نانی بولی۔ ’’ہاں، یہی تو میں پوچھتی ہوں کہ وہ ہوتا کون ہے ہمارے گھر کے معاملوں میں دخل دینے والا۔ بس بیٹا۔ تیری ممانی کا بیٹا ہے، وہ اسے ہمارے سر پر بٹھائے رکھتی ہے۔ کسی کا کیا گلہ کروں، میرا اپنا بیٹا کمزور ہے۔ بیوی سے ڈرتا ہے۔ دبنگ ہوتا تو صاف صاف کہتا بیوی سے کہ یہ ہر روز کے تماشے بند کرو۔‘‘
حسن نے پوچھا ۔’’وہ ممانی کے پہلے شوہر سے ہیں؟‘‘
نانی نے آہِ سرد بھری، بہ دل پر درد بھری اور کہا۔ ’’ہاں بیٹا زبان کی تیز تھی، شوہر نے طلاق دے کے نکال باہر کیا۔ میری بہن اس کے غم میں بیمار ہوگئی۔ اس کے بھائی بھابھی اس کے اور اس کے بچے کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ میں نے خدا ترسی کی اور اپنے بیٹے کے لئے اس کا رشتہ لے لیا۔ میرا زاہد اتنا نیک، اتنا شریف کہ چپ چاپ مطلقہ سے نکاح کرلیا۔ مگر اس نے اِس قربانی کی قدر نہ کی۔ زندگی عذاب ہی بنائے رکھی سب کی۔ چلو مجھے اور زاہد کو تو چھوڑو، یہ تو اپنی بیٹی کے ساتھ وہ سلوک کرتی ہے کہ رو پڑتی ہے بے چاری ۔‘‘
حسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون ؟زلیخا؟‘‘
نانی نے کہا۔ ’’اور کون؟ دس سال اس بچی نے دن رات محنت کی ڈاکٹر بننے کے لئے۔ ایف ایس سی میں پوزیشن لی۔ بے چاری انٹری ٹیسٹ میں رہ گئی صرف تین نمبروں سے۔ دن رات روتی تھی میری بچی۔ لیکن ماں نے ذرا ہمدردی نہ کی۔ الٹا طعنے دے دے کر دل توڑ دیا غریب کا۔ اب اس نے سائیکالوجی میں ایڈمیشن لیا تو ہے لیکن دل مرگیا ہے بے چاری کا۔‘‘
حسن نے پوچھا ۔’’اور مُنّا؟ وہ کیا کرتا ہے؟‘‘
دادی پیار سے بولی۔ ’’بڑا پیار ا ہے مُنّا۔ معصوم بھولا بھالا، بالکل باپ پہ گیا ہے۔ میرے زاہد پہ۔ بس ذرا نالائق ہے۔ ساتویں میں فیل ہوگیا۔ سچ پوچھوتو یہ بھی بنّے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آتا ہے اور مُنّے کو ساتھ لے جاتا ہے۔ خود تو ٹک کے کوئی کام کرتا نہیں ۔ آئے دن نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔ ہمارے مُنّے کو بگاڑرہا ہے۔ کبھی فلم دکھانے لے جاتا ہے۔ کبھی تھیٹر۔ کسی کی مجال نہیں کہ روکے۔ اس کی ماں لڑنے آجاتی ہے۔‘‘
اتنی بات کہہ کر نانی کو کچھ خیال آیا۔ پیار سے حسن کے سرپر ہاتھ پھیر کربولی۔ ’’کیا بات ہے ،آج بڑی باتیں کررہا ہے نانی سے ؟ ورنہ تو تجھے پڑھائی سے فرصت نہیں ملتی۔‘‘
حسن نے کہا۔’’اصل بات یہ ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھتی ہیں ۔میرا باپ زمانِ پاستان میں سوداگر تھا۔۔۔‘‘
