الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۶
سارہ قیوم
سترہویں رات
شہریار فریدوں کمر، سنجر فر کو بڑا شوق اور انتہا کا ذوق تھا کہ حسن بدر الدین، صاحب ِ جمال اور اس کی محبوبہ ٔ زہرہ تمثال کا کیا حال ہوا۔ عیش و عشرت نصیب ہوئی یا خدانخواستہ مرغِ دل صیدِ تیر اندوہ و ملال ہوا۔ شہر زاد کو حکم دیا کہ اس قصے کا باقی حصہ جلد سناؤ، دیر نہ لگاؤ ۔
شہر زاد عندلیب گفتار یوں نغمہ طراز ہوئی، بہ صد دلربائی عرض پرداز ہوئی کہ جب حسن بدر الدین نے کرن کے دریچے میں پہنچ کر کھڑکی پر دستک دی تو کرن نے لپک کر کھڑکی کھولی اور حسن نے خود کو اندر پہنچایا، اور جب خود کو محبوبہء رشکِ قمر کے خلوت کدے میں پایا تو جامے میں پھولا نہ سمایا۔ جنابِ باری کا شکربجالایا۔ اب جو کرن قریب آئی تو خدا کی خدائی مجسم نظر آئی۔ پہلے تو چودھویں کے چاند کا دھوکہ ہوا۔ پھر اور قریب آئی اور پاس سے چہرہ ء زیبا کی جھلک دکھائی تو یقین ہوگیا کہ پرستان کی پری ہے یا مہرِ خوبروئی کی جلوہ گستری ہے۔
وہ مکھڑا جسے دیکھ ماہ داغ کھائے
وہ نقشہ کہ تصویر کو حیرت آئے
ادھر حسن تو اس زنکہ خوش جمال کو دیکھ کر عش عش کرتا تھا اور ادھر کرن کا یہ حال کہ،
یہ شوق، یہ ارمان، یہ حسرت، یہ تمنا
کیا ہو مرے قابو میں تم آجاؤ اگر آج
حسن نے بہ صد شوق و اشتیاق کہا ۔ ‘‘اے جانِ جہاں، رشکِ سرو گلزار جناں تم نے آج مجھے نئی زندگی دی ورنہ جینے سے بیزار تھا، مصیبت سے دورچار تھا۔ سمجھا تھا کہ زندگی بیکار گئی۔ مگر تمہیں پایا تو جان میں جان آئی، منہ مانگی مراد پائی، تمنائے دلی ہزاروں حسرتوں اور ناامیدی کے بعد برآئی۔’’
حسن کی زبانی اس کی بے تابی کا یہ حال سن کر کرن کھلکھلائی ، بہ صد ناز و انداز اٹھلائی اور دلربائی سے بولی۔ ‘‘میں تو خود بڑی اپ سیٹ تھی، سوچتی تھی ہائے حسن بھائی تو اب سٹار بن گئے ہیں، بڑے آدمی ہوگئے ہیں، اب ہمیں کہاں لفٹ کرائیں گے؟’’
حسن سمجھ گیا کہ کیا کہتی ہے، پیار سے بولا۔ ‘‘جانی ! ہمت کیوں ہاری ہو؟ ہم تمہارے تم ہماری ہو۔’’
یہ کہہ کر ہاتھ تھام لیا اور جھک کر ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا۔
کرن نے ٹھنک کر ناز سے کہا۔ ‘‘اتنے رشتے آرہے ہیں میرے۔ مجھے تو فکر ہے ڈیڈی کہیں میری بات نہ طے کردیں۔’’ یہ کہہ منہ بسورا اور معصومیت سے بولی: ‘‘لیکن میں آپ کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کروں گی، بتارہی ہوں، ہاں۔’’
یہ معصومیت اور یہ اظہارِ رضا مندی دیکھ کر حسن کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ عنانِ صبر ہاتھ سے جاتی رہی۔ فرط ِانبساط و بہجت اور وفورِ نشاط و مسرت سے کہا۔ ‘‘اے یارِ جانی، الفت کی نشانی، میرے دل کا عجب حال ہے جینا محال ہے۔ جو محبت میرے دل میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کا مٹنا میرے دل کی فنا پر موقوف ہے۔ اب صرف عقدِ نکاح سے سروکار ہے، تم نہ ملیں تو جینا بے کار ہے۔’’
یہ کہہ کر فرطِ طرب سے آبدیدہ ہوا۔
کرن نے جو جذبات کا سیلاب امنڈتے دیکھا تو گرم لوہے پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ قریب آئی۔ اپنی نازک انگلیوں سے حسن کے آنسو پونچھے اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
اب سنئے کہ ِادھر حسن اور کرن تو باہم راز و نیاز کی باتیں کرتے تھے، عاشقی معشوقی کی گھاتیں کرتے تھے، اُدھر کرن کے والد بزرگوار سیڑھیاں چڑھتے تھے۔
