الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶

کرے کہ پدرِ باوقار نے تیوری چڑھائی اور ایسی ایسی نادر و نایاب گالیاں دینی شروع کیں کہ پہلے کبھی سننے میں نہ آئی ہوں گی۔
حسن بدر الدین نے جو یہ گفتگو ئے نامناسب سنی تو تاب نہ لایا، نائرہ غضب کانونِ سینہ میں مشتعل ہوا اور گرج کر بولا۔ ‘‘اے یا وہ گو انسان ! زبان کو لگام دے۔ اگر تیری لڑکی کا خیالنہ ہوتا تو اسی دم تہہ تیغ کرتا، قتل بے دریغ کرتا، لے بس اب خاموش ہوجا، ورنہ بڑی سزا پائے گا، مفت میں پچھتائے گا۔’’
گالیاں دینے سے کرن کے باپ کا خون مناسب حد تک گرم ہوگیا تھا اور جان تازہ پائی تھی۔ دل میں مارپیٹ کی تمنا عود کر آئی تھی۔ لہٰذا چکراتے سر اور اُدماتی نظر کو یکسو کیا اور حسن پر جھپٹا۔ حسن نے جو اسے یوں مانند شیر ژیاں آتے دیکھا تودل میں سوچا۔ ‘‘یہ مرد نامعقول ہے، اس سے لڑنا فضول ہے۔ تنومند ، دیوہیکل، قوی چوں ہے۔ میں ہاتھاپائی میں اس سے جیت نہ پاؤں گا، ضرور پٹخنی کھاؤں گا۔’’
بھاگنے کا ارادہ کرکے پیچھے دیکھا تو کھڑکی بند پائی ، سامنے دیکھا تو پدرِ نامعقول کی صورت نظر آئی، اوربجز اس کے کوئی صورت نہ پائی کہ بھاگ کر پلنگ کے نیچے گھس جائے ۔ چنانچہ یہی کیا۔ پلنگ کے نیچے گھس کر دم سادھ کر پڑا رہا۔کرن کا باپ غصے سے پلنگ کی دوسری طرف سے جھپٹا، بستر کی چادر اٹھائی اور حسن کے پکڑنے کو بانہہ بڑھائی ۔
حسن نے جھکائی دے کر خود کو بچایا اور دل میں سوچا۔ ‘‘معشوق کے باپ سے نہ لڑنا چاہیے، محبت سے رام کرنا چاہیے ۔’’
یہ سوچ کر بصد احترام بولا، یوں لبوں سے قندگھولاکہ۔ ‘‘اے شیخِ لائق صد احترام، میں سودا گر بچہ بلند ارادہ، ایک مردِ ذی وقار کا نور عین ہوں، خاندانِ تاجراں کا زیب وزین ہوں۔ مجھے نہ قصدِ لالچ نہ خیالِ پیکار ہے، مجھ سے خوامخواہ لڑنا بے کار ہے۔ تم خود ہی دل میں غور کرو کہ مجھ سے بہتر داماد کہاں پاؤگے؟ ایسا سوداگر بچہ رعنا شمائل و زیبا خصائل کہاں سے لاؤگے؟’’
اس تقریر ِدلپذیر کے بیچ میں وہ پدرِ ناشاد مسلسل جھپٹتا تھا اور ہاتھ مارتا تھا کہ کسی طرح حسن ہاتھ آئے تو اسے مزا چکھائے۔ گوکہ حسن نے اس سے بچنے کے لئے خود کو پلنگ کے دوسرے کنارے تک پہنچایا لیکن پھر بھی بچ نہ پایا، کرن کا باپ اسی کنارے پر آیا اور حسن کو گردن سے پکڑ کر باہر گھسیٹ لیا۔
حسن گھبرایا، دل میں سوچا ۔ ‘‘یہ کوئی بُری فال ہے، یہ کیا حال ہے؟’’
حسن کا خیال سچ ہوا، بدقسمتی اور شومئی طالع نے اسے ستایا اور شیطان نے کرن کے باپ کو ایسا ورغلایا کہ وہ حسن کے سینے پر چڑھ کر سوار ہوا اور اس کا گلا دبانے لگا۔
