حسن پریشان ہوا۔ پوچھا: یہ لوگ سیدھا سیدھا نائی اور حلوائی کیوں نہیں لکھتے؟‘‘
اتنے میں ایک تختے پر نظر پڑی۔ اس پر ایک تصویر تھی جو آپ اپنی ہی نظیر تھی یعنی بہت ہی دلچسپ و دلپذیر تھی۔ ایک حسینہ رنگین ادا، دلربا ، فرطِ بے تکلفی و مستی سے محورقص تھی۔ ہر عضو بدن سانچے کا ڈھلا تھا، ہونٹوں پہ لالی، گالوں پہ غازہ ملا تھا۔ حسن یہ تصویر دیکھ کر ازبس خوش و مسرور ہوا۔ سب کلفت و رنج دور ہوا۔ غور سے تصویر دیکھی تو اس کے نیچے لکھا تھا۔ ’’آئی لو یو۔‘‘
حسن نے پوچھا: ’’یہ رشکِ پری شانِ دلبری کون ہے؟ اور یہ اس کی تصویر کے نیچے آئیلویُولُو کیا لکھا ہے؟‘‘
منے نے پریشان ہو کر غور سے تصویر کو دیکھا، پھر ہنسنے لگا اور بولا: ’’آئیلویُولُو نہیں آئی لَو یو یعنی مجھے تم سے پیار ہے۔ فلم کا پوسٹر ہے حسن بھائی۔‘‘
یہ سن کر حسن بے حد خوش ہوا اور بولا: ’’ایسی حسینہ پری رخسار کا اظہار عشق پایا، غنچہ دل کھلکھلایا زندگانی و جوانی کا سامان ہوا، اظہارِ محبت آسان ہوا۔ معشوق چاند صورت پری رُو ہو، زبان پہ آئیلو یُولُو ہو تو آرزوئے دلی برآئے، شاخِ امید بار لائے۔‘‘
ابھی حسن آئیلو یُولُو کے سرور میں تھا کہ منا رکا اور ایک دکان کی طرف اشارہ کر کے بولا: ’’یہاں جانا ہے۔ اب یہ بھی بتا دوں یہاں کیا لکھا ہے؟ ماڈل سپر سٹور اینڈ مارٹ۔ یعنی مثالی بڑی سی دکان جہاں سودا ملتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر قہقہے لگا کر ہنسنے لگا۔
اس دن حسن کو معلوم ہوا کہ خریدوفروخت کے لیے چاندی، سونے کے سکے یا کوڑیاں یا ٹکے استعمال نہیں ہوتے۔ بس کاغذ کے ٹکڑے دے کر سامان لیا جاتا ہے اور عوض میں دکاندار بھی کاغذ ہی پکڑاتا ہے اور یہ کہ پانچ سو روپے کے عوض ایک درجن انڈے اور چند چھوٹے چھوٹے نان ایک گٹھے میں بندھے ہوئے جسے یہ لوگ ڈبل روٹی کہتے تھے اور چائے کی پتی، بس یہ چیزیں آتی ہیں۔ یہ دیکھ کر حسن کو سخت استعجاب ہوا اور دل میں سوچا، یا اللعجب یہ کیا بوالعجبی ہے؟ ہم پانچ سو روپے میں ریشم کے بیس تھان، عطر کے کنٹر، درِ بے بہا اور موتی خرید لیتے تھے اور یہاں پانچ سو روپے میں صرف درجن انڈے؟ عقل عاری ہے، سب قیامت کی تیاری ہے۔
غرض کہ حسن بدرالدین وہاں رہتا رہا اور زمانے کے انقلاب دیکھتا رہا۔ زلیخا کے ساتھ کالج جاتا تھا، نعیم کے ساتھ واپس آتا تھا۔ کالج میں سر جھکائے، زبان کو قفل لگائے ، چلا جاتا تھا جہاں تقدیر لے جائے۔ لوگ کلاس میں جاتے تھے، یہ بھی جاتا تھا، کیفے جاتے تھے، یہ بھی پہنچ جاتا تھا۔ نیچی نظروں سے حسینہ جمیلہ لڑکیوں کو دیکھتا تھا اور آہیں بھرتا تھا۔ اپنے پہلے دن کی ہر حرکت یاد آتی تھی، عرف انفعال سے پیشانی تر ہو جاتی تھی اسے معلوم ہوا کہ وہ مردِ علم و فضل جسے پہلے دن اس نے دیوپلید کہا تھا، وہاں استاد تھا۔ حسن نے جا کر اس سے معافی مانگی اور کہا: ’’میں بہت شرمسار ہوں، گو کہ سوداگر بچۂ والا تبار ہوں۔ غلطی ہوئی کہ اس دن دھما چوکڑی مچائی اور بھنگ و چرس ، کہ مطلق حرام ہے، چڑھائی۔ آپ مجھے معاف کر دیجئے کہ آپ وضیع و شریف اور اہلِ علم و عبادت گزار ہیں۔ مانند میرے پر ربزگوار ہیں۔ میں جان چکا ہوں کہ مرد مانِ اوباش اور رندانِ بدکردار سے راہ و رسم رکھنا شرافت کے خلاف ہے۔ یہ سب اخوان الشیاطین ہیں لیکن ہم تو پابند وصنع و تابع شریعت دین متین ہیں۔ اب صرف ان لوگوں میں اٹھوں بیٹھوں گا جو ذی علم و صاحبِ مذاق ہوں، شرافت و اہلیت میں، شہرہ آفاق ہوں۔ بظاہر اس صحبت میں اور اہل بزم کے مراسم اتحاد و ارتباط میں کچھ عیب نہیں، اور یوں تو انسان عالم الغیب نہیں۔‘‘
اس تقریر دلپذیر کے بعد حسن بدرالدین نے استاد معظم کے ہاتھ چومے اور اسے کھلے منہ اور پھٹی پھٹی آنکھوں سمیت وہیں کھڑا چھوڑ کر چلا آیا۔
وہ چار قلندر درویش جن کی صحبتِ رندانہ سے پہلے حسن محظوظ ہوا تھا، باری باری اس کے پاس آئے اور دعوتِ چشمہ سار و سبزہ زار و لطفِ بہاردی لیکن حسن نے انکار کیا، فوراً وہاں سے فرار کیا۔ گو دل تو چاہتا تھا کہ یاروں میں بیٹھ کر غم غلط کرے لیکن پھر باپ کی آواز کانوں میں آئی کہ جانِ پدر ازبرائے خدا اب اس پرانے ڈھرے کو چھوڑو اور ان دوستوں سے ناطہ نہ جوڑو۔ یہ خیال آیا، حسن کا دل بھر آیا، فوراً وہاں سے بھاگ آیا۔