زلیخا کی تشخیص درست ثابت ہوئی۔ ہسپتال جاکر حسن کو جادو کے ایک میز پر لٹایا، کچھ منتر پڑھ کر جھماکہ سا چلا یا اور ایک سیاہ پتری پر حسن کی ٹانگ کی ہڈی کی تصویر ہو بہو نقش ہوگئی۔ حسن کو بہت تعجب ہوا لیکن زلیخا بالکل حیران نہ ہوئی۔ پتری دیکھ کر بولی ۔ ‘‘دیکھا میں نے کہا تھا فریکچر ہے۔ ایکس رے میں بھی یہی آیا ہے۔ فکر نہ کرو ڈاکٹر پلستر کردے گا ، ہفتے دس دن میں ٹھیک ہوجاؤگے۔’’
یہ سن کر حسن خوش خوش گھر کو آیا اور یہ خوشی اس وقت دوچند ہوگئی جب محبوبہ یوسف لقا، گلگوں قبا کا فون آیا۔ اگرچہ حسن اس کا فون آتا دیکھ کر بہت مسرور ہوا لیکن ابھی کل کی چوٹ تازہ تھی، اور کرن کے باپ کی حرکاتِ وحشیانہ سے دل میں برہمی پائی جاتی تھی۔
چنانچہ فون اٹھایا اور یوں زبانِ شکوہ سنجی دراز اور در شکایت باز کیا کہ: ‘‘اے خاتونِ گلغدار و طرحدار، تمہارے والد ِبزرگوار نے جو ظلم مجھ پر ڈھایا ہے اور مصیبت کا آسمان گرایا ہے، ا سکی داد روزِ جزا خدادے گا اور میرا بدلہ لے گا۔روزِ حشر فرشتے گواہی دیں گے اور ظلم کا حال کہیں گے۔’’
کرن کے کان پر حسن کے اس واویلے سے جوں تک نہ رینگی۔ لاپروائی سے بولی۔ ‘‘اوہو ایک تو آپ ہر بات کو بہت سیریس لے لیتے ہیں۔ ایسے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہی ہے۔’’
حسن نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ ‘‘ٹھیک کہتی ہو۔ عاشقی صبر کا نام ہے، عاشق کو سکون سے کیا کام ہے؟ اس عشق کی بدولت کل میں نے تمہارے سفاک و سنگدل باپ کے طمانچے کھائے ہیں، انواع و اقسام کے صدمے اٹھائے ہیں۔’’
کرن نے ڈانٹ کر کہا۔ ‘‘آپ نے بھی کچھ کم نہیں کیا۔ ڈیڈی کے دو دانت توڑ دیئے۔ صبح سے ڈینٹسٹ کے پاس بیٹھے ہیں بے چارے۔ کیا ضرورت تھی ایسا زور کا مکا مارنے کی؟ بھلا کوئی بڑوں پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔’’
یہ سن کر حسن گھبرایا، اپنے کئے پر پچھتایا، دل ہی دل میں شرمایا۔ پھر یاد آیا کہ ڈیڈی بدبخت نے بھی جان لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، داہنی ٹانگ اُسی نے توڑی تھی۔
یہ سوچ کر کرن سے کہا۔ ‘‘تمہارے والد بزرگوار نے مجھے دوسری منزل سے نیچے پٹخ دیا۔ ٹانگ ٹوٹ گئی، لنگڑا ہوگیا۔ صبح سے ہسپتال میں پھرتا ہوں، سر دھنتا ہوں تنکے چنتا ہوں۔’’
کرن پریشان ہوکر بولی ۔ ‘‘ہائے اللہ ٹانگ ٹوٹ گئی؟ کیا کہتے ہیں ڈاکٹر؟ جڑ تو جائے گی نا؟ ہائے اللہ میری فرینڈز کیا کہیں گی کرن کا شوہر لنگڑا ہے۔ نہیں نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔’’
