منے کو دیکھ کر حسن کو سہارا ہوا۔ کہنے لگا: ’’ممانی نے انڈے لانے کو بھیجا ہے مگر پیسے تو دیے ہی نہیں۔‘‘
منے نے حیران ہو کر کہا۔’’کیا بات کر رہے ہیں حسن بھائی؟ ماما نے میرے سامنے آپ کو پانچ سو روپے دیے ہیں۔‘‘
یہ سن کر حسن چکرایا، بے حد گھبرایا۔ بولا: ’پانچ سو روپے؟ اتنی بڑی رقم؟ انڈے خریدنے ہیں، جاگیر تو نہیں۔ اتنی رقم جیب میں ڈالو تو جیب پھٹ جائے اور میری جیب میں تو فقط یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے جو چلتے وقت ممانی نے دیا ہے۔ نہ جانے رسید ہے یا تعویذ کہ جس کے عوض انڈے لانے کو بھیجا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حسن نے کاغذ جیب سے نکال کر منے کو دکھایا۔
منا ہنسنے لگا اور بولا ’’بڑے فنی ہیں آپ حسن بھائی۔ پانچ سو کا نوٹ تعویذ۔ ہاہاہاہا۔‘‘
حسن نے سوچا، ان لوگوں سے بات کرنا بے کار ہے، عقل سے ان کو خار ہے۔ بات کچھ کرو، جواب کچھ دیتے ہیں، ہندی کی چندی نکالتے ہیں۔ بہتر ہے کہ یہ تعویذ اسی کو دوں اور دیکھوں یہ کیا کرتا ہے۔ یہ سوچ کر حسن نے ممانی کا دیا ہوا کاغذ کا ٹکڑا نکال کر منے کو پکڑایا اور کہا: ’’یہ رکھو اور جو خریدنا ہے خود خریدو۔ اس کاغذ کا راز میں نہیں جانتا۔ کچھ غلط ہو گیا تو پھر نہ پچھتانا، کلمہ شکایت زبان پر نہ لانا۔‘‘ منے نے حیران ہو کر اس سے کاغذ لے لیا۔ حسن چاروں طرف دیکھتا تھا کہ یہ رونق و سطوت و سامان کہاں سے آیا ہے، کس شہنشاہِ عالم پناہ نے اس قدر اسباب بہم پہنچایا ہے؟ اس نے منے سے پوچھا۔
’’یہ تو بتاؤ آج کل بادشاہ کون ہے؟ کوئی سلطانِ عالیشان ہے یا خلیفہ مسلمان ہے؟‘‘
منا ہنسا اور بولا: ’’بادشاہ تو پانامہ کیس میں گیا۔ اب تو الیکشن کی تیاری کریں آپ۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں آپ نے اس دفعہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینا ہے اور جلسے میں بھی لے کے جانا ہے مجھے۔‘‘
حسن نے آہِ سرد کھینچی اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک دکان پر نظر پڑی۔ دکان کے ماتھے پر جلی حروف میں لکھا تھا۔ ’’شیری ہیئر کٹنگ اینڈ سیلون فارمین۔‘‘
حسن حیران ہوا۔ منے سے پوچھا: ’’یہ کیا جگہ ہے؟ اور یہ کیا لکھا ہے؟‘‘
منے نے جواب دیا: ’’نائی کی دکان ہے۔ ہمیشہ یہیں سے تو بال کٹواتے ہیں آپ۔‘‘
حسن نے آنکھیں سکیڑ کر غور سے دیکھا اور کہا: ’’یہ کون سی زبان ہے؟ لکھی تو اُردو ہوئی ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘
منا بولا: ’’اچھا اب سمجھا۔ ٹیسٹ لے رہے ہیں میرا۔ زلیخا آپی نے پیچھے لگایا ہے نا آپ کو میرے؟ ٹھیک ہے میں انگلش میں فیل ہو گیا تھا مگر ایسی بھی بات نہیں کہ سائن بورڈ ہی نہ سمجھ سکوں۔‘‘
حسن نے پوچھا: ’’اور وہ سامنے کیا لکھا ہے۔ شہاب سویٹس اینڈ بیکرز؟‘‘
منے نے کہا: ’’مطلب یہاں مٹھائیاں اور کیک ملتے ہیں۔