الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

چند دن اسی طرح گزرے پھر حسن کو معلوم ہوا کہ اب کالج میں چھٹیاں ہیں تاکہ لڑکے امتحان کی تیاری کریں اور امتحان پاس کر کے اساتذہ و والدین کو مغرور و مسرور کریں۔ حسن گھر بیٹھ رہا، گھر میں بھی اس نے وہی وطیرہ اختیار کیا کہ خلوت و جلوت میں خاموش رہتا تھا، خود فراموش رہتا تھا۔ سحر کے تماشے دیکھتا تھا، چپکے چپکے اپنے غم سہتا تھا۔ سر دھنتا تھا، تنکے چنتا تھا۔ پھر ایک دن ایک بات ایسی ہو گئی کہ حسن کا قفل خاموشی ٹوٹ گیا۔
اس دن حسن عصر کی نماز پڑھ کر باہر نکلا تو دیکھا برآمدے میں نانی کے پاس زلیخا بیٹھی تھی۔ حسن نے دیکھا کہ زلیخا کے چہرے سے عیاں دل کا حال ہے۔ بشرے پر بہت ملال ہے۔ حسن پاس جا بیٹھا اور پوچھا، کیا بات ہے؟ خیر باشدپریشان کیوں ہو؟‘‘
نانی بولی: ’’حسن بیٹا تو ہی سمجھا بہن کو ۔آج اس کے رشتے کے لیے کچھ لوگ آرہے ہیں۔ یہ کہتی ہے شادی نہیں کروں گی۔‘‘
زلیخا تڑپ کر بولی۔ ’’کیوں مجھے دھکا دینے پر تلے ہیں آپ لوگ؟ ابھی میں صرف انیس سال کی ہوں۔‘‘
نانی بولی: ’’لو اور سنو۔ یہی تو عمر ہے شادی ہے۔ بیس سے اوپر لڑکی گئی اور شادی نہ ہوئی تو گھر بیٹھی بوڑھی ہو جائے گی۔ میں تیری عمر کی تھی تو میرے دو بچے تھے۔‘‘
زلیخا نے کہا: ’’وہ زمانہ اور تھا۔ تب آپ لوگوں میں ویمن ایجوکیشن کا رواج نہیں تھا۔ میرا تو ابھی بیچلرز بھی پورا نہیں ہوا۔ پڑھائی تو مکمل کرنے دیں۔‘‘
نانی نے ٹھنڈا سانس بھرا او ربولی: ’’تو ڈاکٹر بن رہی ہوتی تو اور بات تھی بیٹی۔ اب تیرے ماں باپ تیرے فرض سے فارغ ہونا چاہتے ہیں۔ زاہد کی دکان کا حال تو تجھے معلوم ہے۔ تو اپنے گھر کی ہو تو اس کا ایک بوجھ تو اترے۔‘‘
زلیخا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن آواز بھرا گئی۔ خاموش ہو کر سر جھکا لیا۔ 
حسن سے رہا نہ گیا۔ نانی سے بولا: ’’نانی جان اللہ کی رحمت کو بوجھ سے تشبیہ دیتی ہیں۔ یہ گناہ کیوں گردن پر لیتی ہیں؟ اگر زلیخا کا نکاح کرنا منظور ہے تو اس کی رضامندی ضرور ہے۔ تین مرتبہ دل سے قبول ہے کہے گی تو رشتہ استوار ہو گا ورنہ سب بے کار ہو گا۔ اس کو مایوسی و ناکامی ہو گی۔ آپ کی بدنامی ہو گی۔‘‘
زلیخا نے یہ سنا تو چونک کر حسن کو دیکھا۔ لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ آئی۔ کچھ کہنے کو تھی کہ پھاٹک کھلا اور بنے بھائی ہاتھوں میں کچھ لفافے اٹھائے اندر آئے۔ نانی کو سلام کیا، خشمگیں نظروں سے حسن کو دیکھا اور گھر کے اندر چلے گئے۔
حسن نے گھبرا کر پوچھا: ’’بنے بھائی کیا کرنے آئے ہیں؟‘‘
زلیخا نے تلخی سے کہا: ’’یہی تو لا رہے ہیں میرے لیے رشتہ۔ سب سے زیادہ تو انہی کو جلدی ہے میری شادی کی۔‘‘
حسن ڈرا اور بولا: ’’یہ ضرور مجھے پیٹیں گے۔ میں کہیں چلا جاتا ہوں۔‘‘
نانی ناراض ہو کر بولی: ’’خبردار جو تو کہیں گیا۔ اس کی کیا مجال جو تجھے ہاتھ بھی لگائے ۔تو بھی زلیخا کا بھائی ہے۔ تو ضرور ملے گا مہمانوں سے۔‘‘
مرتا کیا نہ کرتا، مہمان آئے تو نانی کے حکم کے مبوجب حسن کو ان کے پاس بیٹھنا پڑا۔ مہمانوں میں دو عورتیں خوب پلی ہوئی، فربہ بدن اور ایک منحنی سا نوجوان شامل تھے۔ نخرے سے بیٹھے تھے اور ناک چڑھا کر اِدھر اُدھر دیکھتے تھے۔ اس کے باوجود بنے بھائی اور ممانی ان کے آگے بچھے جاتے تھے۔ زلیخا چائے لائی اور دادی کے برابر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ سنجیدہ تھا، دل رنجیدہ تھا۔ دونوں مہمان عورتوں نے گھور گھور کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف سے اس منحنی نوجوان نے کن اکھیوں سے زلیخا کو دیکھنے کا شغل جاری کیا۔ زلیخا نے پہلو بدلا۔ اس کی نظر حسن کی نظر سے ٹکرائی، حسن کو اس کی آنکھوں میں بے بسی نظر آئی۔
بنے بھائی نے اٹھ کر مہمانوں کو چیزیں پیش کرنا شروع کیں۔ ’’یہ سموسے لیجئے، ارے یہ چاٹ تو آپ نے لی ہی نہیں۔ کھائیے نا آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘
ممانی شیریں لہجے میں بولی: ’’اور یہ کباب تو ضرور لیجئے، زلیخا نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں۔‘‘
حسن حیران ہو ااور بول اٹھا: ’’کباب ہاتھوں سے ہی بنائے جاتے ہیں، کوئی پیروں سے تو بنانے سے رہا۔‘‘
بنے بھائی نے دانت پیس کر حسن کو دیکھا، ممانی نے آنکھیں نکال کر گھورا۔ حسن سہم کر چپ ہو رہا۔
مہمان خواتین میں سے جو بڑی عمر کی تھی ا، س نے کھانے پینے کی چیزوں سے اپنی طشتری بھر لی اور نخوت سے بولی: ’’ہمیں تو بڑی شرم آتی ہے لڑکی والوں کے گھر سے کھاتے پیتے۔ آپ نے تو خیر چار چیزوں پر ٹرخا دیا ہے، لوگ تو بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ پوری میز بھر دیتے ہیں۔‘‘

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۶

Read Next

شریکِ حیات أ قسط ۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!