اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب زندگی بہت خوبصورت تھی۔ اور زندگی تو کبھی بھی بدصورت نہیں ہوتی یہ تو ہمارے ہی محسوسات ہوتے ہیں جو اس کے حسن کا معیار قائم کرتے ہیں۔ اور حسن تو دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے اگر اس آنکھ میں سکھ کا موتی ہے تو ہر نظارہ دلکش اور اگر آنکھ میں غم کا کنکر چھب جائے تو چاروں اور گھور سیاہ بادل چھا جاتے ہیں۔
ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس کے فائنل ایگزام ہوچکے تھے۔ ابھی کچھ ٹائم تھا ہاؤس جاب شروع کرنے میں اور ان کے ا س ٹائم کو سود مند بنایا تھا سر ہارون حیات نے۔ جو پاپا کے دیرینہ دوست ہونے کے ساتھ اس کے قابل احترام استاد بھی تھے۔ ان کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا اور جو ہر سال فائنل ایگزام سے فارغ ہونے والے طلباء طالبات اور سینئرز ڈاکٹرز کا گروپ لیکر اپنے علاقے کے ایک ایک گاؤں میں فری میڈیکل کیمپ لگایا کرتے اور ان کی اس کوشش سے جہاں نو آمو ز ڈاکٹر کو نئے تجربات سے آشنائی و رہنمائی ملتی وہیں کئی بیمار و مجبور لوگوں کو زندگی کو سکون ملتا۔
پچھلی بار وہ ان کے گروپ کا فعال ممبررہا تھا۔ ان دنوں میں بہت کچھ سیکھاتھا اس نے۔ پورا ایک ماہ دن اور رات کا فرق مٹا کر ان سب نے کام کیا تھا مزے کی بات تو یہ کہ کسی کو بھی کسی بھی پل تھکن کا احساس تک نہیںہوا تھا۔ جب بیماری کے ہاتھوں تنگ آیا کوئی سکتا ہوا انسان ان کی سیمائی سے سکون پاکر بے اختیار دعا دیتا۔ تو دل سرشاریت کے انوکھے احساس سے بھر جاتا۔ روح نئے سرے سے توانا ہوکر کسی اور کی خدمت میں جت جاتی۔
آپا بی سخت خفا ہیں بہت گلہ کررہی تھیں وہ تم اتنے بزی رہے کہ ان سے ملنے بھی نہیں گئے۔ اب یوں کرو یہ دو تین دن ان کے پاس رہو ان کا دل بہل جائے گا۔ جس روز ان سب نے رفت سفر باندھنا تھا اس دن اسے مما نے آرڈر کیا اور وہ بھلا سرتابی کرتا اور پھر سرہارون حیات کے گاؤں سے صرف چند میل کا ہی تو فاصلہ تھا اس کے ننھیالی گاؤں کا اور ان کی طرف سے تو وہاں کیمپ بھی لگایا گیا تھا لیکن اس کی ڈیوٹی وہاں نہیں لگی تھی اگر ایسا ہوتا تو وہ ان سے ضرور مل لیتا۔ ان کا درائیور ہی اسے وہاں چھوڑ آیا تھا۔ حویلی کا گیٹ بھڑا ہوا تھا۔ وہ بہت مگن سا اپنے ہی دھیان میں آرہا تھا کہ دائیں طرف بانسوں کے جھنڈ تلے گھاس پر مند مارتا لمبی سی گردن والا دودھیا سفید بطخا چوکنا ہوکر کوئیک کو ئیک کرتا اس کی جانب لپکا اگر وہ فوراً پلٹ کر باہر نہ نکلتا تو کوئی خشک نہیں تھا کہ وہ بے مروت نوکیلی چونچ اور پروں سے ہی اس کی تواضع کردیتا اور گیٹ بندکرنا تو وہ ہر گز نہیں بھولا تھا اندر اس نے کھپ ڈال دی تھی اس کے ہوتے ہوئے کوئی نیا بندہ حویلی میں گھس آئے مجال تھی کسی کی جبکہ وہ تو اتنا بہ اخلاق تھا کہ اکثر گھر والے بھی نہ پہچانتا ۔ بس ایک آپا بی ہی تھیں جن سے وہ تمیز سے پیش آیا کرتا۔ لیموں کے بوٹے سے تازہ تازہ رس اور خوشبوبھرے لیموں چنتی زرتاشہ کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شاباشے۔ یہاں کھڑی دانت نکالے جاؤ کس وچارے کی شامت لے آیا ہے کم بخت۔ پتہ تو کیا ہوتا اوہ پرے ہو بے ہدا تیاچنگی مصیبت پڑگئی ہمیں کوئی غریب دروازہ بھی نہیں پار کرسکتا سارا پنڈ شکایتیں لے کر آنے لگا ہے اب تو تیری۔ بطخ کیا انڈوں پر بیٹھی تو نے جینا ہی دوبھر کردیا ہمارا۔ سارے ہی دشمن لگتے ہیں تجھے۔ اب تو نہر پر بھی نہیں جاتا وڈا آیا سیانا آپا بی اسے کھرک کر اس بے زبان کے لیتے لینے لگیں اور ان کے دبکوں اور ہاتھ میں لمبی سوئی دیکھ کر وہ گردن نیچی کئے پھر سے باستوں کی طرف مڑگیا۔