حسن بدر الدین یوں تو نازو نعم کا پلا تھا مگر تھا تو شیر مرد۔ اس مردِ نامعقول کو جو جان کے درپے دیکھا تو جی میں آئی کہ اس بدتمیزی اور حملہ ء سخت کا بدلہ لے۔ یہ سوچ کر شرافت کو ایک طرفرکھا اور ایک گھونسا اس زور سے اس کے جبڑے پر جمایا کہ سامنے کے دونوں دانت خیرباد کہہ کر سدھارے۔ ٹھوڑی لہولہان ہوگئی، ہوش و حواس باختہ، بند زبان ہوگئی۔ چکرا کر پیچھے گرا۔
حسن نے دھکیل کر اسے خود پر سے اتارا اور کھڑکی کی طرف بھاگا۔ بھاگ کر کھڑکی کھولی اور قدم باہر نکالا کہ درخت پر چڑھے اور شاخوں شاخوں ہوتا ہوا نیچے اتر جائے۔ درخت پر چھلانگ لگانے سے پہلے مڑ کر جو ایک نظر ڈالی تو دیکھا کہ کرن قالین پر پڑی ہے اور آنکھوں کی جھری کھولے، کن اکھیوں سے سب کچھ دیکھتی ہے۔ حسن کو دیکھتے پایا تو جھٹ آنکھیں بند کرلیں اور پھر سے بے ہوش ہوگئی۔
حسن بے حد حیران ہوا۔ دل میں سوچا۔ ‘‘یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ اس کارروائی سے کیا مراد ہے؟ آفت کی پرکالہ یہ پری زاد ہے۔’’
ابھی اسی گومگو کے عالم میں تھا کہ اس پری زاد کا باپ دیوزاد اٹھ کر ڈکرایا اور حسن کو پکڑنے کے ارادے سے اندھوں کی طرح بھاگتا آیا اور حسن سے اس زور سے ٹکرایا کہ حسن صاحب دوسری منزل سے اڑا اڑا دھم زمین پر آگرے۔
حسن کا زمین پر گرنا گویا اشارہ ہوا اور کرن کے دیوزاد کتے نے اس زور سے بھونکنا اور غل مچانا شروع کیا گویا قیامت آگئی ہے اور صور پھونکنے کے بجائے اس کے بھونکنے سے خلقت جلائی جائے گی، اسی کی پکار سے اٹھائی جائے گی۔ دوسری منزل سے گرنے کے صدمہء دلدوز کے سبب حسن کی جان ہوا ہوئی تھی، اب کتے کی آواز سنی تو روح بھی فنا ہوگئی۔ تیزی سے اٹھا کہ بھاگ کر جان بچائے تو ٹانگ میں اس زور کی ٹیس اٹھی کہ معلوم ہوا بس اب جان چکی جاتی ہے۔ سمجھ گیا کہ ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ یہ صدمہ جانکاہ کیا کم تھا کہ کرن کے پدرِ نامعقول کے گرجنے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا بندوق لے کر آتا ہے، جان لئے بنانہ جاتا ہے۔
حسن کا رنگ فق ہوگیا، کلیجہ شق ہوگیا۔حالت زار ، دل بے قرار، ایک طرف معشوق کا کتا، دوسری طرف اس کا پدربزرگوار، اور ٹانگ کا یہ عالم کہ ٹوٹی ہوئی ، بے کار۔
حسن بدر الدین مظلوم، ستم رسیدہ، دلخوروجورِ فلک دیدہ ، جناب باری سے فریاد کناں ہوا اور یوں مدد کا جویا ہوا کہ اے باری تعالیٰ میری مدد فرما، ظالم کے ظلم سے مظلوم کو بچا۔
خیال تھا کہ اس فریاد دلدوز کے بعد کوئی فرشتہ آئے گا، صاف بچالے جائے گا۔اور کچھ نہیں تو خواجہ خضر نمودار ہوں گے، کشتوں کے پشتے لگا دیں گے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔نہ تو کوئی فرشتہ آیا، نہ خواجہ خضر نے جلوہ دکھایا۔ ناچار خود ہی اپنی ٹوٹی ٹانگ گھسیٹ کر کھڑا ہوا۔ گوکہ چوٹ بھاری تھی مگر جان بہت پیاری تھی، لہٰذا گھسیٹتا، رپٹتا ، لڑکھڑاتا، لنگڑاتا کسی نہ کسی طرح پھاٹک سے نکل گیا۔
سب جگہ سے ہارے تو چلے نان پارے۔
