حسن نے کہا: ’’اللہ کارساز ہے، بہت بندہ نواز ہے۔ یقیناًکوئی ایسا شخص بھیجے گا جو صاحبِ حسن و جمال ہو، صاحبِ متاع و مال ہو، کردار کی شرافت سے مالا مال ہو۔‘‘
زلیخا ہنسی اور بولی: ’’تم نے تو شاعری شروع کر دی۔ یہ جتنی خوبیاں تم نے گنوائی ہیں، ان سب سے مالا مال شخص مجھے بیاہنے کیوں آئے گا؟ سنا نہیں کیا کہتے ہیں لوگ میرے بارے میں؟‘‘
حسن نے کہا: ’’کون لوگ؟ وہ دو من کی دھوبنیں کس منہ سے تمہیں شکل و صورت کے طعنے دیتی تھیں؟ اور وہ مرد، مرد نہیں بندر تھا، اسے دیکھ کر میں حیران و ششدر تھا۔‘‘
زلیخا ہنسنے لگی ۔ ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں رکھا اور بولی: ’’بنے بھائی اور ماما تو اس بندر کے ساتھ میری شادی کرنے کو تیار تھے۔‘‘
حسن نے کہا: ’’اگر تمہیں پسند ہو تو بندر چھوڑ لنگور بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تمہیں پسند نہ ہو تو شہزادہ گلفام بھی ہو تو کوئی فائدہ نہیں۔ نکاح مانندِ رفاقت ہو بہو ہونا چاہیے۔ میاں بیوی کی درمیان آئیلو یُو لُو ہونا چاہیے۔‘‘
پکوڑازلیخا کے حلق میں پھنس گیا۔ آنکھیں پھاڑ کر بولی: ’’کیا ہونا چاہیے؟‘‘
حسن اس کی لاعلمی پر مسکرایا اور بڑے پن سے بولا: ’’آئیلو یُو لُو یعنی پیار محبت۔‘‘
زلیخا ہنسنے لگی۔ ہنستے ہنستے حسن کو دیکھنے لگی اور بولی: ’’مجھے نہیں پتا تھا تم اتنے فنی ہو۔ ویسے میں کچھ دن سے دیکھ رہی ہوں تم بہت بدل گئے ہو۔ پہلے ہر وقت دوستوں کے ساتھ باہر آوارہ گردی کرتے تھے۔ اب گھر رہتے ہو۔ اچھی بات ہے، دادی اماں کے پاس بیٹھتے ہو، ان سے باتیں کرتے ہو۔ وہ خوش ہیں تم سے۔ لیکن سچ سچ بتاؤ یہ تمہیں ہوا کیا ہے؟ پہلے جمعے کے جمعے نہاتے تھے، اب روز نہاتے ہو۔ پہلے ہر وقت وہ میلی جینز چڑھا کر گھومتے تھے اب اتنے دنوں سے شلوار کُرتے کے علاوہ تمہیں کچھ اور پہنے نہیں دیکھا۔ اور تو اور نماز بھی پڑھنے لگے ہو۔ یہ چکر کیا ہے؟ اتنا بدل کیسے گئے ہو تم؟‘‘
حسن بدرالدین نے ایک آہِ سرد بہ دل پُردرد بھری اور کہا: ’’میں نہیں بدلا، میرا زمانہ بدل گیا ہے۔ میرا باپ زمانِ پاستانِ میں سوداگر تھا۔ ایک ساحرہ نے بہ زور سحر۔۔۔‘‘
زلیخا نے ہاتھ جوڑے اور بات کاٹ کر بولی: ’’اوہ فار گاڈ سیک یہ ڈرامہ نہ مجھے دکھایا کرو۔‘‘
یہ کہہ کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ حسن اداس و ملول وہیں کھڑا رہ گیا۔
اگلے دن حسن سو کر اٹھا اور برآمدے میں نانی کے تخت پر آبیٹھا۔ اتنے میں پھاٹک پر دستک ہوئی۔ حسن نے اردگرد دیکھا اور کنیز کو کہیں نہ پایا کہ دروازہ کھولتی۔ ناچار اٹھا اور پھاٹک کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک حسینہ جواں سالہ، آفت کا پرکالہ سامنے کھڑی ہے۔ مکھڑا جیسے چودھویں کا چاند، وہ ناز وہ انداز وہ پھبن کہ زاہدِ صدسالہ بھی دیکھے تو زہد سے منہ موڑے، رشتہ تقویٰ کو توڑے۔ ایسی حسینہ پری رو حسن بدرالدین نے تو کیا چشم فلک نے بھی کبھی نہ دیکھی ہو گی۔ بچہ حور تھی بلکہ رشکِ حور دور ازقصور تھی۔ زلفِ سیاہ چلیپا تابہ کمر، ضیائے رخسار رشکِ مہر، پتلی کمر ہزاروں بل کھاتی تھی۔ ہر ادائے جانفشاں پر اٹھلاتی تھی۔ اس زنکۂ نوخیز کو حسن نے دیکھا تو تیرِ عشق جگر کے پار ہوا، مرغِ دل شہبازِ عشق کا شکار ہوا۔ خستہ جگر، دلفگار، صیدِ زنجیر ادبار، جنونِ شورش انگیز روبرو ہو گیا۔یعنی حسن بدرالدین کو آئیلویُولُو ہو گیا۔
(باقی آئندہ)
*۔۔۔*۔۔۔*