‘‘ہاں بیٹا تو لے جا اسے اور تو کسی کو اس گھر میں پرواہ نہیں۔ اس کی ماں کی تو صرف ایک اولاد ہے۔ بّنا ۔ زلیخا اور منے کی تو میں ہی ماں ہوں۔ مجھے ہی دیکھنا ہے ان کا دوا دارو۔’’
حسن نے نانی کو تسلی دی اور اسی وقت بائیک نکالی، زلیخا کو پیچھے بٹھایا اور بائیک کو ہسپتال کا رستہ دکھایا۔
وہاں پہنچے تو اسی ڈاکٹر سے وقت ملا جس کا نام شکیل تھا،ایم آر آئی کا وکیل تھا۔ اس ڈاکٹر اور ایم آر آئی کی دہشت کا خیال آیا۔ اس خیال نے حسن کی جانِ ناتواں پر بڑا ستم ڈھایا۔ گڑ گڑا کر زلیخا سے کہا:
‘‘از برائے خدا مجھے معاف فرماؤ۔ اس ڈاکٹر کے غیض و غضب سے بچاؤ جو کھڑے کھڑے سوئیاں کھبودیتا ہے، گوشت میں چبھو دیتا ہے۔ اب کے مجھے دیکھے گا تو ضرور مار ڈالے گا، کارِ اجل کو نہ ٹالے گا۔’’
یہ سن کر زلیخا نے حسن کو ڈاکٹر کے کمرے کے باہر انتظار گاہ میں بٹھایا، جہاں اور بھی کئی لوگ بیٹھے تھے اور خود اندر چلی گئی۔
حسن وہاں چپکا بیٹھا رہا اور اردگرد آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دروازہ کھلا اور زلیخا باہر نکلی۔ اس کا رنگ زرد تھا۔ حسن سے نگاہیں ملائے بغیر آہستہ سے بولی:
‘‘چلو!’’
حسن اس کے ساتھ باہر آیا اور اسے بائیک پر بٹھایا۔ سارے راستے زلیخا خاموش کسی سوچ میں گم رہی۔ گھر پہنچے تو حسن نے بائیک صحن میں کھڑی کی اور زلیخا سے پوچھنا چاہا کہ ڈاکٹر نے کیا مرض تشخیص کیا ہے اور کیا علاج تجویز کیا ہے،لیکن وہ جلدی سے بائیک سے اتری اور بھاگ کر اندر چلی گئی۔
اس رات حسن اپنے بستر میں فکروں اور پریشانیوں میں غلطاں و پیچاں لیٹا تھا۔ محبوبہء نازنین کرن کی یاد آتی تھی۔ غمِ فراق سے جان نکلی جاتی تھی۔ اس کے ناراض ہوکر جانے کا سماں آنکھوں تلے پھرتا تھا تو دل کا برا حال ہوتا تھا، جینا وبال ہوتا تھا۔ آخر جوشِ جنوں سے رہ نہ سکا اور فون اٹھا کر کرن کا نمبر ملایا۔ بہت گھنٹیاں بجیں مگر اس نے فون نہ اٹھایا۔ حسن کا اور بھی حال زار ہوا، دل بے قرار ہوا۔ دل میں سوچتا تھا، اس بدگمانی کا بھلا کیا علاج ہے۔ آتشں فشاں کا سا میری معشوقہ کا مزاج ہے۔ ایسا کیا کروں کہ وہ مان جائے۔ آرزوئے دلی بر آئے۔
ابھی اس فکر میں غلطاں تھا کہ فون میں چھوٹی سی گھنٹی بجی۔ حسن نے بے تاب ہوکر فون اٹھایا۔ دیکھا تو کرن کا پیغام آیا تھا۔ محبوبہ کا پیغام ملاگویا مرتے کو شیریں آب ملا۔ حسن نے خوشی خوشی پیغام کھولا۔ لکھا تھا: ‘‘میں آئندہ آپ سے نہیں ملنا چاہتی۔ میں ایک نیک اور شریف لڑکی ہوں اور ان باتوں کو پسند نہیں کرتی ۔ویسے بھی آپ فیل ہوگئے ہیں۔ آئندہ مجھے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا ورنہ میں ڈیڈی کو بتا دوں گی۔’’
