ایک معمولی آدمی کی محبت
محمدجمیل اختر
وہ ایک ادھوری زندگی گزار رہا تھا ، بعض لوگ ساری عمر زندہ رہنے کے باوجود مکمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ مکمل زندگی بہت کم لوگوں کونصیب ہوتی ہے ۔
اُس کے باپ نورزمان نے دوشادیاں کررکھی تھیں۔ دونوں بیویاں سارا دن آپس میں لڑتی رہتیں ۔ نورزمان جب گھر آتا اور بیویوں کو لڑتے دیکھتا تو وہ بھی اس میدانِ جنگ میں کود پڑتا، کسی کے حصے میںاُس کا بھاری ہاتھ آتا تو کسی کے حصے میں اُس کا بھاری جوتا۔ دونوں بیویاںایک دوسرے کوکوسنے دیتے ہوئے اپنے اپنے بچوں کوسمیٹتی ہوئی اپنے کمروں جا کر دبک جاتیں۔ جن بچوںکی وجہ سے عموماً لڑائی ہوتی تھی، نورزمان انہیں بھی مارنا اپنا فرض سمجھتا تھا اُسے اپنے باپ سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اُسے لگتا کہ اُس کے باپ کو اُس سے ذرا بھی محبت نہیں، ورنہ وہ اتنی بے دردی سے انہیں کبھی نہ مارتا۔ ایسے پرتشدد ماحول میں کسی کا حساس دل کے ساتھ پیدا ہوجانا ناقابلِ تلافی جرم ہے۔ جس کی سزا تمام عُمر بھگتنا پڑتی ہے۔
دانش بھی یہ سزا بھگت رہا تھا۔ اندر ہی اندر اُس کی یہ خواہش تھی کہ کوئی اُس سے بھی محبت کرے، کوئی کہے کہ دانش تم کتنے اچھے ہو کتنے لیکن اُسے تو کبھی کسی نے محبت سے نہیں پکارا تھا ۔ وہ گاوں کی نہر کے کنارے بیٹھ کر اکثر سوچتا رہتا تھا کہ کاش وہ کوئی پرندہ ہوتا پرندے ایک ساتھ اڑتے ہیں، ایک ساتھ دانہ چگتے ہیں تو پرندوں کو یقینا آپس میں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت ہوتی ہوگی، تبھی تو وہ ایک ساتھ ایک قطار میں اڑتے ہیں۔ کاش! وہ ایک پرندہ ہوتا، اِس تنہائی کا احساس اُس کے اندر دن بہ دن شدید تر ہوتا جارہا تھا۔
اپنے باپ کی مار سے بچنے کے لیے اُس نے کتابوں میں پناہ لے لی۔ وہ دن رات پڑھتا رہتا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پڑھائی میں بہت تیز ہوگیا۔ ایف اے کرنے کے بعد وہ محکمہ ¿ ڈاک لاہورمیں جونیئر کلرک بھرتی ہوگیا اور اُس نے گاﺅں کو خیرآباد کہہ دیا۔لاہور میں اُس نے ایک کرائے کا مکان لے لیا جس کی اوپری منزل پر اُس کا مالک مکان منصور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔
ایک عمر تک وہ اس خواہش میں مارا مارا پھرتا رہا کہ اُس سے کسی کو محبت ہوجائے اورکوئی پاگلوں کی طرح دیونہ وار اُس سے محبت کرے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہت سی آنکھوں میں اُس نے اِس امید سے جھانکا کہ شاید اِن میں اُس کاعکس ہولیکن ایسا کبھی ہوا نہیں۔ وہ ایک معمولی آدمی تھا، ایک معمولی جونیئر کلرک جوپورا دن فائلوں کے بوجھ تلے دبا رہتا، سارا دن ٹھک ٹھک ٹھک ٹائپنگ کرکے افسر کے آگے کاغذات لے کر جاتا ہوا معمولی سا آدمی ، جس کا لکھا ہوا کاغذ صاحب ایک بار دیکھتے اور نخوت سے اس کی طرف اچھالتے ہوئے کہتے:“
”یہ ٹھیک نہیں ہے تم اس میں ایسے یہ تبدیلی کرو۔“اور جب وہ یوں کر کے بھی لے آتا تھا تو پھر صاحب کہتے:
” میں نے تو یوں نہیں کہا تھا، تمہارے پاس الفاظ کا ذخیرہ کم ہے، اپنی Vocabulary بڑھاﺅ،تھوڑی محنت کرو اور اِس درخواست کو پھر سے لکھو ۔“