نانی بات کاٹ کر بولی۔ ’’ہاں ہاں، بڑا شریف آدمی تھا بدر الدین مرحوم۔ دکان پہ بڑی جان مارتا تھا۔ جو کمایا دکان پر ہی لگایا۔ گھر بنانے کی مہلت ہی نہیں ملی بے چارے کو۔ زاہد کو بھی دکان اس نے سیٹ کرکے دی تھی۔ اسی لئے تو دونوں کی ساتھ ساتھ دکانیں ہیں شادمان مارکیٹ میں۔ لیکن سچی بات ہے، زاہد اتنا ہوشیار نہیں جتنا تمہارا باپ تھا۔ اُس کی دکان خوب چلتی تھی، زاہد بے چارے کو تو بس اللہ ہی کا آسرا ہے۔‘‘
حسن نے گڑ گڑا کر کہا۔ ’’نانی جان۔۔۔‘‘
نانی پیار سے بولی۔ ’’صدقے جائے نانی۔ آج تو جلدی گھر آگیا ہے، تجھے گاجر کا حلوہ کھلاتی ہوں۔‘‘
حسن نے کہا۔’’میری بات سنیئے۔ میں زمانِ پاستان سے آیا ہوں۔ میرے باپ کو بزورِ سحر بکرا بنایا گیا تھا، خاک میں تڑپایا گیا تھا اور مجھے وقت کی گردش میں۔۔۔‘‘
اچانک کمرے میں روشنی جل اٹھی۔ نانی خوش ہوکر بولی۔ ’’آگئی بجلی۔ شکر ہے آگئی ورنہ میرا ڈرامہ نکل جانا تھا۔ کدھر گیا ریموٹ؟ ذرا اٹھ حسن دیکھوں تیرے نیچے تو نہیں پڑا؟ ہاں یہ رہا۔‘‘ نانی نے ایک کالے رنگ کا پتلا سا ڈبہ اٹھایا، اس کا کوئی کل پرزہ دبایا اور دم کے دم میں کمرے میں چنگ و رباب کی آواز یں گونجنے لگیں۔ حسن گھبرایا، اچھل کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے نظر گئی تو جادو کا عجیب کرشمہ نظر آیا۔ سامنے ایک سنگِ سیاہ کے ڈبے میں ایک چوکھٹ سی بنی تھی۔ چوکھٹ کے پار ایک باغ اور اس کے درودیوار ایسے روشن گویا کندن کے زنگار، اور عین بیچوں بیچ روش پر ایک شہزادی محوِرقص۔ اس تماشائے عجیب و غریب کو دیکھ کر حسن بدر الدین اس قدر خوفزدہ ہوا کہ بدن کارونگٹا رونگٹا کھڑا ہوگیا۔ مگر بسم اللہ پڑھ کر دل کو ڈھارس دی اور نانی سے پوچھا۔ ’’نانی جان یہ کیا اسرار ہے؟ یہ خوبرو، گلبدن، حسینہ پرفن کون ہے؟ اسے اس چوکھٹے میں کس عفریتِ پلید نے قید کیا ہے؟ اور اس اسیری کے عالم میں یہ کیوں ناچتی گاتی ہے؟‘‘
نانی ہنسی، لاڈ سے ایک چپت حسن کے بازو پر لگائی اور بولی۔ ’’نانی سے مخول کرتاہے۔ بھلا مجھے پتا نہیں کہ تجھے کتنی پسند ہے دپیکا پڈوکون؟ اس کی تصویر دیکھی تھی میں نے تیری کتاب میں۔ وہی جو تو نے رسالے سے کاٹ کے رکھی تھی۔ فکر نہ میرے چاند، تیرے لئے ایسی ہی حسین دلہن لاؤں گی۔ بس کپڑے پورے پہنتی ہو ہاں۔ ابھی سے بتارہی ہوں۔‘‘
