الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲

شام کی چائے کے لیے حسن کمرے سے نکلا تو باورچی خانے سے زلیخا کے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ سمجھا کہ کنیزِ بے تمیز سے باتیں کرتی ہے۔ نئے سرے سے غصہ آیا، بہت پیچ و تاب کھایا۔ دل میں ارادہ کیا کہ جا کر اس سے خطاب کرے، ناراضی سے عتاب کرے۔ مکارہ اپنے کیے کی سزا پائے، عمر بھر پچھتائے۔ یہ سوچ کر جوش میں بھرا ہوا باورچی خانے تک پہنچا توکھلے دروازے سے اندر ممانی کی صورت نظرآئی۔ گویا اجل نے شکل دکھائی۔ غیض و غضب اڑن چھو ہوگیا۔ حسن گھبرا کر وہیں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔
اندر ممانی زلیخا سے کہہ رہی تھی۔
‘‘
بنّے سے بھی بات کی ہے میں نے۔ اسے بھی ارسلان پسند ہے۔ کہہ رہا تھا یہ لڑکا ترقی کرے گا، خوب کمائے گا۔’’
زلیخا نے خفگی سے کہا۔
‘‘
بّنے بھائی کو کیا جلدی ہے میری شادی کی؟ اور وہ بھی دولت مند آدمی سے۔ بھلا کیوں؟ کوئی اپنی ہی غرض ہوگی ان کی۔’’
ممانی نے ڈانٹ کر کہا:
‘‘
ٹھیک کہتا ہے بنّا جو بھی کہتا ہے۔ غریب آدمی سے شادی کرکے میں نے کون سا سکھ پالیا جو تو پا لے گی؟’’
زلیخا نے ٹالتے ہوئے کہا:
‘‘
زندگی کا صرف ایک مقصد ہی تو نہیں ہوتا، بس شادی کرو چاہے جس سے بھی کرنی پڑے۔’’
ممانی بولیں:
‘‘
ارسلان کوئی غیر تھوڑی ہے؟ اپنے خاندان کا ہے اور مجھے تو لگتا ہے کہ یہ جو اتنا بھاگ بھاگ کر ہمارے گھر آتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ تجھے پسند کرتا ہے۔ میری بھی کتنی عزت کرتا ہے۔ پھو پھو کہتے منہ سوکھتا ہے اس کا۔’’
زلیخا ہچکچائی، آہستہ سے بولی:
‘‘
لیکن میں اسے پسند نہیں کرتی۔’’
ممانی کو یقین نہ آیا کہ اس نے جو سنا ٹھیک سنا ہے۔ بے یقینی سے بولی:
‘‘
کیا؟ یہ کیا کہہ رہی ہے؟’’
اب کے زلیخا نے مضبوط آواز میں ایک ایک لفظ واضح کرتے ہوئے کہا:
‘‘
میں ارسلان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔’’
چند لمحے خاموشی رہی۔ پھرممانی نے خطرناک لہجے میں کہا:
‘‘
یہ بات تو نے ارسلان سے بھی کہہ دی ہے؟ اس لیے وہ اتنے دن سے نہیں آیا؟’’
زلیخا خاموش ہوگئی۔ شاید گھبرا گئی یا ڈر گئی۔ حسن نے دروازے کے پیچھے چھپے چھپے اندازہ لگایا کہ زلیخا نے سر جھکا لیا ہوگا خاموش پنبہ در گوش ہوگئی ہوگی۔
اب جو ممانی کی گھن گرج شروع ہوئی تو کھڑکیاں، دروازے بھی جھنجھنا اٹھے۔ چلا کر بولی:
‘‘
بے حیا، بے غیرت تجھے ذرا شرم نہ آئی اپنے شادی کے معاملے خود طے کرتے؟ ماں باپ، بڑے بھائی کو مرا ہوا سمجھ لیا تھا تو نے؟’’
زلیخا نے منمنا کر کہا:
‘‘
ماما ،میری بات سنیں۔۔۔’’
ممانی نے طیش سے کہا:
‘‘
مرگئی تیری ماما۔ میں ہی پاگل ہوں جو مری جاتی ہوں تیری شادی کی کوشش میں۔ حلوے پکا پکا کر ٹھنساتی ہوں لوگوں کو کہ شاید ان میں سے کوئی میری موٹی کالی بیٹی کو لینے پہ راضی ہو جائے۔’’
زلیخا نے دکھ اور بے یقینی سے کہا:
‘‘
ماما!’’
