الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

آنکھیں کھولنے والی کہانی، چوتھے درویش کی زبانی:

چوتھے درویش کی باری آئی تو اس نے بہ اندازِ دلربائی و بے نیازی اپنی سگریٹ کی راکھ جھڑائی اور اپنی سرگزشت یوں سنائی ۔ یار بات یہ ہے کہ سچ پوچھو تو نہ مجھے کوئی تکلیف ہے نہ مجبوری۔ ڈیڈی بزنس مین ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں، زمین جائیداد بھی وافر ہے۔ ڈیفنس فیز فائیو میں دو کنال کا گھر ہے۔ اکلوتا بیٹا ہوں اور بہت لاڈلہ ہوں۔ ماں باپ فرمائش منہ سے نکلنے سے پہلے پوری کرتے ہیں۔ نہ مجھے پڑھنے لکھنے کی ضرورت ہے نہ کام کرنے کی۔ یونہی شغل میں ایم اے اکنامکس کر رہا ہوں کیونکہ ڈیڈی کو شوق ہے کہ میں ڈگری ہولڈر ہوجاؤں۔ اب میں ان کا یہ شوق پورا کررہا ہوں، بہت ہے۔ اس سے زیادہ کی مجھ سے امید نہ رکھیں۔ بھئی زندگی ایک مرتبہ ملتی ہے اور جو انی چار روزہ ہے ۔ میں خوب انجوائے کرکے زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ تین گرل فرینڈز ہیں میری۔ دوست بھی بے شمار ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟ نائٹ لائف کی جان ہوں میں۔ عمدہ سے عمدہ کھانا اور قیمتی شراب دل کھول کر خریدتا ہوں۔ خود بھی شوقین ہوں، دوستو ں پر بھی لٹاتا ہوں۔ یہ ڈرگزتو میں نشہ دوبالا کرنے کے لئے لیتا ہوں۔ لیکن اب چرس کوکین سے دل بھر گیا ہے۔ سوچتا ہوں کرسٹل میتھ ٹرائی کروں۔ ہے کسی کے پاس؟

وہ نوجوان تو مزے مزے میں اپنی سرگزشت سناتا تھا اور ادھر حسن بدر الدین کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جانِ ناتواں میں ماتم تھا، دل نخچیر تیرِ الم تھا۔ چوتھے درویش کی کہانی سن کر اپنی گزشتہ زندگی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا تھا۔ اپنے باپ کا چہرہ یاد آتا تھا، حسن بدر الدین بہت ہی پچھتاتا تھا۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ قریب تھا کہ کپڑے چاک کرتا، نالہ ہائے درد ناک کرتا کہ قلندروں کی نظر اس پر پڑی۔ حیران ہوئے، بیحد پریشان ہوئے۔ پہلے قلندر نے کہا۔ ’’کیا بات ہے؟ یقیناً تمہاری لائف میں ہم سے بھی بڑی پرابلمز ہیں۔ اسی لئے اتنے پریشان ہو۔ کچھ تو بتاؤ۔ شاید ہم کچھ ہیلپ کرسکیں۔‘‘ باقی قلندروں نے بھی تائید کی کہ ہمیں بھی حیرتِ کمال ہے کہ یا خدا یہ کیا حال ہے؟ حسن بدر الدین نے روتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو تم رازِ نہانی نہ پوچھو۔ سبب داغ و نشانی نہ پوچھو۔‘‘ قلندروں نے اصرار کیا کہ ہم بھی تمہاری طرح انسان ہیں اور اس راز کے جویاں ہیں۔ حسن نے کہا۔’’دوستو، میں نے اپنے ہاتھ سے خود پر ظلم ڈھایا، نہ جانے میرے دل میں کیا سمایا؟ میرا باپ سوداگر تھا اور سلطانِ دہلی کے امراء میں سے تھا۔ ماں نوابوں کے خاندان سے تھی۔ روپے پیسے کی ریل پیل تھی، ماں باپ پیروں تلے ہاتھ دھرتے تھے۔ گھر کیا تھا قصرِ عالیشان تھا، محکم وپائیدار تھا، لطافت سرشت و نزہت بار تھا۔ میرے باپ نے عُلمائے اَجل اور فُضلائے اَکمل میرے پڑھانے کو مقرر کئے تھے اور خود بھی میری تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی تھی۔ مگر میں نے اس ساری تربیت پر بٹہ لگایا۔ اپنے باپ کی نصیحت پر ہمیشہ جھلایا۔ دونوں ہاتھوں سے دوستوں پر دولت لٹاتا تھا۔ عیش و عشرت میں راحت پاتا تھا۔ باپ دیکھتا تھا کہ بیٹا چربانک اور سیلانی ہے، امنگ پر اٹھتی جوانی ہے۔ ہر دم نصیحت کرتا تھا کہ جانِ پدر عقل سے کام لو حکماء اور صلحاء کی صحبت رکھو، جہلاء سے نفرت رکھو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ دنیا میں سب سے زیادہ خراب عادت بادہ گسا ری ومے خواری ہے۔ شراب سے بدتر اور کوئی شے نہیں۔ اول تو جان کے لالے پڑتے ہیں، شرابی اکثر دق کے مرض میں مرتے ہیں۔ اور اگر جان بچ گئی تو لنگوٹی بندھ جاتی ہے۔ اور پھر دنیا بھی جاتی ہے اور عقبیٰ بھی ہاتھ نہیں آتی ہے۔ لیکن میں نے کبھی اس نصیحتِ بزرگانہ پر کان دھرا بھی تو دوستوں نے اُلو بنایا کہ یہ کیا حالِ خراب ہے، ابھی تو عالمِ شباب ہے۔ دل بھر کر شراب ناب پیو کہ جامِ بادہ و گلفام سے کس کافر کو احتراز ہے، درِ توبہ ہر دم باز ہے۔ اور میرا یہ حال کہ : گریارخود پلائے تو کیوں نہ پیجیئے زاہد نہیں میں شیخ نہیں، کچھ ولی نہیں پھر وہ دن آیا کہ ایک زنِ مکارہ نے کہ ساحرہء بے توفیق تھی، جادو کے زور سے میرے باپ کو بکرا بنایا اور میرے ہی گھر میں قصائی نے اس پر چھرا چلایا۔ باپ کے مرنے کے بعد بھی میں نے اپنی روش نہ چھوڑی اور دونوں ہاتھوں سے ا پنے یارانِ عیاران پر دولت لٹاتا رہا۔ حتیٰ کہ جس امر کا میرے باپ کو خوف تھا وہی پیش آیا۔ فضول خرچی نے روزِ بد دکھایا ۔ میرا دیوالہ نکل گیا اور بھرے پرے گھر کا صفایاہوگیا۔ میں نے سوچا کہ یہ روپیہ اور دولتِ کثیر میں نے اپنے احباب کی دعوتوں ہی میں صرف کی ہے، ممکن نہیں کہ وہ میرے کام نہ آئیں۔ ارادہ کیا کہ ان سے مدد مانگوں اور تھوڑا سرمایہ ہاتھ آئے تو فوراً تجارت شروع کردوں اور سودا گری کروں۔ دعوتوں اور ناچ رنگ سے باز آؤں، فضول خرچی کے قریب نہ جاؤں۔ نہیں جانتا تھا کہ یہ سب یارانِ نامی اور دوستان زبانی ہیں۔ بے مروتی اور بے حمیتی کی نشانی ہیں۔ میں باری باری سب کے گھر گیا اور مدد کی درخواست کی۔ کسی نے نوکروں سے ٹلوا دیا، کسی نے خود ٹہلا دیا۔ ہر جگہ ایک ہی ٹکا سا جواب پایا، کہیں مطلب نہ برآیا ۔ دلگر فتہ و پریشان میں گھر آیا تو ماں کو بسترِ مرگ پر پایا۔ میں زار زار رویا، ماں کے ہاتھ چومے اور معافیاں مانگیں، میری ماں مرنے سے پہلے مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی ، بار

