ایک بہتر کہانی کو بہترین بنائیں: ان٧ طریقوں سے
آپ کے اور آپ کے پڑھنے والوں کے درمیان جو واحد چیز حائل ہے وہ رسائل ، اخبارات اور ناشرین کے مدیر ہیں۔ کتابی دنیا کے یہ پاسبان (چند ایک مواقع کو چھوڑ کر)ایک بہترین کہانی کو پہلی نظر میں جانچ لینے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ کی کہانی اُس پہلی نظر میں ان محافظوں کو متاثر نہ کر سکے تو آپ کے سفر کی جدوجہد کچھ اور لمبی ہو جاتی ہے۔
تو پھر ایسا کیا کِیا جا سکتا ہے کہ مدیر آپ کی کہانی کے بس چند ابتدائی صفحے پڑھیں اور اش اش کر اٹھیں۔طریقہ بہت سادہ ہے۔ ہر مدیر کہانی کا دلدادہ ہوتا ہے۔ آپ بس انہیں ایک ایسی کہانی پڑھنے کے لیے دیں جسے مکمل پڑھے بغیر وہ رہ نہ پائیں۔
اس سادہ طریقے کو ہم نے سات حصوں میں تقسیم کیا ہے تا کہ اسے بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ اس طریقے کی آسانی یہ ہے کہ آپ اسے کسی بھی طرح کی کہانی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں خواہ وہ رومانوی ہو، ادبی ہویا سائنس فکشن کے بارے میں ہو۔
-1اپنی پانچ حسیات سے باہر نکل کر سوچیں:ـ
لکھنے والے زیادہ تر پڑھنے والوں کی سماعت اور بصارت کو سنسنی خیزی سے متاثر کرتے ہیں۔ جبکہ مدیر اور ایجنٹس پانچوں حسیات کے استعمال کو پسند کرتے ہیں، لیکن وہ چاہتے اس سے زیادہ ہیں۔ وہ آپ کی میں گہرائی دیکھنا چاہتے ہیں، نہ صرف سطحی طور پر، بلکہ کردار میں ڈھل کر۔
یہاں اس نسخے کی چابی ہے، اچھا لکھاری اپنی تحاریر میں جسمانی حرکات کا استعمال کرتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میں نے آج تک کسی مدیر یا ایجنٹ کو ان حرکات پر تبصرہ کرتے نہیں دیکھا۔ اور اس کی وجہ مجھے یہ لگتی ہے کہ ان کا استعمال اتنا ملائم ہوتا ہے کہ وہ نوٹس میں ہی نہیں آپاتیں۔ یہ چیز آپ کی تحریر کو عمدگی بخشتی ہے۔ اگریہ چیز چھوٹ جائے، تو آپ کی افسانہ نگاری محض الفاظ کے، کچھ نہیں۔
ہمیشہ جسمانی حرکات سے فکشن شروع کریں۔ آپ اس میں دو بنیادی چیزیں پائیں گے۔ بے چینی اور چھپی ہوئی خواہشات ۔۔۔اس پر غور کریں۔
-2 انفرادی مزاج پر لکھیں:ـ
لوگ عقل کا مظاہرہ محض مخصوص اوقات میں کرتے ہیں۔ باقی اوقات انسان حماقت کا مظاہرہ ہی کر رہا ہوتا ہے، جس کی وہ وضاحت نہیں دے سکتا۔
دیگر افراد کی طرح مدیر اور ایجنٹس بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ قارئین کسی بھی غیریقینی چیز کو ماننے میں کسی قسم کی حیل و محبت کا مظاہرہ کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لکھاری، کرداروں کو ہر وقت دلائل پر دکھائے تو افسانہ نگاری مشکل ہو جائے۔
مثال کے طور پر، محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کی دلیلوں کو ختم کردیتا ہے۔ اسی طرح قارئین متوجہ ہوتے ہیں جب آپ کسی کردار کو غصہ میں دکھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر، کوئی کردار انتہائی غصے میں کوئی بہت خطرناک فیصلہ کر بیٹھے، تو قارئین کی توجہ اچانک اس جانب مبذول ہو جائے گی۔
کرداروں کے اس انسانی نفسیات کو اپنے افسانے میں شامل کرنے کے لیے، آپ کو نفسیات کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف ان نفسیات کو سمجھنے کی حس ہونا ضروری ہے۔ اب کرداروں کی خصوصیات پر سوچ و بچار کریں۔ اس طرح آپ کے افسانے کے کردار خودبخود متاثر کن ہوتے جائیں گے۔
-3 خوبصورت ہونے کے بارے میں بھول جائیں:ـ
مدیر اور ایجنٹس، محض نمود و نمائش کے لیے کرداروں پر پابندیاں لگانے کو پسند نہیں کرتے۔ کچھ سال پہلے Creative Writing کی ایک کلاس میں کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر پڑھنے والوں کی حساسیت کا خیال نہ رکھنا ہو، تو آپ کیا لکھیں گے؟
اس سوال کے پیچھے کی مضبوط میچورٹی نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ کتنا کچھ ہے جو ہم نہیں لکھ پاتے یا نہیں لکھنا چاہتے کیوں کہ ہمیں قارئین کی طرف سے تنقید یا رد کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔
لیکن راز کی بات یہ ہے کہ تاریخ میں وہی ادیب جگہ بنا پاتا ہے جو اپنی تحریر اور اپنی کہانی کے ساتھ سچا ہوتا ہے۔ قارئین کو ہر سچ اور ہر کہانی خوبصورت کاغذ میں لپیٹ کر نہیں دی جا سکتی۔