نانی کی اس تقریر کا کچھ سر پیر سمجھ نہ آیا، حسن بدر الدین مزید دُبدھا میں آیا۔ بے قراری سے اٹھا اور اس سنگِ سیاہ کی چوکھٹ کے قریب آیا جس میں وہ پری، بدصد اندازِ دلبری موروں کا سا سفید لباس پہنے ناچتی تھی اور گاتی تھی۔ ’’موہے رنگ دو لال۔‘‘ حسن نے چوکھٹ میں ہاتھ ڈال کر اسے چھونے کی کوشش کی۔ مگر سامنے شیشے کی دیوار تھی، سمجھ نہ آیا کہ اندر تھی یا آرپارتھی۔ حسن نے چوکھٹ کے پیچھے جھانکا تو وہاں کچھ نہ پایا۔ نہ باغ نہ کندن کے درودیوار نہ ہی وہ حسینہ رقص بار۔ یہ تماشہ دیکھ کر حسن بدر الدین اس قدر گھبرایا کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ یہ کیا بحرِ کمالات تھا۔ یہ کیسی دنیا تھی جو دید تھی نہ شنیہ تھی، ہر طرح قابلِ دید تھی؟ یا اللعجب یہ کیا بوالعجبی تھی؟
اسی پریشانی میں حسن وہاں سے چلا اور اپنے کمرے میں آکر پڑ رہا۔ عقل حیران، دل پریشان۔ صبح سے لے کر اب تک ہونے والے تمام واقعات آنکھوں کے آگے گھومتے تھے۔ اور ایک تعجب اور بے یقینی کا عالم حسن پر طاری تھا۔ مظطرب و بے قرار تھا، سراسیمہ و سینہ فگار تھا۔ کل سے اتنے سحر کے کرشمے دیکھے تھے کہ سوچتا تھا کہ یا الٰہی یہ مکاں ہے یا طلسمات کا سماں ہے؟ درودیوار میں روشنیوں کا جل اٹھنا، لوہے کے پھٹپھٹاتے گھوڑے جنہیں یہ لوگ موٹر سائیکل کہتے تھے، بغیر گھوڑے کی گاڑیاں، دجال کی سواریاں، غسل خانے میں لگے فوارے جن سے پانی جھر جھر بہتا تھا، دیواروں پر جڑے چوکٹھے جن میں پریاں ناچتی تھیں اور نغمہ و رباب کی صدائیں آتیں تھیں۔ یہ قسمت اسے کہاں لے آئی تھی، نصیب نے کیسی گردش پائی تھی۔ اب اگر یہاں سے واپس جانے کی کوئی صورت نہیں تو یہاں زندگی کیونکر کٹے گی؟ اسے ماں باپ یاد آئے، دوست احباب کی یاد آئی، اور اس یاد نے دل کی ڈھارس بندھائی۔ اس نے سوچا، بے شک اس زمانے میں طلسم و جادو کا زور ہے اوراس معاملے میں یہ زمانِ پاستان سے بہت آگے ہے لیکن جہاں تک انسانوں کی بات ہے، وہ سب ویسے ہی ہیں جیسے سینکڑوں سال پہلے تھے۔ تب بھی مائیں، نانیاں، دادیاں اولاد پر جان نچھاور کرتی تھیں، آج بھی کرتی ہیں۔ غصہ ور مرد تب بھی تھے آج بھی ہیں، مسکین شوہر اور خوفناک بیویاں تب بھی ہوتی تھیں، اب بھی ہیں۔ نوجوان عشق و محبت کی داستانیں تب بھی رنگین کرتے تھے، آج بھی کرتے ہیں۔ نافرمان لڑکے نشہ و شراب کے دلدادہ تب بھی تھے، آج بھی ہیں۔ تو فرق کیا ہوا؟ اگرزندگانی کاٹنی ہے تو لوگوں اور رشتوں کے ساتھ کاٹنی ہے، سحر کے کرشموں کے ساتھ نہیں۔ اور سحر کے کرشموں میں زمین آسمان کا فرق آیا ہو تو آیا ہو، انسانوں کی فطرت میں سرِمو فرق نہ آیا تھا۔