بار ایک طرف اشارہ کرتی تھی لیکن منہ سے لفظ نہ نکلتا تھا۔ آخر میں نے پانی پلایا تو منہ سے فقط ایک لفظ نکل پایا۔ ’’دراز۔‘‘ اور پھر قضاء نے مہلت نہ دی۔ مرغِ روح قفسِ بدن سے آزاد ہوا۔ میری دنیا اور گھر بار برباد ہوا۔ کئی دن میں روتا رہا اور ماں کا آخری لفظ یا د کرتا رہا۔ اس نے کہا تھا ۔’’دراز۔‘‘ اس کا مطلب یقیناً یہی تھا کہ خدا کا کرم دراز ہے اور دنیا وسیع ۔ سفر کو وسیلہء ظفر سمجھوں اوردنیا میں نکل کر قسمت آزماؤں۔ چنانچہ میں نکل کھڑا ہوا۔ ایک باغ میں پہنچا تو وہاں اُسی ساحرہ کو پایا جس نے میرے باپ کو قتل کیا تھا۔ وہ مجھ غریب الوطن کو ستانے پر تُل گئی یعنی مجھے شوہر بنانے پر تُل گئی۔ میرے انکار پر مجھے اٹھایا اور بزورِ جادو مجھے وقت کی گردش میں پھینک دیا ۔میں بلائے بے درماں میں گرفتارہوا، نہ جانے خوابِ عدم سے کیوں بیدار ہوا۔ کاش موت آتی، اسی وقت جان نکل جاتی تو اس مصیبت سے بچ جاتا، یہ ماجرائے دہشت خیز دیکھنے میں نہ آتا۔ اب اپنے زمانے، اپنے وقت اور اپنے وطن سے دور ہوں۔ ہائے میں بڑا مجبور ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر حسن بدر الدین اس قدر رویا کہ ہچکی بندھ گئی ۔ اتنے میں حورِ صبح نے نورِ صبح کی چادر اوڑھی اور شہرزاد خاموش ہوگئی۔ بادشاہ نے خوش ہوکر کہا۔ ’’شہرزاد قصہ گوئی تجھ پر تمام ہے، تیری گفتگو مے طرب کا جام ہے۔ خدا شب کی صورت جلد دکھائے کہ بقیہ فسانہ

تمہاری زبانی سننے میں آئے۔ ‘‘

(باقی آئندہ )

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!