اکثر لوگ اندھیرے سے گھبراتے ہیں، لیکن ایک اچھے مصنف کے طور پر، آپ کو لوگوں کو اندھیرے میں جانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ محض اپنی لفاظی سے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ اپنے بچپن میں واپس جائیں، جب آپ کو صحیح غلط کی تمیز نہیں تھی، یا برائی سے بچنے کی صلاحیت بہت طاقتور نہیں تھی۔ تب سے اب تک کا سفر آپ کو بتا دے گا کہ یہ صلاحیت آپ میں کہاں سے اور کیسے پیدا ہوئی۔ بس اسی طرح اپنے قاری کو مختلف موضوعات پڑھنے کیلئے تیار کرنا، ایک اچھے لکھاری کی مثال ہے۔
-4اپنی عقل کے ساتھ سچے رہیں:ـ
کئی بڑے بک سیلرز کے کیے گئے سرویز کے مطابق جو لوگ کتابیں خریدتے ہیں وہ عام طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیںیا کم سے کم کالج کی ڈگری ضرور رکھتے ہیں۔ہمارے لیے یہ بات بالکل حیرت انگیز نہیں تھی کہ ہمارے قاری پڑھے لکھے لوگ تھے اور ان کی آمدنی بھی انہیں کتابیں خریدنے کی اجازت دیتی تھی۔
لہٰذا، اپنے قارئین کی ذہنی صلاحیتوں کو معمولی مت سمجھیں۔ اگر آپ وہ لکھ رہے ہیں جو آپ اچھا لکھ سکتے ہیں، تو قارئین کو وہ پسند آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ سب سے پہلے اپنا ذخیرہ ء الفاظ وسیع کریں، اگر ایک لفظ تحریر میں میں حسن پیدا کررہا ہے تو بلاوجہ اس کے مترادفات استعمال نہ کریں۔ مزید یہ کہ کسی بھی بات کی غیرضروری وضاحت میں نہ جلائیں۔ اس طرح آپ کی تحریر، اپنا حسن کھودے گی۔
-5اپنی سب سے عمدہ پیش کش، بوقت ضرورت ہی استعمال کریں:ـ
مدیر اور ایجنٹس حضرات کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ آپ کی تحریر کے بارے میں چند الفاظ پڑھ کر ہی وہ اس کی حیثیت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔اکثر کہانیوں میں کچھ ایسے واقعات یا کردار شامل ہوتے ہیں جن کا کہانی کے پلاٹ سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا، اور وہ لکھاری نے صرف اس لیے شامل کیے ہوتے ہیں کیونکہ عام طور پر وہ واقعات ان کے ساتھ حقیقت میں پیش آئے ہوتے ہیں اور ا ن واقعات نے لکھاریوں پر گہرا اثر چھوڑا ہوتا ہے۔ لحاظہٰ اگر آ پ صرف ان وجوہات کی وجہ سے وہ کردار یا واقعات کہانی میں شامل کر رہے ہیں جب کہ اصل میں ان کی وجہ سے کہانی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی تو بہتر ہے کہ انہیں کہانی سے نکال دیں۔
دوسری جانب، ان واقعات یا کرداروں کو کہانی کے اہم آلہ کاروں کی طرح استعمال کریں، جن کی وجہ سے کہانی کا مرکزی کردار اپنی منزل تک پہنچنے کے سفر میں کسی اہم لیکن وقتی ناکامی یا کامیابی سے دوچار ہوتا یا ہوتی ہے۔
-6قارئین کو خوش رکھنے کی کوشش کریں:ـ
مدیر اور ایجنٹس زیادہ ان تحریروں کو پسند کرتے ہیں جن کو پڑھ کر قارئین کے چہرے پر خوشی نمودار ہو، وہ مسکرائے اور یہ کرنے کے لیے آپ کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، ہلکے پھلے ہنسی مذاق سے آپ کی تحریر بے مثال ہوسکتی ہے۔
ہم کسی بھی ایسی بات پر ہنستے ہیں جوکہ ہم نے کبھی اپنے دماغ میں سوچی ہوں اور ورہ دوسروں کو پتا نہ ہوں، ہم تب ہنستے ہیں جب ہم وہ دیکھتے ہیں جو دوسرے نہیں دیکھتے۔ یا ہم تب ہنستے ہیں جب ہمیں کوئی خوشگوار سرپرائز ملے۔ تو ان ہی چیزوں کو ملا کر آپ اپنے قارئین کو ہنسا سکتے ہیں۔
-7قارئین کو غم زدہ کرنے کی کوشش کریں:ـ
کچھ کتابیں پڑھتے ہوئے لوگ ہنستے ہیں جبکہ کچھ کتابیں پڑھتے ہوئے لوگ روتے ہیں۔ لیکن جب ایک ہی کتاب پڑھتے ہوئے قاری ہنستا اور روتا ہے، تو وہ کتاب ہمیشہ اسے یاد رہتی ہے۔
لوگ کیوں روتے ہیں؟ یہاں رلانے سے مراد کسی ایسی بات پر دلانا نہیں کہ کسی کا پالتو جانور مر گیا اور قاری رونے لگے۔ بلکہ قاری کے جذبات اور احساسات کو کچھ اس طرح چھیڑیں کہ کہانی میں بتایا جانے والا غم اسے اپنا لگے۔ مدیر اور ایجنٹس بھی ایسی کہانیاں پسند کرتے ہیں جن کو بڑھ کر پڑھنے والا اسے اپنی زندگی سے متعلق سمجھنے لگے۔ لہٰذا ہنسانے کے ساتھ ساتھ قارئین کو رلانا بھی ضروری ہے۔
٭…٭…٭