خاتون بولی: ’’اور شادی کے سارے فنکشن بھی دھوم دھام سے ہونے چاہئیں۔ مایوں بھی کریں گے، مہندی بھی، شادی تو کسی فارم ہاؤس میں ہونی چاہیے اور ہاں ہمیشہ رشتہ داروں کے گھروں میں شادیوں پر ان کے سمدھیانے سے مجھے جوڑے ملے ہیں۔ تو میں آپ کو ساری خالہ ممانیوں، پھوپھیوں وغیرہ اور ان کے شوہروں کی لسٹ دے دوں گی۔ آپ کو انہیں جوڑے دینا ہوں گے اور قیمتی جوڑے ہونے چاہئیں یہ یاد رہے۔ اگر یہ سب منظور ہے تو بات آگے چلاتے ہیں۔‘‘
حسن بدرالدین نے جو یہ سب باتیں عورت کی زبانی سنیں تو خون جوش زن ہوا۔ طیش آیا، صبر کی تاب نہ لایا۔ لیکن خود کو سمجھایا کہ عقل کو کام میں لاؤ اور ٹھنڈی کر کے کھاؤ۔
یہ سوچ کر عورت سے کہا: ’’آپ ہمارے مہمان ہیں۔ آپ کے لیے جان تک نثا رہے۔ مال بھلا کیا چیز ہے، حضور آپ کی خوشی ہمیں جان سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ کی ہر بات پر قول و قرار کرتے ہیں، ہر شرط پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں مگر پہلے یہ تو فرمایے کہ پد ربزگوار کب فوت ہوئے تھے؟ صاحبزادے کیونکر یتیم ہوئے تھے؟‘‘
عورت بھونچکا رہ گئی۔ گڑبڑا کر بولی: ’’کیا مطلب؟ اللہ کے فضل سے میرے شوہر زندہ ہیں۔‘‘
حسن نے کہا: ’’حیرت ہے، مانگنا اور ہاتھ پھیلانا تو صرف یتیم و مسکین کے لیے جائز ہے ۔اچھا، یتیم نہیں تو پھر مسکین تو ضرور ہوں گے۔ غربت و بے کسی سے چُور ہوں گے؟‘‘
عورت نے تیوری چڑھائی، بگڑ کر بولی: ’’یہ کیا بکواس ہے؟ کھاتے پیتے لوگ ہیں ہم۔ میرا بیٹا انجینئر ہے۔‘‘
’’اخاہ‘‘ حسن بے ساختہ پکار اٹھا۔ ’’پھر تو مسکین ہی ہوا۔ معاف کیجئے گا ہمیں اپنی لڑکی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کرنی جس کی تنخواہ دو کلو چلغوزوں کی قیمت سے بھی کم ہو۔‘‘
زلیخا بے اختیار ہنسنے لگی۔ نانی جان نے بھی مسکراہٹ چھپائی۔ مہمان عورتوں نے طیش کے عالم تشریف اٹھائی اور غصے سے بڑبڑاتی اپنے لڑکے کا بازو پکڑ کر باہر نکل گئیں۔ ممانی نے خشمگیں نظروں سے حسن کو دیکھا اور مہمانوں کے پیچھے لپکی۔
منے بھائی نے دانت پیس کر حسن سے کہا: ’’تجھ سے تو میں آ کے پوچھتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی باہر نکل گیا۔
ان کے جانے کے بعد زلیخا تالیاں بجا کر ہنسنے لگی۔ نانی جان بھی مسکرائیں پھر افسردگی سے بولیں: ’’خوفِ خدا تو اٹھ گیا ہے دنیا سے۔ کیسے منہ بھر کے جہیز مانگتے ہیں لوگ۔ شرم بھی نہیں آتی۔‘‘
حسن نے کہا: ’’اس طرزِ عمل پر مجھے بہت استعجاب ہے۔ ان کی بے غیرتی لاجواب ہے۔‘‘
زلیخا ہنس کر بولی: ’’لاجواب کام تو تم نے کیا ہے۔ مزے سے پوچھ لیا صاحبزادے یتیم کیونکر ہوئے تھے۔‘‘
نانی جان آہ بھر کر بولی: ’’کیا کریں بیٹا۔ دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘
اتنے میں ممانی اور بنے بھائی اندر آئے، آتے ہی حسن پر تلملائے۔
