حسن بول اٹھا: ’’اصراف کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔ فضول خرچی کے سبب لوگ جمع پونجی سے ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں۔‘‘
مہمان خواتین میں سے جو ذرا جوان تھی، ناک چڑھا کر بولی: ’’لڑکے والوں کی خاطرداری تو ہر کوئی کرتا ہے، اس میں اصراف کی کیا بات ہے؟‘‘
ممانی نے کچکچا کر حسن کو دیکھا اور خوشامدانہ انداز میں خاتون سے کہا: ’’بالکل بالکل۔ آپ ہمارے گھر آئے ہیں، ہماری بہت عزت افزائی ہے۔ اگلی مرتبہ آپ کو کھانے پر بلائیں گے۔‘‘
بڑی عمر کی خاتون بے نیازی سے بولی: ’’اس کی نوبت تو تب آئے گی جب معاملات طے ہو جائیں گے۔‘‘
نانی جان سادگی سے بولی: ’’ہاں ہاں اللہ خیر کا وقت لائے۔ اللہ کو منظور ہوا تو رشتہ طے ہو جائے گا۔‘‘
خاتون نے منہ میں کباب رکھا اور کہا: ’’اللہ کو تو جب منظور ہو گا، تب ہو گا۔ پہلے ہمیں تو منظور ہو۔‘‘ سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
خاتون نے اپنی بات کا یہ اثر دیکھا تو خوش ہوئی اور بولی: ’’دیکھیں میں کرتی ہوں صاف بات۔ میرا بیٹا لاکھوں میں ایک ہے۔ بڑے بڑے وزیر سفیر ہتھیلی پر رکھ کر بیٹیاں دینے کو تیار ہیں لیکن میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ لوگ شریف ہوں اور لڑکی گھر بسانے والی ہو۔‘‘
نانی خوش ہو کر بولیں: ’’پھر تو آپ بالکل صحیح گھر آئی ہیں۔‘‘
خاتون نے تمسخر سے کہا: ’’گھر؟ اسے آپ گھر کہتی ہیں؟ ہم نے جب سنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن میں گھر ہے تو ہم تو سمجھے تھے بڑا شاندار گھر ہو گا۔ یہ تو نرا کھنڈر ہے۔ بڑی خستہ حالت میں رکھا ہوا ہے آپ نے اپنا گھر۔‘‘
زلیخا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ نانی کے چہرے پر بھی ناگواری چھا گئی۔ بولیں: ’’خیر کھنڈر تو نہیں ہے۔ ہاں پرانا ضرور ہے۔ اللہ بخشے میرے مرحوم شوہر نے بنوایا تھا۔ اب سفید پوشی میں سادہ رہائش ہی رکھی جا سکتی ہے۔‘‘
خاتون ناک چڑھا کر بولی: ’’بیٹی کی شادی کے لیے بھی کچھ ہے یا وہاں بھی سفیدپوشی سے ہی کام چلے گا؟‘‘
منے بھائی نے فوراً کہا: ’’زلیخا کی شادی تو ہم بڑی دھوم دھام سے کریں گے۔‘‘
خاتون نے سموسہ منہ میں رکھا اور بولی: ’’دیکھیں میں کرتی ہوں صاف بات۔ چاہے کسی کو اچھی لگے یا بُری۔ بیٹی آپ کی سادہ شکل کی ہے۔ پھر موٹی بھی ہے۔ اس کے لیے اچھا رشتہ ملنا بڑے نصیب کی بات ہو گی۔ لیکن مجھے پھر بھی قبول ہے اگر آپ میرے بیٹے کی قدر کریں۔ برادری شریکے کا منہ بھی تو بند کرنا ہوتا ہے نا۔ لوگ پوچھیں گے ہیرے جیسا بیٹا کہاں بیاہ دیا تو میں کم از کم اتنا کہنے جوگی تو ہوں کہ بھئی سسرال نے گاڑی دی ہے۔ فریج، ٹی وی، پورے گھر کا فرنیچر، برتن، کپڑے، یہ ساری چیزیں تو آپ اپنی بیٹی کو دیں گے، وہی استعمال کرے گی۔ ہمیں تو بس اتنا فائدہ ہو گا کہ لوگوں میں ذراعزت بن جائے گی کہ کنگلوں کی بیٹی بیاہ کر نہیں لائے، عزت دار لوگوں میں رشتہ کیا ہے۔‘‘
حسن نے دیکھا کہ زلیخا کا چہرہ سرخ ہو چکا ہے اور وہ پلکیں جھپکے بنا یک ٹک مہمان خاتون کو دیکھ رہی ہے۔ نانی جان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔ بنے بھائی اور ممانی بھی پریشان صورت بنائے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