ہوا یوں کہ کرن نے نیند کی دوا دودھ میں ملا کر باپ کو پلائی تھی۔ خیال تھا کہ پی کر انٹاغفیل ہوگا اور صبح سے پہلے نہ اٹھے گا۔ لیکن باپ پہلوانوں کا پہلوان تھا، اور روزگارکا یہی سامان تھا کہ لڑکوں کو کسرت کرایا کرتا تھا۔ چنانچہ صبح سے لے کر شام تک وزن اٹھاتا تھا، کسرت کرتا تھا، ڈنڈ پیلتا تھا اور بیٹھکیں نکالتا تھا۔ دن رات یہی کام تھا، مشٹنڈوں میں نام تھا۔ نتیجہ اس ساری ورزش کا یہ نکلا تھا کہ خوب تنومند، مضبوط جسم، قوی اور صحت مند ہوگیا تھا اور حواس اور اعصاب فولادی ہو چکے تھے۔ اب کرن نے جو نیند کی دوا دودھ میں ملا کر پلائی تو اس کا بجزاس کے کوئی اثر نہ ہوا کہ ابخرے سے دماغ کی طرف متصاعہ ہوئے، چکر آنے لگے اور سر میں درد ہوگیا۔ پہلے تو لیٹا کروٹ پہ کروٹ بدلتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ سر درد ٹھیک ہوجائے تو سوجائے، مگر جب افاقہ نہ ہو اتو اٹھ کر سر درد کی دو ا ڈھونڈ نا شروع کی۔ گھر میں رکھی چیزوں کا اسے کچھ خاص علم نہ تھا۔ بیوی مرچکی تھی، اب سب کچھ بیٹی کے ہاتھ میں تھا۔ سمجھتا تھا کہ بیٹی سوچکی ہوگی۔ اس لئے خود ہی ڈھونڈ ھتا رہا۔
دوا تو نہ ملی البتہ اوپرکی منزل سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی چیز گری ہو یا جیسے کسی نے زور سے شیشہ کھٹکھٹایا ہو۔ بہت کوفت ہوئی، پھر دل میں سوچا اس آواز کا مطلب ہے کرن جاگ رہی ہے۔ جاکر اس سے حال کہتا ہوں ۔یقینا وہ سر درد کا کوئی علاج کرے گی، سعادت مند بیٹیوں میں نام کرے گی۔
یہ سوچ کر یہ پدر ِناشاد و نامراد اپنا چکراتا سر لئے اوپر کرن کے کمرے کو چلا۔ ادھر کرن نے حسن بدر الدین کی گردن میں بازو ڈالے تھے اور حسن نے بھی نازک کمر کو بانہوں میں لیا تھا اور قریب تھا کہ فرطِ عشق سے پھول سے رخسار کا بوسہ لے کہ دروازے کے باہر قدموں کی آوا ز آئی۔ کرن اچھل کر حسن سے علیحدہ ہوئی، آنکھیں پھاڑ کر سرگوشی میں بولی ۔‘‘ڈیڈی۔’’
یہ کہہ کر چھلانگ مار کر کمرے کے وسط میں بچھے قالین پر جا کھڑی ہوئی، بجلی کی سی تیزی سے دوپٹہ گلے سے نکال کر سرپر لپیٹا اور چشم زدن میں نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی حسن ہکا بکا کھڑا یہ کارروائی ملاحظہ کرہی رہا تھا کہ دروازے کی چرخی گھومی اور ایک تنومند آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ ادھر وہ کمرے میں داخل ہوا، ادھر کرن جو ابھی لمحہ بھر پہلے نیت باندھ رہی تھی، رکوع میں چلی گئی۔
اب وہ پدر ِبزرگوار تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ بیٹی سے سردرد کی دوا لے کر کھاؤں گا، پھر مزے سے آرام فرماؤں گا۔ یہاں پہنچا تو اور ہی ماجرا دیکھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ بیٹی سر پر دوپٹا لپیٹے بی بی حاجن بنی تہجد پڑھتی ہے، رکوع و سجود کرتی ہے اور کھڑکی کے پاس ایک نوجوان حواس باختہ، حیران پریشان کھڑا ہے۔ چند لمحے تو کچھ سمجھ نہ پایا کہ یہ کیا ماجرا دیکھنے میں آیا۔ پھر حواس ٹھکانے آئے اور گرج کر چلایا۔ ‘‘اوئے کون ہے تو؟’’
کرن نے باپ کی یہ گرجدار للکار سنی تو رکوع سے سراٹھا کر اوپر دیکھا ، دل پر ہاتھ رکھ کر چلائی :
‘‘چور……’’ اور پھر لہرا کر نزاکت سے قالین پر گر کربے ہوش ہوگئی۔
اب باپ یہ سمجھا کہ حسن چور ہے اور حسن یہ سمجھا کہ باپ چور ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو چشم خشم آلودہ دکھائی اور للکار لگائی۔
حسن نے للکار کرکہا۔ ‘‘او نابکار تو کون ہے؟ جن ہے یا کسی رئیس کا غلام ہے؟ چور ہے یا ڈکیتِ بے نام ہے۔’’
باپ نے چلا کر کہا۔ ‘‘اوئے سُورا کنجرا توں میری بیٹی دے کمرے اچ کی کرنا پیاں ایں؟ ’’
دونوں ہی کو سمجھ نہ آیا کہ دوسرا کیا کہتا ہے۔ لیکن جب اس نے میری بیٹی کہا تو حسن سمجھ گیا کہ کرن کا والدِ بزرگوار ہے، پدرِ باوقار ہے۔ قریب تھا کہ جھک کر سلام