زلیخا اور حسن صحن میں بیٹھے تھے۔ حسن نے زلیخا کو صدر صاحب سے ملاقات کا احوال لفظ بہ لفظ سنایا تھا کچھ نہ چھپایا تھا۔ اور اب زلیخا گم صم بیٹھی تھی اور حسن خاموش بیٹھا اپنی ہی سوچ میں گم تھا۔
آخر زلیخا نے ایک آہ پردرد کھینچی اور کہا ۔ ‘‘پھر اب؟’’
حسن چونکا اور کہا۔ ‘‘میں اس زمانے میں نیا ہوں اور اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیران ہوں۔’’
‘‘سوال گندم، جواب چنا۔’’ زلیخا نے خفا ہوکر کہا۔ ‘‘میں تم سے مسئلے کا حل پوچھ رہی ہوں، تم مجھے یہ کہانی سنا رہے ہو۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے کبھی ایسی باتوں کا سامنا کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ حل کیونکر بتاؤں اور اس انجان دنیا میں کس سے پوچھنے جاؤں ؟ لیکن میری صلاح یہ ہے کہ اب جو اس مسئلے میں پھنس گئے ہیں تو بلا کوشش کئے ہار ماننا مردانگی کے خلاف ہے، بنا لڑے ہتھیار ڈالنا باعثِ رسوائیء اسلاف ہے۔’’
زلیخا نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا۔ ‘‘اب ذرا آسان اردو میں بتاؤ گے کہ کہنا کیا چاہتے ہو؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس الجھیڑے کا صرف یہ علاج ہے کہ کتابوں کی دکان کو بند کردیا جائے۔’’
زلیخا ہکا بکا رہ گئی بولی ۔ ‘‘دکان کو بند کردیا جائے ؟ یہ کیا کہہ رہے ہو؟’’
حسن نے کہا ۔‘‘میری بات غور سے سنو اور میری صلاح پر کان دھرو۔ میرا باپ اپنے وقت کانامی گرامی سوداگر تھا۔ بے شک میں نے تجارت میں سنجیدگی سے ہاتھ نہ ڈالا لیکن تجارت اور اس کے گر میرے خون میں رچے ہیں، میری سانس میں بسے ہیں، میں جو با ت کہتا ہوں دلیل و اصول تجارت کے تحت کہتا ہوں۔ ماموں کی دکان جس بازار میں ہے وہاں اردگرد تمام دکانیں بزازے کی ہیں۔ یعنی ریشمی و سوتی کپڑا بکتاہے اور بے حد و حساب بکتا ہے۔ تجارت کا اصول ہے کہ اگر ایک بازار میں تمام مال تجارت یکساں قسم و نوع کا ہوگا تو ہر دکان کو گاہگ لگے گا اور سب کی تجارت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے گی۔’’
زلیخا نے الجھن سے کہا۔ ‘‘میں سمجھی نہیں۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘دیکھو میں سمجھاتا ہوں، ہر بات کھول کر بتاتا ہوں۔ جس بازار میں ہر دکان کپڑے کی ہے، وہاں زیورات کی دکان، برتنوں کی دکان یا عطر و غازے و سرخی کی دکان خوب چلے گی۔ یعنی ہر وہ چیز جس سے عورتوں کو دلچسپی ہوتی ہے۔’’
زلیخا نے تیکھے لہجے میں کہا۔‘‘تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ عورتوں کو کتابوں سے دلچسپی نہیں ہوتی؟’’
حسن نے کہا۔‘‘تم دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ ،تمہارے اردگرد جتنی بھی عورتیں ہیں وہ جتنا پیسہ عمدہ پوشاک، گل ہائے معنبر ، عطر ، حنائے خوش رنگ اور آرائشی و زیبائش پر خرچ کرتی ہیں، کیا اس کا عشرِ عشیر بھی کتابوں پر خرچ کرتی ہیں؟’’
زلیخا نے لاجواب ہوکر نظریں چرالیں۔
حسن کہتا رہا: ‘‘کتابوں کی دکان وہاں چل سکتی ہے جہاں اردگرد بھی کتابوں کا بازار ہو اور طالبان ِعلم تلاش گوہر اور جواہراتِ ارسطو عقل میں وہاں آتے ہوں۔ ایک سے نہیں تو دوسری دکان سے گوہرِ مراد پاتے ہوں۔ بھلا کپڑوں کے بازار میں کتابوں کی دکان کا کیا کام؟’’
