حسن چونک بے حد ذہین تھا اور بفضلہ بلا کا دماغ پایا تھا لہٰذا اسے وہ نئے الفاظ سیکھنے میں ذرا دقت نہ ہوئی جو شہریار نظیر اور اس کے ساتھی بولا کرتے تھے۔ اسے معلوم ہوا کہ ناٹک کو ڈرامہ کہتے ہیں اور اس کی کہانی اور جملوں کو سکرپٹ ۔ ناٹک لوگوں کے سامنے نہیں کھیلا جائے گا بلکہ چلتی پھرتی بولتی تصویریں کیمرے پر نقش کرلی جائیں گی اور پھر ٹی وی پر دکھائی جائیں گی ۔ جادو کے اس بے مثال کرشمے پر حسن عش عش کر اٹھا۔
حسن کے پا س چونکہ کرنے کو اور کوئی کام نہ تھا لہٰذا دن رات لیٹا سکرپٹ پڑھتا رہتا تھا۔ کہانی یہ تھی کہ ایک بہت بڑے راجو اڑے کا نوجوان نواب ، خوبصورت، قمر طلعت ، صاحبِ احتشام و ثروت ہے۔ محلاتی سازشوں اور غداری کا شکار ہوکر اپنے دشمن نواب کے ہاتھوں جنگ ہار جاتا ہے۔ وفا دار وزیر اس کی جان بچا کر جنگل بیابان میں لے جاتا ہے۔ وہاں ایک غریب کی جھونپٹری میں ایک پری تمثال ، حوروش ،نور جمال لڑکی ا س کی تیمار داری کرتی ہے۔ دونوں میں آئیلویولو ہوجاتا ہے۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاتونِ جمیلہ و عفیفہ بذات خود ایک نواب کی بیٹی ہیں اور وقت کی گردش کا شکار ہوکر جنگل میں پڑی ہیں۔ آخر کار نوجوان نواب اور اس کی معشو قہء رنگیں ادا مل جل کر دشمنوں سے جنگیں لڑتے ہیں۔ ان کے دانت کھٹے کرتے ہیں۔ اپنے اپنے راجواڑے دشمنوں سے واگزار کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انجام کار دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ غنچہ ہائے دل نسیم ِمسرت سے کھلکھلاتے ہیں، دلہا دلہن مارے خوشی کے جامے میں پھولے نہیں سماتے ہیں۔
حسن کو یہ کہانی از بس پسند آئی، نواب کے کردار میں اپنی صورت نظر آئی۔ وہ بھی تو اس نواب کی طرح اپنی دنیا، اپنی دولت اور اپنے وقت سے محروم کردیا گیا تھا اور نئے زمانے کے جنگل میں بھٹک رہا تھا۔ اس سے بہتر نواب کی کیفیت کو کون جان سکتا تھا؟ چنانچہ حسن دل و جان سے اپنے جملے، جنہیں یہ لوگ ڈائیلاگ کہتے تھے، یاد کرنے لگا۔ سکرپٹ میں لکھی ہوئی اردو اسے کچھ خاص پسند نہ آئی لہٰذا جہاں جہاں دل چاہا ڈائیلاگ میں ردوبدل کرلیا اور اردو ئے معلی سے سنوار لیا۔
ادھر حسن تو یہ کام کرتا تھا ، ڈرامے کادم بھرتا تھا، ادھر زلیخا جلے پیر کی بلی بنی پھرتی تھی۔ دن رات کاغذوں میں سرکھپاتی تھی، ہر دم حساب کتاب کرتی نظر آتی تھی۔ کبھی کبھی ہمت کرکے ممانی کے پاس جاتی اور دل کڑا کرکے کہتی ۔ ‘‘ماما آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔’’
ممانی خشمگیں نظروں اسے گھورتی ، زلیخا کا سانس سوکھ جاتا، ہکلا کر کہتی ۔ ‘‘وہ میں یہ پوچھ رہی تھی آج کھانے میں کیا پکے گا؟’’
پھر ممانی جو بھی جواب دیتی، سن کر منہ لٹکائے واپس آجاتی۔
ایک دن حسن ڈرائنگ روم میں بیٹھا اپنے ڈائیلاگ یاد کررہا تھا کہ زلیخا آکر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ افسردہ دل و خستہ جگر تھی ۔ ناامیدی و مایوسی کے سبب پریشان تھی، بنے بھائی کے کرتوتوں پر حیران تھی۔
حسن نے اس کا یہ حال دیکھاتو ہمدردی سے پوچھا۔ ‘‘کیا بات ہے زلیخا؟’’
زلیخا نے ایک آہ سرد بھری، بہ دل پر درد بھری اور کہا۔ ‘‘میں نے سارا آڈٹ مکمل کرلیا ہے۔ پچھلے دس سال سے غبن کررہے ہیں بنے بھائی۔ لاکھوں روپے چراچکے ہیں۔ پتا نہیں کیا کرتے رہے ہیں اس پیسے کا؟ مجھے تو سوچ سوچ کر رات کو نیند نہیں آتی کہ بے چارے ابا کتنا دھوکہ کھاتے رہے۔’’
