھ کر۔ چائے اتنی زبردست بناتی ہے وہ اور کھنا تو واللہ لاجواب۔ پورے گھر کو اس لڑکی نے اپنے ہاتھوں سے بنی چیزوں سے سجا رکھا ہے۔ ابھی چند دن پہلے میرے دوست نے بڑا بہترین کرتا پہن رکھا تھا میں نے پوچھا کس ڈیزائنر کا ہے تو کہنے لگا سسٹر نے بنایا ہے سچ میں میں تو غشی ہی کھا گیا لوگوں کی بہنیں اتنی بانسہرہیں اور ایک میں ہوں۔” آپا بی کیا کم تھیں کہ جرار بھی لقمہ دینے لگا اور اس کی برداشت یہی تک تھی۔ پاؤں پٹخ کر کڑے یتوروں سے اسے گھورتی کچن میں جا گھسی۔ آپا بی کو بھی کوئی سگھڑ بی بی یاد آگئیں وہ اس کا سلیقہ نامہ سنارہی تھیں جرار مسکرا رہا تھا اور ابتہاش نے پائنچے پر لگی مٹی جھاڑتے اس سے پوچھا۔
”ساری خوبیاں بتادیں ان موصوفہ کا نام تو بتایا نہیں تم نے؟”
کن موصوفہ کا؟ اس کا دھیان سرکنڈوں کو ٹھیک سے باندھنے کی طرف تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ارے بھی وہی جن کی اتنی مدح سرائی ہورہی تھی ابھی۔ جن کی کارکردگیاں دیکھ کر غم سے غش بھی پڑجاتے ہیں کہ میرے لئے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ کس کے گن کوئی یونہی نہیں گاتا کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں؟” وہ مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”ہائے اللہ۔ میں ایک مشرقی لڑکا ہوں مجھ سے ایسے سوال مت کرو مجھے شرم آتی ہے۔ ” جرار نے کالر کا کونا دانتوںمیں داب لیا اداکاری عروج پرتھی اسے اک دھپ لگاتے ابتہاش زور سے ہنس دیا۔ اور اندر وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتی کلس کر رہ گئی اسے لگا وہ اس پر ہنسا ہے۔ کچن کی کھڑکی سے سب منظر واضح تھا۔ بلیک ٹراؤزر کے ساتھ نیلی ٹی شرٹ پہنے عام سے حلیے میں بھی خاص دکھتا جگمگاتی آنکھوں والا وہ شخص ہنستا ہوا اور دلکش لگ رہا تھا۔ اس نے زور سے کھڑکی کا پٹ بند کیا۔
یہ آپ بی اور بھائی بھی نہ ان سے تو بعد میں نبٹوںگی۔ وہ تن فن کر تی باہر نکلی۔ فریج میں مطلوبہ اشیا ندارد تھیں۔
”سعیدہ خالہ بریڈ کہاں رکھی ہے؟”
”وہ تو ختم ہوگئی بیٹا۔ اے لو فرحت کے ابا سودا لینے گئے ہیں شہر تو بریڈ کا تو مجھے یاد ہی نہیں۔ ہاشو پتر بھی اس کے بغیر ناشتہ نہیںکرتا۔ اب کل کیا کریں گے۔ فرحت تی فرحت۔ ادھر آ۔ ذرا باپ کو فون تو کر۔ انہیں اک نئی فکر لگ گئی ۔ آٹا گوندھا رکھا ہوگا پراٹھا بنالو۔ کبھی اچھی خوراک بھی کھا لیا کرو۔ سوکھے سڑے توس کھانا لازمی تو نہی۔ ” آپا بی نے مشورہ دیا تھا۔
”نئی گندم کا آٹا ہے۔ مجھ سے نہیں بنتی اس کی روٹی۔” وہ غصے میں کہہ گئی۔
”پرانی گندم بھی ہو تو پھر بھی تم سے کون سا بن جاتی ہے روٹی۔ بس بیٹا کتابیں پڑھا کرو بس۔ کیڑا بنی رہو ان کا۔ وہی چاٹو وہی کھایا کرو۔ اس بار آئے ذرا نفیسہ طبیعت صاف کرتی ہوں اس کی بھی۔ ارے آگے کیا نوکر ساتھ بھیجے گی تمہارے۔” اف آپا بی کی باتیں شدت سے جی چاہا کہیں سر ٹکرا دے۔”
”بس ہوگیا میرا کام۔ آپ بھی کیا بچی کے پیچھے پڑ گئی ہیں آپا بی۔ چل پتر تو بیٹھ جا میں بنادیتی ہوں ناشتہ۔” سعیدہ چیزیں سمیٹی اٹھ رہی تھیں۔
چھوٹے ماموں سیڑھیاں اتر رہے تھے احزم اور گڑیا کو پکارتے … ارے بھئی شیر جوانو تم بھی جلدی سے ہاتھ دھو کر آجاؤ بہت مزے کے سینڈوچ بناکر لایا ہوں میں۔انہوں نے ٹرے آپا بی کے پاس ہی تخت پر رکھ دی۔ بہنوں نے دیکھتے ہی اعتراض جڑا لو یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے بھلا اللہ جانے کس قسم کی خوراک کھانے لگے ہو تم لوگ۔ ارے یہ تو نکمے اور سست قسم کے لوگوں کے کھاجے ہیں۔ جن سے زیادہ ہاتھ پیر نہیں ہلائے جاتے ڈبل روٹی پکڑی بیچ میں الم غلم بھرا اور بس، بھلا بتاؤ اس سے بھی پیٹ بھرتا ہے کبھی۔”
