حسن نے کرن کو فون کرکے مژدہ سنایا اور احوالِ تازہ بتایا کہ اسے ڈرامے سے نہیں نکالا جارہا ، بلکہ ایک دوسرے رسالے میں بھی اس کی تصویریں چھپنے جارہی ہیں۔ بس ذرا ٹانگ ٹھیک ہونے کا انتظار ہے۔
یہ سن کر کرن خوش ہوئی اور جواباً یہ خوشخبری سنائی کہ اس کے ڈیڈی نے حسن کو مطلقاً نہ پہچانا تھا کہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس لئے کہ نیند کی دوا کے زیرِ اثر ان کے سر میں درد تھا اور نظر بے حد چکراتی تھی ۔ لہٰذا اب کھل کھیلنے میں کوئی خطرہ نہیں۔
ان دو خوشخبریوں کے بعد، جو عاشق و معشوق نے ایک دوسرے کو سنائیں، دونوں کے دلوں سے ملال دھل گیا اور شکوے کے بادل چھٹ گئے۔ کرن نے حسن کو اپنے باپ کے دانت معاف کئے، حسن نے اس کے باپ کو اپنی ٹانگ معاف کی اور دونوں پھر سے باہم شیر و شکر ہوگئے اور پیار محبت ہنسی دل لگی کی باتیں ہونے لگی، رنگین دن اور حسین راتیں ہونے لگیں۔
دوسری طرف کنیز نے اٹھتے بیٹھتے حسن کو اپنے احسانات یاد کرانے شروع کئے اور یہ باور کرانا شروع کیا کہ اگر اس کی کوششوں اور تدبیروں کا دخل نہ ہوتا تو حسن کبھی اپنی معشوقہ کو نہ پاتا، وصل کے پھل کے عوض جدائی و رسوائی کا پتھر کھاتا۔ اور یہ بھی کہ ‘‘پچھلے محلے والے آفتاب بھائی تو میری منتیں کرتے ہیں کہ کنیز کسی طرح کرن سے ملاقات کرادو تمہیں سونے کا نیکلس دوں گااور اگر کسی طرح شادی کرادو تو لاکھ روپے سے کم نہیں دوں گا۔ بس وہ تو میں ہی ہوں جو انہیں ٹالتی رہتی ہوں او رکرن باجی سے ان کے خلاف اور آپ کے حق میں باتیں کرتی ہوں ۔ اس کے باوجود آفتاب بھائی آتے جاتے مجھے کبھی دو ہزار ، کبھی پانچ پکڑا دیتے ہیں۔ ابھی بھی پانچ ہزار کا نیا نکور نوٹ دیا ہے۔ دکھاؤں آپ کو؟’’
حسن یہ ساری باتیں سنتا تھا اور مسکراتا تھا، جامے میں پھولے نہ سماتا تھا۔ سوچتا تھا اللہ اللہ! کہاں وہ رنج والم تھا، میرے نصیب میں ساری خدائی کا غم تھا۔ او رکہاں اب دنیا کی ہر خوشی حاصل ہے۔ روزگار بندھ گیا، نانی مجھ سے خوش ہیں، کنیزِ بے تمیز وفاداری کا دم بھرنے لگی ہے۔ بس اب معشوقہ پری رخسار سے عقد ہوجائے تو راجہ اندر کی میرے سامنے کیا حقیقت ہے۔
یہ ساری باتیں سوچ کر خود اعتمادی اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ خود کو ساری دنیا سے معتبر پاتا تھا اور اس کیفیت میں خواہ ممانی ہوتی یا بنے بھائی یا کرن کا پدرِ نامعقول ، جوبھی سامنے آتا اور تہذیب سے مبرا اور اخلاق سے معرا کوئی حرکت کرتا تو بچ کے نہ جانے پاتا۔ اپنے انجام سے دو چار ہوتا، دنیا سے فرار ہوتا۔
اسی مسرت اور خود اعتمادی کی جون میں حسن بدر الدین ایک دن ماموں کے ساتھ بائیک پر بیٹھا اور دکان کو آیا۔ بازار سے مزدور بلوایا اور ساری دکان کی اچھی طرح صفائی کروائی۔ مال کی درجہ بندی کرکے فہرست بنائی اور قیمتِ فروخت کے ساتھ قیمتِ خرید کا موازنہ کرکے تمام حساب کتاب لکھ دیا۔ ہر ایک سے مال کے گٹھے بناکر علیحدہ علیحدہ خانوں ، الماریوں میں لگوائے اور ان پر فہرستیں چسپاں کیں۔
ماموں نے یہ تمام اہتمام دیکھا تو فرطِ مسرت سے آبدیدہ ہوئے اور حسن کا ماتھا چوم کر بولے،:‘‘اب مجھے کوئی فکر نہیں۔ اب میں سکون سے ریٹائر ہوسکتا ہوں۔ میرا کاروبار تم بہت اچھی طرح سنبھال سکتے ہو۔’’
دکان کے کام سے فارغ ہوکر حسن باہر نکلا اور اس دکان کو گیا جو اس زندگی میں ا س کے والد مرحوم کی مانی جاتی تھی۔ گوحسن اس دکان پر خود کو حقدار نہیں پاتا تھا لیکن اب چونکہ وہ پرانے زمانے کا حسن بدر الدین نہیں تھا بلکہ نئے زمانے کا حسن بدر الدین تھا تو ان صاحب یعنی بدر الدین مرحوم یعنی نئے زمانے کے حسن بدر الدین کے ابا یعنی خود اس کے معنوی ابا کی دکان پر اس کے سوا اور کس کا حق تھا؟ اور اس صورت میں کہ بنے بھائی دھوکے سے اس دکان کا کرایہ ڈکار رہے تھے اور اس پر قبضہ کرنے کی فکرمیں تھے، حسن کا فرض بنتا تھا کہ دکان کی ملکیت کو اپنے قبضے میں لائے اور بنے بھائی کے دام تزویر میں پھنسنے سے بچائے ۔