وہ پھر چلا جاتا۔ ڈکشنری سے نئے نئے الفاظ چن کرٹھک ٹھک ٹھک کرتا نئے سرے سے درخواست ٹائپ کرتا، لیکن اکثر ہی جب وہ درخواست پھر سے ٹائپ کرکے لاتا تو صاحب کا گھر جانے کا وقت ہوجاتا۔شام کو وہ ٹینس کھیلتے تھے سو جلدی گھر چلے جاتے کیوں کہ وہ صاحب تھے، لیکن ایک جونیئر کلرک ان سے سوال نہیں کرسکتاتھا، اور جاتے ہوئے صاحب اُس سے یہ ضرور کہتے کہ سارا دن تم سے ایک صفحہ نہیں لکھا جاتا، اگر اِسی طرح کام چوری کرتے رہے تو تمہارا کچھ کرنا پڑے گا۔وہ چوں کہ معمولی آدمی تھا لہٰذا معذرت ہی کرتا رہ جاتا کہ آئندہ وہ کوشش کرے گا کہ کام بہتر طریقے سے کرسکے اور یہ اُس کا روز کا معمول تھا ۔
ایسے میں دفتر کا کوئی ساتھی جب اپنی محبت کا کوئی قصہ سناتا تو اُسے لگتا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ایسا بھلا کیسے ممکن ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی اُس سے بھی محبت کرتا۔
اُس کے کمرے میں ہرطرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ وہ اب ناولز پڑھ پڑھ کر اکتا گیا تھا۔ اُسے یہ سب کہانیاں جھوٹ لگنے لگی تھیں، ایسے ہی جیسے اُسے اپنے ساتھی اہل کاروں کی باتیں جھوٹ لگتی تھیں۔ نہ اُس سے کسی کو محبت ہوئی تھی اور نہ ایسے جذبات اُس کے اندر کسی کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ اب وہ صرف فلسفے کی کتابیں پڑھتا تھا۔
اپنے مالک مکان منصور صاحب سے اُس کی معمولی سلام دعا تھی لیکن پھر ایک ایسا واقعہ ہوا کہ یہ منصور صاحب کے گھر کا فرد ہی سمجھا جانے لگا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک شام یہ دفتر سے گھر آ رہا تھا۔ ابھی وہ گلی کی نکڑ پر ہی تھا کہ اُس نے دیکھا کہ اُس کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم ہے۔ وہ پریشانی میں دوڑتا ہوا وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ منصور صاحب کا چھ سالہ اکلوتا بیٹا گلی میں کھیل رہا تھا کہ کوئی موٹر بائیک والا ٹکر مار کر اسے بھاگ گیا ہے۔ بچے کی ٹانگ سے خون بہہ رہا تھااور منصور صاحب اپنی دکان سے ابھی گھر پر نہیں آئے تھے۔ وہ بھاگ کرٹیکسی پکڑ لایا اور بچے کو ہسپتال پہنچایا ، او نیگیٹو خون کی ضرورت پڑی تو وہ بھی اس نے دے دیا کہ اُس کا بلڈ گروپ یہی تھا۔ قصہ ¿ مختصر کہ جب منصور صاحب ہسپتال پہنچے تو بچے کی حالت سنبھل چکی تھی۔ منصور صاحب کو بھابھی ثانیہ نے جب دانش صاحب کی رحم دلی کے بارے بتایا تو انہوں اٹھ کر دانش کو گلے سے لگایا کہ بھائی میں تمہارا یہ احسان عمر بھر نہیں اتار سکتا، آج سے تم میرے بھائی جیسے ہو۔ اُس دن کے بعد جب وہ شام کو گھر آتا تو ثانیہ بھابی بچوں کے ہاتھ ان کے لیے کھانا بھیج دیتیں ، کبھی کبھار منصور صاحب ہاتھ پکڑ کر لے جاتے کہ آئیں جناب! ایک کپ چائے ساتھ میں پیتے ہیں۔ اب اُس کی تنہائی کچھ کم ہوئی تھی لیکن رات کو کوئی شاعری کی کتاب پڑھتے ہوئے جب وہ کوئی شعر گنگناتاتو تنہائی کا احساس شدید ہوجاتا اور اُسے محسوس ہوتا کہ وہ گاوں میں نہر کنارے بیٹھا ہے اور پرندوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہے کہ کاش وہ بھی کوئی پرندہ ہوتا ۔آخر اُس سے کوئی کب محبت کرے گا؟
ایک شام جب وہ دفتر کی ٹھک ٹھک سے اکتا کر گھر واپس آیا تو اوپر سے منصور بھائی کہ آواز آئی:
” بھائی اوپر آئیے! چائے بھی پیجئے اور کچھ مہمانوں سے مل بھی لیجیے ،انہیں بھی آپ کی طرح کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے “
جب وہ اوپر گیا تو معلوم ہوا کہ ثانیہ بھابھی کی چھوٹی بہن بہاول پورسے یہاں چھٹیاں گزارنے آئی ہوئی ہیں۔