”میں پیٹ بھرنے کے لئے تھوڑی لایا ہوں وہ تو صبح سے بچوں کو کام کرتے دیکھ رہا تھا تو سوچا کچھ دیر سانس لے لیں گے۔ آجاؤ زرتاشہ بیٹا۔ کھا کر بتاؤ کیسے بنے ہیں۔ ماموںنے پلیٹ میں دو سینڈوچ رکھ کر اس کی طرف بڑھائے اور اس کے لئے تو جیسے نعمت غیر مترچنہ تھی۔ فٹ سے پلیٹ پکڑ لی وہ ساتھ جوس بھی لائے تھے وہ بھی اپنے لئے گلاس میں انڈیلا لو بھئی تمہاری تو اللہ نے سنی اور وہ کیا کھاتی ہو وہ بدمزا سی سویاں وہ تمہاری مامی بھی بڑے شوق سے ان بچوں کو بنا بنا کر کھلاتی ہے نہ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری، چولہے سے جلدی جان چھوٹ جاتی ہے بس۔ آپا بی اس سے کہہ رہی تھیں۔
اسے نوڈلز کہتے ہیں دادی جان۔ احزم سب سے پہلے ہاتھ دھو کر بھاگا آیا تھا۔
ہاں ہاں جو بھی کہتے ہیں اس کے ایک پیالے سے ہی ہماری زرتاشہ کا تو دن بھر کا کوٹہ پورا ہوجاتا ہے۔
آپا بی بس بھی کریں اب۔” وہ مسلسل ٹانٹ کررہی تھیں وہ چڑ گئی ایک اور سینڈوچ اٹھا کر پلیٹ میں رکھا بھو ک ہی بہت لگ رہی تھی۔
ہمارے لئے تو کچھ چھوڑ دیں۔ گڑیا کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھی۔ زرتاشہ نے اس کے سر پر چپت لگادی۔ واہ بھئی واہ ۔ آپ تو کمال کے ماموں جان ہیں۔” جرار تولیے سے ہاتھ پونچھتا ادھر ہی آرہا تھا۔
”اور یہ تم دونوں میں سے کمال کون ہے۔”ماموں مسکرائے تھے۔ابتہاش بھی مسکرادیاا ور گویا سارا منظر ہی اس کا ساتھ دینے لگا۔ وہ خوبرو تو تھا ہی ہنستے ہوئے کچھ زیادہ ہی بھلا لگتا زرتاشہ کو نظر چرانا پڑی۔ دل نے خواہ مخواہ ہی رفتار پکڑی تھی۔
جوس اوہ نہیں یار بہت تھکن ہوگئی ہے۔ اب تو جی چاہ رہا ہے مزیدار سی دودھ پتی کا بڑا سا مگ ہو۔ تم بھی پیوگے ناں۔ وہ ابتہاش سے پوچھ رہا تھا پھر اس کے جواب سے پہلے ہی کہنے لگا۔
”جاؤ ذری ہمارے لئے مزیدار سے دو مگ تیار کرکے لاؤ۔”
میں بھی پیوں گی۔ دو دو لیکن اس میں چاکلیٹ ہونا چاہیے۔ لگے ہاتھوں گڑیا نے بھی فرمائش کردی۔
”میرے لئے بھی۔” احزم کیوں پیچھے رہتا۔
”فرحت بی تھک گئی ہے ایک مگ اس کا بھی۔ چلو زری فٹا فٹ بنالاؤ اور ہاں مزیدار کی شرط یاد رکھنا۔ورنہ سزا کے طور پر شا م کا کھانا تم بناؤگی۔” جرار نے ڈرانا ضروری سمجھا۔
”ویسے سچ بتائیں جری بھائی یہ سزا آپ نے آپی کے لئے تجویز کی ہے یا اپنے لئے۔” احزم کچھ زیادہ ہی شرارتی ہوگیا تھا آنکھیں پٹپٹا کر بولا تو سب ہنس پڑے۔ جاتی ہوئی زرتاشہ کے قدم وہیں تھم گئے پلٹ کر ایک چپٹ اسے بھی رسید کی۔
اونہہ کیا بچوں کو مارے چلی جارہی ہو۔ بے چارا سچ ہی تو کہہ رہا ہے۔ آپا ہی نے ٹوکا بری بات ہے احزم۔ بڑی ہے وہ تم سے۔ ایسے کہتے ہیں۔ ماموں اسے گرک رہے تھے۔ وہ چلتی بھنتی کچن میں جاگھسی۔
یہ لو میں نے تمہارا ناشتہ بھی بنادیا ہے۔ آرام سے یہیں بیٹھ کر کھالو۔ میں بنادیتی ہوں دودھ پتی۔” سعیدہ خالہ نے مشکل آسان کی تھی۔ وہ سچ میں ان کی مشکور ہوئی۔ سارا غصہ ایک طرف رکھ کر وہ مزے سے کھانے لگی۔ اور دودھ پتی سعیدہ خالہ نے اس کے ہاتھ ہی باہر بھجوادی تھی۔
”بہت زبردست بھئی۔” ایک ہی سپ لے کر جرار نے تعریف کی۔ وہ ”تھینک یو” کہتی صحن کی طرف چل دی۔ ابتہاش زیر لب مسکرادیا۔ کھلی کھڑکی سے اس نے اندر کا سارا احوال دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});