حسن نے کہا۔ ‘‘میری سمجھ میں نہیں آتا اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں پاتا کہ ماموں چپ کیوں ہیں؟ خدا نے عقل اور مرتبہ دونوں باتیں بخشی ہیں۔ بنے بھائی کے ہاتھ سے سب انتظام وا انصرام لے کیوں نہیں لیتے؟’’
زلیخا نے افسوس سے سرہلایا اور کہا۔ ‘‘ڈرتے ہیں بے چارے۔ ذرا بھی ہمت والے ہوتے تو آج نہ گھر کا یہ حال ہوتا نہ کاروبار کا۔ خیر میں تم سے یہ کہنے آئی تھی کہ تمہاری ٹانگ ذرا ٹھیک ہوجائے تو پلیز دکان کا چکر لگا لینا۔ ابا کو تمہارا بہت آسرا ہے۔ اور سچی بات یہ کہ مجھے بھی۔ تم دکان کا چارج اپنے ہاتھ میں لو تو میں ماما اور بنے بھائی سے بات کروں۔ ابھی تو میری ہمت ہی نہیں پڑتی۔’’
ممانی اور بنے بھائی سے برسرپیکار ہونے کے خیال سے حسن کا دل بیٹھ گیا۔ لیکن چونکہ وعدہ کرچکا تھا لہٰذای حامی بھرنی پڑی۔ لیکن اسے گومگو کے عالم میں دیکھ کر زلیخا سمجھ گئی کہ بہت گھبراتا ہے، بنے بھائی کے خیال سے بے قرار ہے، بڑا اضطرار ہے۔
مایوس ہوکر بولی۔ ‘‘میں جانتی ہوں تمہارے لئے یہ کام مشکل ہے۔ غلطی کی ، تمہیں اس مشکل میں ڈالنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ کچھ تم خود ہی غیر ذمہ دار ہو۔ کچھ دادی اماں نے ہمیشہ ہتھیلی کا چھالا بناکر رکھا، کبھی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی۔’’
یہ کہہ کر خاموش ہوئی ، پنبہ درگوش ہوئی۔
زلیخا کی زبانی اپنی شان میں یہ گستاخانہ الفاظ سنے تو حسن کی غیر ت جوش میں آئی۔ اچھل کر کھڑا ہوا اور للکار کر کہا۔ ‘‘ تو تم سمجھتی ہو کہ میں کسی قابل نہیں؟ یاد رکھو کہ میں سوداگر بچہ والا تبار ہوں، ہر گز نہ غیر ذمہ دارہوں ، علوم شرافیہ و نفیسیہ میں استعداد ہے اور بندہ صاحبِ طبع وقاد ہے۔ ابھی ابھی جاتا ہوں اور کشتو ں کے پشتے لگاتا ہوں، ممانی سے دو دو ہاتھ کرکے آتا ہوں۔’’
‘‘افوہ۔’’ زلیخا نے بھنا کر کہا اور اس کا بازو پکڑ کر کھینچ کر صوفے پر بٹھا دیا۔ ‘‘بیٹھ جاؤ چپ کرکے، زیادہ ہائپر ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماما اس وقت ابا سے جھگڑا کررہی ہیں۔ تم کیا کشتوں کے پشتے لگاؤگے، الٹا ماما تمہیں پھڑکا دیں گی۔’’
حسن نے پرعزم ہوکر کہا۔ ‘‘وہ پھڑکا ئیں یا اڑائیں، بندہ ڈٹا کھڑا رہے گا، ذرا بھی اس معرکہء کشت وخوں سے نہ ڈرے گا۔’’
‘‘یا میرے مولا ،کی پے گیا رولا۔’’ زلیخا نے سرتھام کر کہا۔ ‘‘دیکھو ہر بات کا ایک وقت اور موقع ہوتا ہے۔ ابھی ماما سے تمہارے بات کرنے کا کوئی موقع ہے نہ فائدہ۔ میں تم سے صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تم دکان جانا شروع کرو۔ آہستہ آہستہ معاملات ابا کے کنٹرول میں آنا شروع ہوجائیں تو پھر میں اور ابا ، ماما سے خود بات کرلیں گے۔ آئی سمجھ یا نہیں؟’’
حسن نے سر دمہری سے کہا۔ ‘‘ٹھیک ہے ۔ تم سمجھتی ہو کہ میں بات کرنے کے قابل نہیں، تو نہ سہی۔۔۔’’
زلیخا نے صفائی دینی چاہی۔ ‘‘ایسی کوئی بات نہیں۔’’
حسن سنی ان سنی کرکے اسی سرد مہری سے کہتا رہا۔ ‘‘تمہارا خیال ہے کہ مجہول میرا کلام ہے، تو بس اب مجھے بھی سکوت اور خاموشی سے کام ہے۔ متانت و سنجیدگی اپنا شعار ہے، یا وہ گوئی سے کیا سروکار ہے؟’’
