الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

میری نئی معشوقہ نے فوراً دو جمع دو چار کا حساب لگایا اور یہ سمجھ کر کہ لونڈا انجینئر ہے خوب کمائے گا، جواباً مجھ پر دل و جان سے عاشق ہوگئی۔ بے چاری کو معلوم نہ تھا کہ آج کل سافٹ ویئر انجینئر کو کون پوچھتا ہے۔ بہر حال ہمارا عشق دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ میں روز اس کو پچاس روپے کا ایزی لوڈ کرواکردیتا اور ہم رات گئے تک فون پر باتیں کرتے۔ اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ مجھے نوکری مل گئی۔ کہنے کو میں سافٹ ویئر انجینئر تھا مگر تنخواہ میری دو کلو چلغوزوں کی قیمت سے کم تھی۔ مبلغ دس ہزار روپے ماہانہ۔ میری ماں نے ایک ہاتھ سے محلے میں مٹھائی بانٹی اور دوسرا ہاتھ میرے آگے پھیلا یا اور حکم دیا کہ اب میں کماؤ پوت ہوگیا ہوں لہٰذا اب گھر میں خرچہ دیا کروں۔ باپ نے جیب خرچ دینا بند کیا اور لینا شروع کردیا۔ موٹر سائیکل کے پیٹرول اور دفتر میں چائے پانی کا خرچہ نکال کر میرے پاس اتنے پیسے بھی نہ بچتے تھے کہ سگریٹ ہی خرید لوں۔ اس پر محبوبہ کے تقاضے الگ کہ نوکری لگ گئی ہے مونال میں کھانا کھلاؤ، ماریہ بی کا سوٹ خرید کر دو، سونے کی بالیاں بنوادو۔ یہاں یہ عالم کہ ایزی لوڈ کر اکر دینے کے پیسے بھی نہیں۔ اس مصیبت سے نجات پانے کے لئے میں نے اپنی محبوبہ کو ایک طوطا خرید دیا۔ جی ہاں! میں نے عرض کیا نا کہ جب عشق کررہا ہوتا ہوں تو عقل کے معاملے میں اپر سٹوری خالی ہوجاتی ہے۔ غرض و غایت اس تحفے کی یہ تھی کہ طوطا بولنا سیکھ لے گا اور میری محبوبہ کا دل بہلایا کرے گا اور وہ میرا سرکھانا چھوڑ دے گی۔ طوطے کا تحفہ لے کر اس نے کچھ ناک بھوں چڑھائی کہ لاتے تو گوچی کا بیگ لاتے، بربری کا پرفیوم لاتے،تم طوطا اٹھا کر لے آئے۔میں نے اسے تسلی دی کہ میں دن رات مصروف رہتا ہوں، ساری کمپنی کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ میری غیر موجودگی میں طوطا تمہارا دل بہلائے گا۔ وہ خوش ہوئی اور میری محبت میں طوطے کا نام میرے نام پر بُندو رکھ دیا۔ اب سنیئے کہ وہ طوطا اس کے باپ کو جی جان سے پسند آگیا۔ وہ اس کو چوری کوٹ کر کھلاتا اور ہری مرچیں کھلاتا۔ چند ہی دنوں میں طوطا اس سے مانوس ہوگیا اور جب وہ اسے آواز دیتا ۔ بُندوووو تو طوطا کہتا جی ی ی ۔اس کے علاوہ بھی مزے مزے کی باتیں کرتا۔ ایک دن محبت نے جوش مارا اور میرا دماغ معطل ہوا اور میں رات کو چوری چھپے اپنی محبوبہ سے ملنے اس کے گھر جاپہنچا۔ پلان یہ تھا کہ اس کا با پ سردیوں میں جلد سونے لیٹ جاتا ہے لہٰذا اس کے سونے کے بعد وہ چھت پر آئے گی اور ہم دل بھر کر باتیں کریں گے۔ میں چھپتا چھپاتا اس کے صحن میں پہنچا ہی تھا کہ اندر سے اس کے باپ کے کھنکھارنے کی آوا ز آئی۔ میں دل میں ڈرا کہ یہ بڈھا کمبخت ابھی سویا نہیں۔ جلدی سے ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ جب پندرہ منٹ کوئی آواز نہ آئی تو دل کو تسلی ہوئی کہ بڈھا سوگیا ۔ دھڑلے سے صحن میں آیا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ ادھر اندر اس کا باپ سویا نہیں تھا، جاگ رہا تھا۔