جرار بھائی ہیں آپا بی ۔ بہت ہی اچھا ہوا ان کے ساتھ۔ بڑا رعب دکھاتے ہیں ناں اپنی بہادری کا آج تو ان کا پول کھل ہی گیا۔ زرتاشہ نے اسے آتے نہیں صرف جاتے دیکھا تھا اور وہ بھی نیلی جینز میں لمبی ٹانگیں، وہ سمجھی باہر جرار ہے جو آج کسی بھی وقت آیا چاہتا تھا۔ آپا بی گیٹ کھول رہی تھیں۔
ماں صدقے میرا بچہ۔ میرا شہزادہ ۔ آگیا نانی کا خیال ۔” کمال ہی ہوگیا تنا پرتپاک استقبال وہ بھی جرار کا۔ وہ متحیر بھی ادھر آئی تھی اور سامنے ہی موجود تھی ہستی کو دیکھ کر ”ہاں” کی صورت منہ کھل گیا۔ بے اختیاری میں جو ہاتھ منہ پر دھرا تو اس میں پکڑا دوپٹے کا کونہ پھسلنے سے گول گول ہرے پیلے کتنے ہی لمحوں دورت کر لڑھکتے چلے گئے۔
اور اس کی ہنسی کی آواز تواس نے بھی سنی تھی اسی لئے تو ہنسنے والی کو تلاشا تھا اور وہ سامنے ہی تو کھڑی تھی۔ سنچیریا کی بیل کے نیچے ذرد اور سبز رنگ کے خوبصورت لباس میں اس منظر کا حصہ دکھائی دیتی۔ جھکا سر تھوڑی اور گردن ملی ہوئی۔ وہ بہت عرصے کے بعد یہاں آیا تھا اور اسے تو کہیں بچپن میں دیکھا تھا لمبی سی فراک، دو پونیاں کئے ہوئے۔ خوب کیوٹ ڈول سی۔ اور اب وہ ڈول کتنی بڑی ہوگئی تھی۔ مگر چہرے پہ معصومیت اور بھولپن وہی تھا۔ اور وہ کہہ گیا۔
افوہ آپا بی بہت ہی بدتمیز قسم کی چیزیں پال رکھی ہیں آپ نے تو۔ دیکھا اسے تھا اور کہا ان سے جو اس کی شرار ت کو سمجھی نہیں تھیں اور وہ سمجھ گئی تھی اس لئے تو سر اوپر اٹھایا تھا۔ نہایت شفاف گلابی رنگ ، تیکھے نقوش بڑی بڑی سحر طراز آنکھیں جنہیں دیکھتے ہی وہ دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا تھا۔ جبکہ وہ اگلے ہی پل پھر سر جھکا گئی تھی۔ آپا بی جو سمجھیں تھیں اس کے مطابق کہہ رہی تھیں۔
یہ کوئی اب کا نہیں ہے ہمارے ساتھ۔ اسے تو کئی سال ہوگئے۔ اللہ بخشے تمہارے نانا کا شوق تھا یہ۔ گھر میں کتا رکھتے نہیں تھے کہ رحمت کے فرشتے نہیں آتے اس کے ہونے سے۔ اسیرکھا تھا راکھی کے خیال سے۔ اور یہی تو خاصیت ہے اس نمانے کی۔ مجال ہے کہ کوئی دسے پچھے بنا اندر آجائے۔ اک پیار بھری نظر انہوں نے اس کپتے پر ڈالی تھی جو ابھی بھی گردن تانے چوکس نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ وہ سرہلاتا مسکرادیا۔
اور تم یہ کیا منہ سٹ (پھینک) کہ کھڑی ہو۔ اٹھائے سارے نمبو۔ یہ اپنی زرتاشہ ہے تمہاری خالہ نفیسہ کی بیٹی پہچانا۔ اسے گھرک کر وہ اب تعارف کروارہی تھیں۔ اور یوں تو خالہ نفیسہ سے ملے بھی عرصہ ہوگیا تھا مگر اسے اچھی طرح یاد تھا ان کا ہر انداز بے پناہ حسین سراپا اور پر غرار شخصیت اور ان کی بیٹی بھی ویسی ہی لگ رہی تھی۔وہی ہی خوبصورت ویسی ہی پرتمکنت۔
پہچان گیا ہوں آپا بی نہ پہچاننے والی تو کوئی بات ہی نہیں ہے یہ بالکل انہی کے جیسی لگ رہی ہے۔
وہ نفیسہ جیسی نہ نہ یہ تو مجھے اپنی سجیلہ جیسی لگتی ہے۔ اس کا ہر انداز بالکل اسی کے جیسا ہے۔ ویسے ہی شوق۔ ویسے ہی کام۔ ویسی ہی شرارتیں۔ تم رہوگے ناں یہان تو دیکھا اس کی حرکتیں۔ اسی کی طرح لاپرواہ اور پھوہڑ ہے یہ۔