زلیخا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولی۔ ‘‘ٹھیک کہتے ہو۔’’
یہ کہہ کر سوچ میں گم ہوگئی۔
حسن نے کہا۔ ‘‘میں دن کے درجنوں جوڑے بیچا کرتا تھا۔ میرا تجربہ ہے اور راسخ دعویٰ ہے کہ وہ خواتین جو کپڑے خریدنے آتی ہیں، کبھی ایک دکان پر اکتفا نہیں کرتیں۔ ایک ایک کر کے ہر دکان پر جاتی ہیں ، اس کارروائی سے بے حد لطف اٹھاتی ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر ماموں کی کتابوں کے بجائے بزازے کی دکان ہوتی تو ماموں اس وقت لکھ پتی ہوتے۔’’
زلیخا نے سوچتے ہوئے کہا ۔ ‘‘تو پھر اب تمہارا کیا مشورہ ہے؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘ایک تیر سے دو شکار، یعنی غربت اور بنے بھائی دونوں سے چھٹکارا۔ وہ بھی یوں کہ سانپ بھی مرجائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ دکان کا سارا سامان اردو بازار میں اونے پونے بیچ دیا جائے اور دکان کو رنگ و روغن کرواکر اسے ریشمی و سوتی مال سے بھرلیا جائے۔ نئی دکان ، نیا مال، نیا حساب کتاب۔ سب کچھ ماموں اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور بنے بھائی کی حرکاتِ فضول اور اعمالِ نامعقول سے جان چھٹ جائے گی۔’’
زلیخا نے خوش ہوکر کہا۔ ‘‘واقعی تمہارے اندر بہت بزنس سینس ہے۔ دادی اماں خوامخواہ تمہیں انجینئرنگ پڑھوا رہی تھیں۔ تمہیں تو بزنس پڑھنا چاہیے تھا۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘سچ تو یہ ہے زلیخا کہ میں انجینئر برائے نام ہوں،اصل میں سوداگر بچہ عالی مقام ہوں۔’’
زلیخا نے امید سے کہا۔ ‘‘اچھا تو پھر کیا پلان ہے؟ ابا سے کب بات کروگے؟ کتنے عرصے میں دکان کا مال بیچ کر نیا ڈالوگے؟’’
حسن نے ایک آہ سرد بہ دل پر درد بھری اور کہا۔
‘‘اے زر تو خدا نہ ای و لیکن بخدا
ستارِ عیوب و قاضی الحاجاتی ’’
زلیخا نے چونک کر کہا۔ ‘‘کیا مطلب؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘مطلب یہ کہ پیسہ خدا تو نہیں لیکن عیبوں کو ڈھانپ دینے والا اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ضرور ہے۔’’
زلیخا بات سمجھ گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑگیا ۔ آہستہ سے بولی۔ ‘‘کتنا پیسہ چاہیے؟’’ حسن نے اداس مسکراہٹ سے کہا۔ ‘‘بہت سا۔’’
زلیخا چند لمحے سوچتی ہی۔ پھر گلے سے سونے کی زنجیر اور انگلی سے انگوٹھی اتاری، ہتھیلی پر رکھ کر حسن کے سامنے کی اور کہا۔ ‘‘میرے پاس بس یہ ہیں۔ کچھ خرچہ اس سے پورا ہوسکتا ہے؟’’
حسن کہ حساب کتاب کا ماہر اور تجارتی اعداد و شمار میں طاق تھا، اس اونٹ کے منہ میں زیرے کے مانند زنجیر اور انگوٹھی کو دیکھ کر لب بستہ ہوا۔ دل شکستہ ہوا۔ نظر اٹھاکر زلیخا کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر آس ، امید اور اپنی بھینٹ ٹھکرائے جانے کا خوف جھلک رہاتھا۔
اس معصومانہ ایثار سے حسن کا دل بھر آیا۔ آبدیدہ ہوا ، رنج رسیدہ ہوا۔
اتنے میں ظلمتِ شب گئی، صبح نمودار ہوئی۔ شہر زاد نے خاموشی اختیار کی اور بادشاہ کے جان و مال کو دعا دی۔
٭……٭……٭
(باقی آئندہ )