یہ سوچ کر حسن نے وہاں کے دکانداروں سے ملاقات کی۔ سب اسے جانتے تھے اور عزت کرتے تھے۔ انہوں نے اسے مارکیٹ یونین کے صدر سے ملنے کا مشورہ دیا۔
حسن کو یہ سمجھ نہ آیا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ کیا نام ہے اور کیا کا م ہے؟
دکانداروں نے سمجھایا کہ دکانداروں کی تنظیم کے سربراہ ہیں اور لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ حسن یہ سن کر خوش ہو ااور جو پتہ صدر صاحب کا دکانداروں نے بتایا ۔ حسن نے خود کو اس دفتر میں پہنچایا۔
صدر صاحب کے روبرو حسن نے ماموں کی دکان کا معاملہ ، بنے بھائی کا غبن اورمرحوم بدر الدین کی دکان کا معاملہ رکھا۔ سب کچھ راست راست کہہ سنایا، بلاکمو کاست کہہ سنایا۔
صدر صاحب نے ساری بات سن کر کہا: ‘‘دیکھو بیٹا جہاں تک زاہد صاحب کی دکان کا مسئلہ ہے، یہ تم لوگوں کا خاندانی معاملہ ہے۔ میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر تو زاہد صاحب تھانے میں مقدمہ درج کرائیں تو میں اس حد تک ان کی مدد کرسکتا ہوں کہ جلد از جلد ایف آئی آر کٹوادوں اور مقدمے کی ایماندارانہ تفتیش میں مدد دوں، لیکن یہاں معاملہ ان کے بیٹے کا ہے۔ سوتیلا ہی سہی لیکن زاہد صاحب نے خود اسے دکان کے مالی معاملات کا مختار بنایا ہے۔ اب اگر وہ غبن کررہا ہے تو اس کا سادہ ساحل یہ ہے کہ وہ اسے دکان سے بے دخل کردیں۔ اگر لوٹا گیا روپیہ نکلوا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آئندہ کے لئے محتاط رہیں۔’’
حسن نے پوچھا۔ ‘‘اور میری دکان؟’’
صدر صاحب نے داڑھی پر ہاتھ پھیر ااور کہا۔ ‘‘تمہاری دکان بہت پرائم لوکیشن پر ہے۔ سائز میں بھی بڑی ہے۔ تقریباً دو دکانوں کے برابر ہے۔ اس لئے تمہارے ابا مرحوم کے انتقال کے بعد اس پر قبضہ ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں میرے والد یونین کے صدر تھے، مجھے یاد ہے بڑی اونچی سفارش لڑائی تھی انہوں نے۔ پھر بھی بہت پیسہ لگا تھا اور تمہاری والدہ مرحومہ کو تمام زیور بیچنا پڑ اتھا۔ اب بھی سچ پوچھو تو بیٹا تقریباً وہی معاملہ ہے۔ مارکیٹ میں سب کو معلوم ہے کہ یہ دکان سونے کی چڑیا ہے۔ لیکن اس کا مالک ایک یتیم و یسیر نوجوان ہے۔ جس کی کوئی پہنچ نہیں۔ لے دے کر ایک ماموں زاہد صاحب ہیں اور معاف کرنابیٹا، زاہد صاحب کتنے پانی میں ہیں ، یہ ساری مارکیٹ کو معلوم ہے۔’’
حسن نے کہا۔‘‘تو اگر میں ان میز کرسیوں والوں کو دکان خالی کرنے کا پروانہ بھجوادوں تو کیا وہ دکان خالی نہ کریں گے؟’’
صدر صاحب نے مایوسی سے سرہلایا اور کہا۔ ‘‘کبھی بھی نہیں کریں گے۔ تمہاری دکان کا کرایہ لاکھوں میں ہونا چاہیے۔ یہ اس کا چوتھائی بھی ادا نہیں کرتے۔ تمہارا کہنا ہے کہ بنے کی ملی بھگت ہے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ یا تودرپردہ وہ اس دکان پر ہاتھ صاف کرنے کے چکر میں ہے یا پھر یہی لوگ قبضہ گروپ بن کر بیٹھے رہنا چاہتے ہیں۔ اگر تم ان کو دکان خالی کرنے کا نوٹس دوگے تو وہ کرایہ دینا بند کردیں گے اور مقدمہ درج کراؤگے تو عدالت سے سٹے آررڈر لے لیں گے۔’’
حسن نے پوچھا۔‘‘وہ کیا ہوتا ہے؟’’
صدر صاحب نے کہا۔ ‘‘اس کا مطلب یہ کہ وہ سالہا سال کرایہ ادا کئے بغیر دکان پر قابض رہیں گے اور تمہاری پراپرٹی سالوں کے لئے پھنس جائے گی۔’’
یہ سن کر حسن پریشان ہوا اور پوچھا۔ ‘‘تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟’’
انہوں نے کہا۔ ‘‘اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اگر کہیں اوپر تک تعلقات ہیں تو بروئے کار لاؤ اور دکان کا قبضہ چھڑاؤ۔’’
حسن نے صدر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور گھر کو آیا۔
٭……٭……٭