عجیب و غریب کہانی، دوسرے درویش کی زبانی :
حسن نے دوسرے درویش کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ لمبا تڑنگا جوانِ رعنا و طناز تھا، چہرے بشرے سے معزز و ممتاز تھا۔ حسن نے کہا۔ ’’اے جوان زیبا خرام ، یوسف لقا، خوبرو گلگوں ، اگر برا نہ مانو تو اپنی سرگزشت سناؤ اور ہمارا دل بہلاؤ۔‘‘ وہ نوجوان یہ سن کر مغموم ہوا ۔ دکھی ہوکر سگریٹ کا کش لیا اور دھوئیں کے مرغولے بنانے لگا۔ پھر ایک آہ بھری اور اپنی داستانِ عجیب و غریب یوں سنائی ۔ میری کہانی سے کسی کا دل کیا بہلے گا، میں تو وہ بدقسمت ہوں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی نہ زندوں میں ہوں نہ مرُدوں میں۔زندہ رہوں تو دنیا کھا جائے، مرجاؤں تو جنازہ نہ پڑھا جائے۔ میں سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا تھا۔ میرا باپ امیر کبیر زمیندار ہے اور اب الیکشن جیت کر ایم پی اے بھی بن چکا ہے۔ مجھ سے بڑی پانچ بہنیں ہیں۔ اولادِ نرینہ کے لئے میرے ماں باپ نے نہ کوئی ڈاکٹر چھوڑا نہ پیر فقیر۔ آخر میں پیدا ہوا۔ میرے باپ کی حویلی سے پورے چالیس دن لنگر بٹتا رہا۔ سات گاؤں ادھر اور سات گاؤں ادھر مٹھائیاں بانٹی گئیں ۔ میرے باپ کو وارث مل گیا۔ وہ مجھے دیکھ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا، سرآنکھوں پر بٹھاتا تھا۔ میں بہنوں کا لاڈلہ ، ماں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ بچپن سے سنتا آیا تھا کہ سب کو میرے سہرے کا بے حد ارمان ہے۔ میری شادی ہوگی ، بیٹے ہوں گے، میں بھرپور مرد آدمی ہوں، ضرور بہ ضرور سات بیٹوں کا باپ بنوں گا۔ لیکن ہوا کیا؟ میں جوان ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ ۔۔۔کہ۔۔۔ اب تم لوگوں سے کیا چھپانا۔۔۔مجھے معلوم ہوا کہ مجھے لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میرا دل تو لڑکوں پر آتا ہے۔ پہلا عشق مجھے اپنے مزارعے کے بیٹے سے ہوا۔ تب میری عمر پندرہ سال تھی۔ نہ بچوں میں تھانہ بڑوں میں ۔ نہیں جانتا تھا کہ میں مختلف کیوں ہوں۔ خوف اور سہم سے ادھ مرا رہتا تھا۔ باپ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا تھا، ماں دم درود کرتی تھی مگر میں اپنا دکھ کسی سے نہ کہہ سکتا تھا۔ کسی کے پاس میری بیماری کا علاج نہ تھا۔ اور میں اندر ہی اندر کُڑھ کُڑھ کر مررہا تھا۔ گھر میں میری شادی بیاہ کی بات ہوتی تو میں اٹھ کر بھاگ جاتا کہ میری اُڑی رنگت کوئی دیکھ نہ لے۔ماں بہنیں ہنستیں اور فخر کرتیں کہ ان کا بیٹا کتنا شریف ہے۔ اور میں اپنی اس شرافت ، خوف اور تنہائی کے بوجھ سے جیتے جی زندہ درگو ر تھا۔