حسن بدر الدین صاحب بھی دل میں لاکھوں حسرتیں اور ارمانوں کا خون لئے سیدھے زلیخا کے پاس جاپہنچے۔ رنج و الم سے دل بیٹھا جاتا تھا۔ ٹانگ کے درد سے چین نہیں آتا تھا۔ زندگی وبال، برا حال تھا، اس سانحہ حسرت آمیز سے سخت ملال تھا۔
زلیخا بے چاری میز پر بکھرے کاغذوں پر سر رکھے سو رہی تھی۔ حسن جاکر دھم سے کرسی پر بیٹھ گیا اور ہائے ہائے کرنے لگا۔ اس کی آہٹ سے زلیخا ہڑبڑا کر جاگ اٹھی اور آنکھیں پھاڑ کر بولی۔ ‘‘صبح ہوگئی؟’’
پھر اردگرد نظر ڈالی، خود کو کاغذوں کے درمیان گھرا پایا تو سمجھ گئی کہ کہاں ہے اور کیا وقت ہوا ہے۔ آنکھیں ملتے ہوئے بولی۔ ‘‘سوری! میری آنکھ لگ گئی تھی۔’’
پھر حسن پر نظر پڑی تو دیکھا کہ کرسی پر پڑا آہیں بھرتا ہے۔ رنگ زرد ، دل سرد، جنوں میں عالم تیرہ و تار ، صید غم ادبار ، کپڑے چاک ، آ غشتۂ خاک ۔ حالت جنوں میں انواع و اقسام کے رنج سہتاہے، سر دھنتا ہے، تنکے چنتا ہے۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر از بس پریشان ہوئی اور گھبرا کر چلائی ۔ ‘‘ہائے اللہ یہ تمہیں کیا ہوا؟’’
زلیخا کو جو ہمدرد پایا تو حسن کا دل بھر آیا۔ تمام حال راست راست کہہ سنایا، کچھ نہ چھپایا۔
زلیخاپہلے تو خاموشی سے سنتی رہی، آخر برداشت نہ کرسکی اور منہ پر ہاتھ رکھ کرہنسنے لگی۔
حسن بہت خفا ہوا، ناراض ہوکر بولا۔ ‘‘اے زلیخا ،میں نے تم پر حالِ مصیبت آشکار کیا، غم و الم کا اظہار کیا اور تم مجھ پر ہنستی ہو؟’’
اس نے بصد مشکل اپنی ہنسی روکی اور بولی۔ ‘‘نہیں، تم پر نہیں ہنستی۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ تم بچ کر آگئے۔ کسی بڑی مصیبت میں نہیں پڑے۔’’
حسن خفا ہوکر بولا: ‘‘اس سے بڑی کیا مصیبت ہوگی کہ ٹانگ ٹوٹ گئی، لنگڑ دین ہوگئے۔’’
زلیخا پر پھر سے ہنسی کا دورہ پڑا، بمشکل بولی ۔ ‘‘اچھا مسٹر لنگڑدین ذر ادکھاؤ اپنی ٹانگ ، میں دیکھوں کتنا ڈیمیج ہوا ہے۔’’
حسن نے پائنچہ اوپر کیا اور ٹانگ زلیخا کے آگے کی۔ زلیخا ٹانگ کے معائنے میں مصروف ہوئی، حسن اپنی داستان غم کہتا رہا۔ ‘‘کیسی بدقسمتی ہے کہ یارجانی کی صورت بھی اچھی طرح دیکھنے نہ پایا تھا، حالِ دل ابھی نہ سنایا تھا کہ اس کے غنڈہ نما باپ نے صورت دکھائی، اس پلید کو موت بھی نہ آئی۔’’
زلیخاکے ہاتھ سے حسن کی ٹانگ چھوٹ گئی اور اس قدر ہنسی کہ آنکھوں میں پانی آگیا۔
آخر ہنسی کا دورہ تھما تو آنسو پونچھ کر بولی ۔ ‘‘تم شکر کرو کہ اس نے تمہیں گولی نہیں مار دی۔ ورنہ وہیں مر کھپ جاتے۔ یہ بھی شکر کرو کہ اس نے پولیس کو کال نہیں کردی۔ تمہیں جیل ہوجاتی تو تمہاری یارجانی نے تو صاف مکر جانا تھا کہ وہ تو تمہیں جانتی ہی نہیں۔’’
یہ سن کر حسن ازبس پریشاں ہوا، سوچ و فکر میں غلطاں ہوا۔