یہ کہہ کر اپنا سکرپٹ اٹھایا اور چہرے کے سامنے کیا اور پڑھنے میں مصروف ہوا۔
زلیخا پیشمانی اور شرمندگی سے انگلیاں مروڑتی رہی۔ پھر آہستہ سے بولی۔ ‘‘آئم سوری میرا یہ مطلب نہیں تھا۔’’
یہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا، سکرپٹ حسن کے چہرے کے سامنے سے ہٹایا اور آہستہ سے بولی ۔ ‘‘ایسی بات نہیں کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں۔ بھروسہ نہ ہوتا تو دکان کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کو کیوں کہتی؟ اٹس جسٹ دیٹ ۔۔۔ حسن۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ تم ماما کے ہاتھوں بے عزت ہو۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔’’
زلیخا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے سرجھکالیا اور اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔
حس کے دل پر بہت اثر ہوا۔ شفقت سے بولا۔ ‘‘اگر تمہاری اور ماموں کی خاطر بے عزتی برداشت کرنی پڑی تو کون سی بڑی بات ہے؟ میں تو تمہاری خاطر جو بھی کروں کم ہے۔ آخر تمہارے سو ا میرا ہے ہی کون؟’’
زلیخا نے سراٹھا کر اسے دیکھا۔ آنسوؤں کے ساتھ اس کی آنکھوں میں کچھ دیپک بھی جلتے تھے۔ حسن اسے دیکھے گیا۔ زلیخا نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا اور آہستہ سے بولی۔ ‘‘اور کرن؟’’
حسن چونکا اور کہا۔ ‘‘ہاں ہاں کرن بھی تو ہے۔ اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ ہے، نکاح کا وعدہ ہے۔’’
زلیخا خاموش ہوگئی۔ پھر دھیمے لہجے میں بولی۔ ‘‘تم اس سے نکاح ضرور کرو۔ لیکن حسن پلیز میری ایک بات مانو ، اب اس سے ملنے نہ جانا۔’’
حسن سمجھ گیا کہ زلیخا اس کی ٹانگ ٹوٹنے سے پریشان ہے۔ تسلی دیتے ہوئے بولا۔ ‘‘تم فکر نہ کرو۔ ارحم الراحمین کرم فرمائے گا۔ ہر بلا سے بچائے گا۔ کرن کا والدِ نامعقول بال تک بیکا نہ کرنے پائے گا۔’’
زلیخا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ‘‘مجھے کرن کے باپ سے نہیں، خود کرن سے خطرہ ہے۔’’
حسن حیران ہوا۔ بولا۔ ‘‘کرن سے کیا خطرہ؟’’
زلیخا پہلے تو خاموش ہوگئی، پھر تامل سے بولی۔ ‘‘وہ تمہیں پھنسا دے گی۔’’
حسن نے ناسمجھی سے کہا۔ ‘‘کس چیز میں؟’’
زلیخا نے نظریں چرا کر کہا۔ ‘‘ابھی تو یہ امید ہے کہ کسی دن تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم اس ارادے سے باز آجاؤگے۔ لیکن اگر یہ ملنا ملانا جاری رہا تو تم بری طرح پھنس جاؤگے۔ پھر تمہارے پاس اسے اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔’’
حسن یوں زلیخا کو دیکھتا رہا جیسے زلیخا کا دماغ چل گیا ہو اور وہ حیرت اور بے یقینی سے اسے دیکھتا ہو۔
اس کی نظروں سے تنگ آکر زلیخا بولی۔ ‘‘دیکھو حسن سمجھنے کی کوشش کرو۔ کوئی شریف لڑکی کسی غیر مرد کو آدھی رات کو اپنے کمرے میں نہیں بلواتی۔ اور اگر بلواتی ہے تو۔۔۔’’
حسن نے بات کاٹ کر کہا۔ ‘‘زلیخا ! عاشقی معشوقی اور شرافت کا آپس میں کیا تعلق؟’’
زلیخا چند لمحے کے لئے خاموش ہوکر حسن کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پھر سرہلاکر بولی۔ ‘‘ویل سیڈ۔ واقعی عاشقی معشوقی اور شرافت کا آپس میں کیا تعلق؟’’
یہ کہہ کر ایک گہرا سانس لیا اور اٹھ کر چلی گئی۔ حسن ناسمجھی سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔
٭……٭……٭