میری پرمژدگی دیکھ کر میرے باپ نے میٹرک کے بعد میرا داخلہ لاہور ایف سی کالج میں کرادیا۔ ان کا خیال تھا کہ گاؤں سے نکلوں گا ، بڑے شہر کے بڑے کالج میں جاؤں گا تو ذہن کھلے گا، ایکسپوژر ملے گا اور میرا اعتماد بحال ہوگا۔ یہ سب ہوا۔ اور اس کے ساتھ کئی عشق بھی ہوئے۔ یکطرفہ عشق ۔ کبھی زین سے، کبھی شہریار سے، کبھی عماد الدین سے اور کبھی افتخار سے۔ ان چھے سالوں میں کوئی زینت ، کوئی کرن ، کوئی شازیہ دل کو نہ بھائی ۔ میرے دوست انوشکا شرما پر مرتے ہیں،میں ویرات کوہلی پر۔کئی مرتبہ دل چاہا خودکشی کرلوں مگر ہمت نہ پڑی۔ ایک دن ایسی ہی کیفیت میں گراؤنڈ میں لندن برج سے ٹیک لگائے پڑا تھا کہ ایک دوست نے سگریٹ دی۔ چند دن تو عام سگریٹ دیتا رہا، پھر بھری ہوئی دینے لگا۔ اب لت لگ گئی ہے۔ اپنے دکھوں اور غموں کو ڈرگز میں ڈبوتا ہوں۔ گھرمیں ہر روز میرے لئے کوئی رشتہ دیکھا جاتا ہے اور میں یہاں اپنی زندگی چرس کے دھوئیں میں اڑا رہا ہوں۔ یہ درد بھری کہانی کہہ کر وہ جوانِ رعنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ پہلے درویش نے اس کے گلے میں بازو ڈال دیئے اور اس کے ساتھ رونے لگا اور کہنے لگا۔ ’’غلط مت سمجھنا، تو میرا بھائی ہے۔‘‘ پھر دونوں مل کر رونے لگے اور گانے لگے۔ ’’اب تو عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے کی۔‘‘ حسن بدر الدین، کہ مانا ہوا رقیق القلب نوجوان تھا، اس داستان کو سن کر آٹھ آٹھ آنسو رویا، پھر اس نے تیسرے درویش سے التجا کی کہ اپنی سرگزشت سنائے۔
ایک داستان پرانی ، تیسرے درویش کی زبانی:
تیسرا درویش ایک مختصر قامت ، دھان پان ، خرگوش کے سے دانت، گرم چادر کی بکل مارے خاموش بیٹھاتھا۔ اس کی باری آئی تو اس نے اپنی سرگزشت یوں سنائی۔ ’’بھائیو نہ تو مجھے پہلے بھائی جیسی مجبوری ہے کہ کسی نے انجینئر بننے پرمجبور کیا ہو، نہ ہی ان بھائی جان جیسی کہ ویرات کوہلی پر دم نکلتا ہو۔ الٹا میں تو بچپن ہی سے حسین لڑکیوں پر مرتا آیا ہوں۔ بلکہ حسین ہی کیوں ، میں تو ہر لڑکی پہ عاشق ہوجاتا تھا۔ بچپن ہی سے تیزو طرار تھا، چست و چالاک تھا۔ پڑھائی میں اچھا تھا، باقی کام بھی مستعدی سے انجام دیتا تھا۔ بس جب عشق میں مبتلا ہوجاتا تھا تو ہوش وحواس ساتھ چھوڑ جاتے تھے اور عقل سے ، کہ بڑا جوہر لطیف ہے،دماغ کھکھل ہوجاتا تھا۔ اب سنئے کہ جس سال میں نے گریجویشن کیا اسی سال ہمارے محلے میں ایک فیملی آئی۔ میں فوراً ان کی بیٹی پر عاشق ہوگیا۔ عاشق ہونا میرا فرض ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی مجھے منظور نہیں۔ یہ وہ دن تھے جب میری ماں محلے میں میرے پاس ہونے پر مٹھائی بانٹ رہی تھی اور ہر جگہ چرچا تھا کہ میں انجینئر بن گیا ہوں ۔