اس پیغام نے حسن بدر الدین کے ساتھ وہ کیا جو چنگیز خان اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتا تھا۔ بڑی دیر تک یہ کیفیت رہی کہ توبہ ہی بھلی۔ انواع و اقسام کے صدمے سہتا تھا اور بے حد شکستہ دل، پریشان حال، ستم زدہ اور الم رسیدہ تھا۔
بڑی دیر اسی کیفیت میں گزری۔ آخر جب غم برداشت سے باہر ہوگیا تو حسن بستر سے اٹھا اور باہر کواس ارادہ سے چلا کہ زلیخا کو ڈھونڈے اور اس سے اپنے رنج و الم کا حال کہے کہ اس پوری دنیا میں صرف وہی اس کی مونس وغم خوار تھی۔ غم ِ دل کی تیمار دار تھی۔
حسن نے زلیخا کو گوشہء صحنمیں بیٹھا پایا اور جب اپنی ہی فکر میں گرفتار زلیخا کے پاس آیا تو اسے چپکے چپکے روتے پایا۔ چار سو خاموشی کا راج تھا، چاندنی چھٹکی تھی اور اس گوشہ ء تنہائی میں بیٹھ کر زلیخا زار و قطار روتی تھی، اشکوں سے عارض ِگلگوں دھوتی تھی۔
حسن نے جو زلیخا کی یہ خراب و خستہ حالت دیکھی تو بے حد پریشان ہوا اور بے قراری سے پوچھا:
‘‘کیا بات ہے زلیخا۔ کیا درد زیادہ ہے؟ ممانی نے کچھ کہا ہے؟ کہیں تم بھی تو امتحان میں فیل نہیں ہوگئیں؟’’
حسن تابڑ توڑ سوال پوچھتا تھا اور زلیخا روتی جاتی تھی۔ ہر سوال پر نفی میں سر ہلائے جاتی تھی۔
آخر حسن نے بے حد متردد و مضطر ہوکر کہا:
‘‘از برائے خدا مجھے متوحش نہ کرو۔ للہ صاف صاف کہو کہ ماجرائے اصل کیا ہے اور آج خدانخواستہ کون سا ایسا واقعہ ہوا ہے کہ دل کو قابو میں نہیں پاتی ہو۔ لاکھ لاکھ آنسو بہاتی ہو؟’’
اتنا سنا تھا کہ زلیخا کی آنکھوں سے جوئے اشک اور بھی تیزی سے رواں ہوئی اور ہچکیاں لے کر بولی:
‘‘پلیز مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ leave me alone۔’’
یہ کہہ کر پھر رونا شروع کیا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر حسن نے ایک نعرہ بلند کیا اور کہا:
‘‘آخر اس گریہ و بکا کا سبب کیا ہے؟ میرے دل پر یہ نشتر کیوں چلاتی ہو، مجھے صاف صاف قصہ کیوں نہیں بتاتی ہو؟’’
جب حسن کسی طرح پوچھنے سے باز نہ آیا اور بصد اصرار بار بار پوچھتا رہا تو زلیخا سے رہا نہ گیا۔
حسن کو اپنا ہمدرد، ہم راز پا کر خود پر مزید جبر نہ کرسکی اور ہچکیاں لیتے ہوئے بولی:
‘‘آج ۔۔۔آج وہاں ہاسپٹل میں۔۔۔ ڈاکٹر شکیل نے۔۔۔’’
حسن گھبرا کر چلا اٹھا:
‘‘کیا کہااس ڈاکٹر مردِ پلید نے؟ سوئی چبھو دی، ایم آر آئی کرا دیا تمہارا؟’’
زلیخا نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا:
‘‘نہیں۔۔۔ اس نے مجھے۔۔۔ جب میں اسے چیک اپ کرانے گئی تو۔۔۔تو اس نے مجھے ۔۔۔اس نے مجھے molestکیا۔’’
اتنے میں باہرمسجدوں سے صدائے تکبیر بلند ہوئی۔ شہرزاد کی فسانہ گوئی بند ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(باقی آئندہ)