ایں۔ ابتہاش کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔ سمجھ نہیں آئی کہ وہ مما کی تعریف کررہی ہیں یا اس کی بدتعریفی۔ اور ادھر وہ سراٹھائے مسکرا رہی تھی۔ تم سناؤ ماں کیسی ہے تمہاری۔ باپ ٹھیک ہے؟ وہ اپنے تخت کی طرف بڑھ گئیں تھیں اسے بھی ان کی تقلید میں قدم بڑھانے پڑے۔ زرتاشہ لیمن سمیٹ رہی تھی اور ادھر اس بدمزاج بطخے کو اپناغصہ اتارنے کے لئے وہی آسان ٹارگٹ نظر آئی تھی۔ وہ گردن نکالے آرہا تھا اس نے مارے بدحواسی کے پھر سے لیمن پھینک کر چیخ مار دی۔
ابتہاش ایک پل کی غفلت کئے بغیر تخت کے ساتھ رکھی سوئی لے کر اٹھا تھا۔
اور بے ہدایتا، تیراککھ نہ رہے۔ گھر والوں کو تو بخش دیا کر ۔ آپا بی چلائیں تھیں۔ اور کچھ اس ہتھیار کی دہشت کچھ ان کی آواز۔ وہ اپنے بڑے بڑے پر پھیلائے کوئیک کوئیک کرتا واپسی کی راہ ہولیا۔
”آنکھیں کھول لو چلا گیا ہے وہ۔” وہ کبوتر کی طرح زور سے پلکیں پیچھے کھڑی تھی۔ گلابی چہرہ دیک کر سرخ ہورہا تھا اتنی شرمندگی ہوئی تھی کہ اف۔
اب میں ہوں؟ وہ پوچھ رہا تھا اور اس نے اجازت تو دی نہیں تھی وہ پھر بھی نہیں رہا تھا۔
٭…٭…٭
جرار کے آتے ہی آپا بی نے اس کے ذمے کام لگایا تھا کہ باغ میں گھاس کے ایک مخصوص خطے پر بانسوں کی باڑھ لگادی جائے تاکہ ان کے عزیز جان یادگاری بطخے نے آجکل جو پورے علاقے میں شر پھیلا رکھا ہے اس کی روک تھام کی جاسکے۔
کبھی حویلی میں بھی خوش رونق ہوا کرتی تھی پھر نانا جی نہ رہے اور ان کے بعد بڑے ماموں اپنے حصے کی زمینیں بیچ باچ کر پوری فیملی سمیت ملائیشیا شفٹ ہوگئے ۔ برسوں بعد آئے چھوٹے ماموں کو اپنی نوکری سے فرصت نہ تھی۔ گھر آتے تو بیوی اور بچوں کی سوفرمائشیں ایسے میں آپا بی کی الجھنیں یونہی الجھی رہ جاتیں۔ اب جب سے جرار ادھر آنے لگا تھا تو سمجھو سکون ہوگیا تھا انہیں۔ کوئی نہ کوئی بگڑا کام سنور جاتا۔
اب وہ سب کو ساتھ لگائے صبح سے مصروف تھا پہلے تو نہر کنارے لگے بانس اور سرکنڈے کاٹ کر لائے گئے تھے اب انہیں مناسب ٹکڑوں میں کاٹ کر توڑنے کاعمل جاری تھا۔
جرار نہایت شاقی سے مٹی میں کھڈائی کرکے گڈھا نکالتا ابتہاش بانس کا ایک سرا دباتا فرحت خوب ٹھونک ٹھونک کر دوبارہ سے مٹی پر کردیتی۔ چھٹی کا دن تھا ماموںکے احزم اور گڑیا بھی نیچے بھاگ آئے اور ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ بانسوں کے بعد ان پر سرکنڈوں کو ترتیب سے جوڑنا تھا تاکہ وہ دہشت گرد کہیں سے جگہ پاکر کھلے صحن میں نکل نہ سکے۔
سعیدہ لہسن پیاز کاٹتیں دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کرچکی تھیں۔ آپا بی اپنے تخت پر جلوہ افروز وہیں سے ان کے کام کا جائزہ لے رہی تھیں اور جہاں کہیں ضرورت سمجھتیں مشورے سے بھی نواز دیتیں۔
السلام علیکم ایوری ون کانس رنگ کے ایمبرائڈ ڈ سوٹ میں نکھری ستھری زرتاشہ کمرے سے نکلی تھی۔
ماشاء اللہ خیر سے صبح ہوگئی میری شہزادی کی۔ آپا بی نے دیکھا تو پیار سے شکر کیا طنز وہ ڈھٹائی سے مسکراتی پاس آبیٹھی۔
دن چڑھے تک بستر توڑتے رہنا کوئی اچھی عادت نہیں ہے لڑکی تم بھی بگڑتی جارہی ہو۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!