میری شامت آئی یا شیطان نے اسے انگلی دکھائی، عین رات کو اس کے دل میں طوطے کی محبت جاگی اور اس نے پکار کر کہا بندوووو۔باہرمیں اپنے دھیان میں سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا، اپنا نام جو سنا تو بے اختیار زور سے جواب دیا۔۔۔ جی ی ی ۔ بڈھے نے جو اندر سے طوطے کے بجائے باہر سے میری آواز سنی تو چونکا اور چلایا ۔ ’’کون ہے باہر؟‘‘ اس پر وہ کمبخت طوطا جو میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی معشوقہ کو دیا تھا۔ بول اٹھا اور سب کچا چٹھا کھول دیا کہ چھوٹی بی بی کا بوائے فرینڈ ہے، اکثر ملنے آتا ہے۔ ادھر میں نے دوڑ لگائی، اُدھر اندر سے اس کا باپ لپکا۔ اس کے بھائی بھی آگئے۔ تب تک میں گلی میں کودنے کے لئے دیوار پر چڑھ چکا تھا۔ اس کے بھائی نے جو دیکھا کہ اب یہ بھاگا جاتا ہے اور ہاتھ نہیں آئے گا تو اس نے تاک کرکرکٹ کا بیٹ، جو وہ مجھے پیٹنے کے لئے لایا تھا، مجھے کھینچ مارا۔ میں دیوار پر آدھا باہر ، آدھا اندر لٹک رہا تھا۔ بیٹ اس زور سے کمر پر لگا کہ مہرہ کھسک گیا ۔ رہی سہی کسر گلی میں جاگرنے سے پوری ہوئی۔ میں درد سے تڑپتا کسی نہ کسی طرح رینگ کر اندھیرے میں کھسک گیا۔ جتنی دیر میں وہ گلی میں نکلے ، میں چھپ چکا تھا۔ اگلے تین دن میں ہسپتال میں پڑا رہا اور وہ چور کو ڈھونڈتے اور تھانے میں رپورٹیں لکھواتے رہے۔ میں تو ہسپتال سے واپس آگیا مگر میری کمر کا مہرہ واپس اپنی جگہ پر نہ آیا ۔اب شیاٹیکا کا درد ہے اورہم ہیں دوستو۔ ڈاکٹر او پی آئیڈکے انجکشن لکھتے ہیں ، وہ خریدنے کی سکت نہیں۔ ادھر میری ماں ان کے گھر میرا رشتہ کرنے پر راضی نہیں کیونکہ ہم شیعہ وہ سنی ، ہم اہلِ زبان وہ پنجابی جاٹ۔ حال اُدھر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔وہ اپنی بیٹی کسی کھاتے پیتے شخص کے حوالے کریں گے اور میری تنخواہ تومیں آپ کو بتا ہی چکا ہوں کہ دو کلو چلغوزوں کی قیمت سے بھی کم ہے۔ تو دوستوں ان سب مسئلوں کا حل میں نے یہ نکالا کہ ڈرگ پیڈلر بن گیا۔ مال خریدتا ہوں، دوگنے داموں سپلائی کرتا ہوں اور دو چار دم لگا کر اپنا غم اور شیا ٹیکا کا درد دور کرتا ہوں۔ کچھ رقم جڑ جائے تواپنی معشوقہ سے شادی کروں گا اور سب سے پہلے اس کمبخت طوطے کی گردن مروڑوں گا جس کی وجہ سے آج اس حال میں ہوں۔ تو بس دوستو یہ تھی میری کہانی اور میری مصیبتوں کا احوال۔ ایسی غمناک کہانی سن کر سب کا برا حال ہوا۔ یہ کلامِ رقت التیام سن کر حاضرینِ جلسہ میں ہر ایک مصروفِ گریہ وزاری تھا۔ آنسوؤں کا دریا آنکھوں سے جاری تھا۔ بصد دقتِ تمام حسن بدر الدین نے آنسو پونچھے اور تیسرے درویش کو تسلی دی کہ خدا کی مرضی میں عقل کب دخل پاتی ہے۔ قسمت میں جو بات ہوتی ہے ضرور پیش آتی ہے۔ یہ فقرہ کہہ کر وہ چوتھے درویش کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے درخواست کی کہ اے چوتھے درویش تیرے ساتھیوں کی صدائے قلقل نے وہ سماں باندھا ہے کہ بزمِ جم وکے کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ دیا ہے۔ اب تم جلداس فمجمعء فرخ نشاط کا عنوان کرو اور اپنی سرگزشت سے ہمارا دل بہلانے کا سامان کرو۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!