ممانی نے چیخ کر کہا: ’’بدذات جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے۔ خدا خدا کر کے کوئی رشتہ آیا تھا اس کمبخت نے بھگا دیا۔‘‘
بنے بھائی نے طیش سے کہا: ’’میں تو کہتا ہوں نکال باہر کریں اس کو۔ اس کے ہوتے کوئی خوشی کا کام نہیں ہو سکتا اس گھر میں۔‘‘
نانی جان ناراضی سے بولیں: ’’تم کون ہوتے ہو میرے بچے کو نکالنے والے؟‘‘
ممانی چلائی۔ ’’اور زلیخا آپ کی کچھ نہیں لگتی؟ اس کے رشتے کے لیے آئے لوگوں سے بدتمیزی کی اس نے، انہیں ناراض کر دیا اور آپ پھر بھی اس کی طرف داری کر رہی ہیں؟‘‘
نانی جان نے ملول ہو کر کہا: ’’ڈھنگ کے لوگ ہوتے تو مجھے افسوس نہ ہوتا، منہ بھر کے جہیز مانگ رہے تھے۔ لڑکی دینی ہے کوئی تاوان تو نہیں بھرنا ہمیں۔‘‘
بنے بھائی نے بدتمیزی سے کہا: ’’سنا نہیں کیا کہہ رہی تھی وہ؟ آپ کی بیٹی سادہ شکل کی ہے اور موٹی بھی۔ اسی لیے تو اس کے لیے کوئی رشتہ نہیں آتا اور میں کوشش کر کے اگر کسی کو لے بھی آیا ہوں تو اس ذلیل انسان نے کام خراب کر دیا۔ میں کر لیتا معاملات طے، ان کے مطالبوں کو نیچے لے آتا، لیکن مجھے کوئی بڑا سمجھے تب نا۔‘‘
حسن سے رہا نہ گیا، بولا: ’’جو مرد اپنے زورِ بازو سے نہ کمائے اور بیوی کا مال کھائے اس مرد کا کردار خراب ہے اور ایسے مرد کی صحبت بڑا عذاب ہے۔ ایسے شوہر سے تو زلیخا بے شوہر کی بھلی۔‘‘
یہ تقریر سن کر بنے بھائی طیش میں آئے، ذرا تابِ صبر نہ لائے۔ بگڑ کر حسن کی طرف لپکے اور مارنے کو ہاتھ اٹھایا، حسن گھبرایا۔ اسی وقت زلیخا تیر کی سی تیزی سے آگے بڑھی اور بنے بھائی کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑ لیا۔ بنے بھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سختی سے بولی: ’’ہاتھ مت اٹھایے بنے بھائی۔‘‘
بنے بھائی نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا اور ناراض ہو کر بولے: ’’بجائے اس کے کہ تم احسان مند ہو، الٹا میرے منہ کو آرہی ہو؟ شکل دیکھی ہے اپنی؟ میں کوشش نہ کروں تو کوئی چُوڑا چمار بھی تمہیں نہ پوچھے۔‘‘
زلیخا نے اعتماد سے سراٹھایا اور بولی: ’’میں اپنے باپ کے گھر بیٹھی ہوں۔ آپ پر بوجھ نہیں ہوں۔ وہ بھلے مجھے کسی چمار کے ساتھ رخصت کریں۔ آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
بنے بھائی نے غصے سے ممانی کی طرف دیکھا اور ہونہہ کر کے پیر پٹختے باہر چلے گئے۔ ممانی نے خشمگیں نظروں سے زلیخا اور حسن کو گھورا اور بنے بھائی کے پیچھے چلی گئی۔
نانی جان نے آہ بھری اور کہا: ’’اللہ مالک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی باہر کو سدھاریں۔
زلیخا مڑی تو حسن نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ملال تھا مگر حسن سے نظر ملی تو مسکرائی اور ہاتھ جھاڑ کر بولی: ’’چلو چھٹی ہوئی۔ خیر اچھا ہی ہوا۔ میں تو پہلے ہی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