زلیخا پھر سے ٹانگ کی طرف متوجہ ہوئی اور بولی ۔ ‘‘ہڈی تو ٹوٹی ہوئی نہیں لگتی، لیکن swellingہے ۔ لگتا ہے فریکچر ہوگیا ہے ۔ابھی میں اس پرپٹی باندھ دیتی ہوں ، کل ہسپتال لے چلوں گی تمہیں۔’’
یہ کہہ کر اٹھی اور کہیں سے ایک کٹی ہوئی جراب نما کوئی چیز لے آئی۔ واپس آکر حسن کی ٹانگ سامنے والی کرسی پر رکھی اور اس پر یہ کپڑا چڑھانے لگی۔
حسن نے پوچھا۔ ‘‘یہ کیا ہے؟’’
وہ بولی ۔ ‘‘compression bandage ۔دادی اماں کے لئے لی تھی، آج تمہارے کام آگئی۔’’
کچھ دیر خاموشی رہی۔ زلیخا خاموشی سے پٹی چڑھاتی رہی، حسن اپنی سوچوں میں گم رہا ۔
آخر زلیخا نے نظریں پٹی پر جمائے جمائے کہا۔ ‘‘ویسے اس واقعے سے تمہاری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ تمہیں اندازہ ہوجانا چاہیے کہ وہ لڑکی۔۔۔’’
حسن نے اپنی سوچوں سے باہر آکر ایک ٹھنڈ ا سانس لیا اور کہا۔ ‘‘ٹھیک کہتی ہو زلیخا۔’’
زلیخا کے پٹی چڑھاتے ہاتھ یکدم رک گئے۔ اس نے نظریں اٹھا کر حسن کو دیکھا۔
حسن کہتا رہا۔ ‘‘بے شک یہ ایک قصہ افسوسناک ہے لیکن باری تعالیٰ نے کرم کیا کہ جان بچائی اور میں بچ کر نکل آیا۔ وہیں رہ جاتا تو خدا جانے کس کس مصیبت سے دوچار ہوتا، قتل ناچار ہوتا۔ خدا کو اچھا ہی منظو ر تھا کہ کھڑکی سے گرپڑا ورنہ معاذ اللہ ! واللہ اعلم کیا روزِ بدیکھنے میں آتا ، کسی تباہی میں پڑجاتا۔ وہ تو کہیے ٹانگ ہی گئی ورنہ جان کے لالے پڑتے ،لینے کے دینے پڑتے۔ آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ، کبھی توکرن سے ملاقات ہوگی ۔ یار زندہ صحبت باقی۔’’
زلیخا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ پھیکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر آئی اوروہ خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر بعدبولی۔ ‘‘لو تمہاری پٹی ہوگئی۔ اب درد کم ہوگا۔’’
یہ کہہ کر نرمی سے ہاتھ اس جگہ پر پھیرا جہاں درد تھا، حسن کو یوں لگا جیسے کسی نے سارا درد کھینچ لیا ۔ جیسے کسی آغوشِ مہربان نے اس کے دکھتے جسم کو ، اس کے غم رسیدہ دل کو اور اس کی زخمی روح کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔
اس نے حیران ہوکر زلیخا کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ زلیخا کی آنکھوں میں اسے جو کچھ نظر آیا۔ اس نے اسے چونکا دیا۔ ابھی وہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ زلیخا نے نظریں جھکالیں اور اٹھ کر چلی گئی۔ حسن ناسمجھی کے عالم میں اس دروازے کو تکتا رہا جس سے نکل کر وہ گئی تھی۔ پھر اس نے احتیاط سے اپنی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا۔ درد واقعی نہیں تھا۔ اس کے سارے درد زلیخا اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

موت کا جزیرہ

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!