اس کی فکر دیکھ کر حسن دل ہی دل میں خوش ہوا اور اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘گھبراؤ نہیں، ٹانگ کی ہڈی میں بال آگیا ہے۔ خیر با شد ،ٹانگ میں بال آئے تو آئے دل میں نہیں آنا چاہیے۔ کل اتفاق سے مجھے غیظ آیا۔ غصہ حرام ہوتا ہے، اس کا برا انجام ہوتا ہے۔ مگر مشیت ِایزدی میں انسان مجبور ہے، تقدیر کا لکھا آدمی مٹاسکے، یہ عقل ِ سلیم سے بہت دور ہے۔’’
کرن نے اکتا کر کہا۔ ‘‘مجھے صرف اتنا بتائیں کہ آپ کے ماڈلنگ اور ایکٹنگ کیرئیر کوتو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا؟ ڈرامے سے نکال تو نہیں دیں گے اب آپ کو؟’’
حسن سوچ میں پڑگیا ، پھر کہا۔ ‘‘یہ تو میں نہیں جانتا۔ انہیں فون کرکے پوچھوں گا۔’’
کرن نے سرد مہری سے کہا۔ ‘‘آپ فون کرکے پوچھ لیں، پھر مجھے بتادیجئے گا۔ ابھی تو مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ کہیں ڈیڈی نے آپ کو پہچان تو نہیں لیا۔ اگر پہچان لیا ہوا تو وہ کبھی میری شادی آپ سے نہیں کریں گے اور یہ سب آپ کا قصور ہوگا۔’’ یہ کہہ کر سسکی بھری اور فون بند کردیا۔
بے چارہ حسن حیران پریشان، اپنی ٹوٹی ٹانگ اور ٹوٹا دل لئے بیٹھا رہ گیا۔
حسن نے شہریار نظیر کو فون کیا اور اسے بتایا کہ ٹانگ کی ہڈی میں بال آگیا ہے۔ پہلے تو وہ کچھ سمجھ نہ سکا اور حیران ہوا کہ ہڈی میں بال کیونکر آسکتا ہے؟
کہنے لگا ، ‘‘ ہمارے تو سر پہ موجود بال بھی گر رہے ہیں اور تمہاری ہڈیوں پہ بال آرہے ہیں ، کمال ہے۔’’
حسن نے سمجھایا : ‘‘ وہ بال نہیں جو سر پر اگے ہوتے ہیں۔ یہ ویسا بال ہے جو ٹھیس لگنے سے آئینے میں آتا ہے یا دل میں۔’’
یہ سن کر شہریار نظیر عش عش کرنے لگا، سرد ھننے لگا، کہا ۔ ‘‘واہ واہ ! کیا ڈائیلاگ ہے یار۔ میں رائٹر کو کہتا ہوں تمہیں فون کرے اور تم سے پوچھ کر یہ ڈائیلاگ لکھے۔ ایک سین ہے ہمارے پاس جس میں نواب جنگ میں زخمی ہوجاتا ہے اور ہیروئن کے گھر جا پہنچتا ہے۔ اس سین میں فٹ ہوجائے گا یہ ڈائیلاگ۔ بلکہ ہم یہ سین پہلے شوٹ کرلیتے ہیں۔ تمہیں کچھ نہیں کرنا ہوگا، بس بستر پر لیٹے لیٹے ڈائیلاگ بولنے ہوں گے۔’’ حسن بہت خوش ہوا اطمینان ہوگیا کہ اسبابِ روزگار میں خلل واقع نہ ہوگا۔
شہریار نظیر نے مزید مژدہ سنایا کہ ناٹک کھیلنے کا کام پورے دس دن بعد شروع ہوگیا۔ا س اثناء میں حسن آرام کرے اور ناٹک کی کہانی پڑھے اور اپنے جملوں کو از بر کرلے۔ حسن نے وعدہ کیا۔ خوب محنت کرنے کا ارادہ کیا۔
٭……٭……٭