اُلّو اور پینگوئن
رمیز احمد
کسی برفانی پہاڑ پر پینگوئن کا ایک جوڑا رہتا تھا۔ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ بچے برف کے اوپر کھیلتے اور خوب مزے کرتے۔ ایک دن وہاں ایک برفانی اُلّو آگیا۔ اُلّو نے بچوں کو اکیلے دیکھا تو اُسے شرارت سُوجھی۔
اُلّو نے اپنے خوب صورت پَر دیکھے اور بچوں سے بولا: ”دیکھو بچو! میں کتنا طاقت ور اور مضبوط ہوں۔ میرے تو پَر ہیں مگر تمہارے نہیں!” اِس کے بعد اُلّو نے اپنے پَر پھڑ پھڑائے اور فضا میں ایک چکر کاٹ کر واپس آگیا۔
”دیکھا بچو! میں نے اُڑان کا جی بھر کر لطف اُٹھایا۔ تم تو اُڑ ہی نہیں سکتے۔” اُلّو کی بات سن کر بچے اُداس ہوگئے۔ انہیں اُداس اور پریشان دیکھ کر اُلّو دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ اِس کے بعد اُلّو نے بچوں کو ڈرانا شروع کردیا۔
”بچو! دیکھو تم اکیلے ہو۔ کسی بھی وقت برفانی ریچھ آکر تمہیں کھا جائے گا۔ میں تو اُڑ کر جان بچالوں گا۔ ہاہاہا۔” یہ سن کر بچے اور بھی پریشان ہوگئے اور رونے لگے۔ کچھ دیر میں اُن کے امّی ابّو آگئے۔ انہوں نے بچوں کو روتے دیکھا تو ساری بات سمجھ گئے۔ ابّو پینگوئن نے اُلّو کو غصے سے دیکھا اور بچوں سے بولا: ”بیٹا! تم لوگ پریشان مت ہو۔ آؤ میرے ساتھ!” یہ کہہ کر وہ سب ندی میں کُودے اور دو تین غوطے لگا کر باہر نکل آئے۔ ابّو پینگوئن نے سینہ تان کر اُلّو سے کہا: ”تم اتنے ہی بہادر ہو تو اِس طرح غوطہ لگا کر دکھاؤ۔” یہ بات سن کر اُلّو نے ندی میں غوطہ لگایا لیکن وہ تیر نہ سکا۔ وہ ڈوبنے ہی والا تھا کہ ابّو پینگوئن نے اُس کی مدد کی اور اسے پانی سے باہر نکالا۔ الّو کے سب پَر بھیگ چکے تھے۔
ابّو پینگوئن نے مُسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور کہا:
”کیوں بھئی اُلّو میاں! آیا مزا؟ دیکھو! ہر چیز کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ آئندہ تم میرے بچوں کو تنگ مت کرنا۔” یہ سُن کر اُلّو شرمندہ ہوگیا اور پاس کھڑے بچے مسکرانے لگے۔
٭…٭…٭