لیکن ممانی کے غصے کے آگے تو کبھی ماموں کی پیش نہ چلی تھی۔ زلیخا کس کھیت کی مولی تھی۔ چلاّ کر بولی:
‘‘
سوچا تھا ڈاکٹر بن جائے گی تو کوئی اچھا رشتہ مل جائے گا۔ تو نے وہاں بھی ناک کٹوا دی فیل ہوکے۔ اب رشتوں کے معاملے میں بھی ہماری عزت اچھا ل رہی ہے۔ اچھا بھلا لڑکا ہاتھ سے گنوا دیا۔ نخرہ کس بات کا ہے تجھے؟ کیا گن ہیں تیرے اندر؟ نہ شکل نہ عقل۔’’
اب حسن سے رہا نہ گیا۔ بے اختیار ہوکر دروازے سے نکلا اور ممانی سے بولا:
‘‘
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں ممانی جان؟ تقریر کیا، شیطان کی آنت ہے، آپ کی بھی کیا بات ہے؟’’
ممانی نے طیش میں آکر کہا:
‘‘
بکواس بند کر۔تو کون ہوتا ہے ہمارے معاملوں میں بولنے والا؟ ہمارے ٹکڑوں پر پلتا ہے اور ہمیں پر بھونکتا ہے؟’’
زلیخا کا اگرچہ چہرہ دھواں دھواں تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے مگر بے اختیار ممانی کا بازو پکڑا اور بصدلجاجت بولی:
‘‘
حسن کو ایسے مت کہیں ،ماما۔’’
ممانی نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور غصے سے بولی:
‘‘
تو تو ہے ہی دادی پھوپھی کی چمچی۔ ماں کو تونے کبھی ماں سمجھا ہی نہیں۔’’
حسن نے بے اختیار کہا:
‘‘
ماں ایسی باتیں سنائے گی توکیسے بیٹی کا پیار پائے گی؟’’
ممانی نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور ڈانٹ کر بولی:
‘‘
دفع ہو جا یہاں سے۔’’
حسن نے کہا:
‘‘
چلا تو میں جاؤں گا لیکن جانے سے پہلے ایک بات سن لیجیے۔ زلیخا بد صورت نہیں ہے، لاکھوں میں ایک ہے۔ طرحدار ہے، گلعذار ہے۔ آپ دیکھنے والی آنکھ نہیں رکھتیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں کسی کے پاس جوہری کی نظر نہیں۔ ارسلان زلیخا کی جوتیوں کے قابل بھی نہیں تھا۔ اس کے لیے کوئی صاحبِ کردار و ذی حشم آئے گا۔ زلیخا کی صورت میں نعمت ِغیر مترقبہ پائے گا۔’’
ممانی نے دانت پیس کر کہا:
‘‘
اچھا تو یہ توُ ہے جس نے یہ گل کھلایا ہے۔ ایسی باتیں سکھا کر تو نے ہی اس کا دماغ خراب کیا ہے۔ تجھے اللہ پوچھے، میری بیٹی کے نصیب تو کھوٹے کر رہا ہے۔’’
یہ کہہ کر زلیخا سے مخاطب ہوئی:
‘‘
کچھ عقل کر زلیخا۔ اس ذلیل کی باتوں میں آئے گی تو آخر میں اسی کے پلے بندھے گی۔’’
یہ کہہ کر چشم خشم آلودہ سے حسن کو گھور اور باہر چلی گئی۔
ممانی کے جانے کے بعد بہت دیر تک حسن اور زلیخا چپ چاپ کھڑے رہے۔ زلیخا سر جھکائے سوچ میں گم اپنے ہاتھوں کو دیکھتی تھی اور حسن زلیخا کو دیکھتا تھا۔
آخر زلیخا نے سر اٹھایا اور چوٹ کھائے ہوئے لہجے میں آہستہ سے بولی:
‘‘
تھینک یو۔’’
حسن کو اتنی انگریزی تو آ ہی گئی تھی کہ سمجھ گیا کہ شکریہ ادا کرتی ہے۔ بولا:
‘‘
کس بات کے لیے؟’’
زلیخا نے کہا:
‘‘
تم بڑی سے بڑی بات میں بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ آج ماما کے سامنے مجھے ڈیفنڈ کرنے کے لیے تم نے جھوٹ بولنا گوارا کرلیا۔’’
حسن حیران ہوا، کہنے لگا۔
‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ خدا نے ،کہ دانندہ راز اور غیب دان و بے نیاز ہے، مجھے اس کام پر تعینات کیا ہے کہ تم کو شر آفات سے بچاؤں اور آرام تام پہنچاؤں۔ مگر کذب بیانی سے بندے کی طبیعت نفور ہے۔ جھوٹ منزلوں دور ہے۔ بھلا میں نے کیا جھوٹ بولا ہے؟’’
زلیخا نے نظر چرائی اور آہستہ سے بولی:
‘‘
یہی کہ زلیخا بدصورت نہیں اور اس کے لیے کوئی اچھا شخص آئے گا اور اسے نعمت سمجھ کر لے جائے گا۔ یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے؟’’
یہ سن کر حسن اور بھی حیران ہوا۔ از بس پریشان ہوا۔ الٹا زلیخا سے پوچھا:
‘‘
تم بتاؤ یہ سچ نہیں تو کیا ہے؟ کیا کمی ہے تم میں؟’’
زلیخا کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ زخمی لہجے میں بولی:
‘‘
سنا نہیں، ہر کوئی کیا کہتا ہے میرے بارے میں؟ نہ شکل نہ عقل، موٹی، کالی اور ڈاکٹر بھی نہ بن سکی۔’’
حسن خفگی سے بولا:
‘‘
بس بس اس فضول اور اول جلول تقریر سے باز آؤ۔ معاف فرماؤ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا ہے کہ حُسن کو یہ لوگ رنگ اور جسامت سے کیوں ناپتے ہیں؟ گلاب اگر سفید ہے تو اسے گلاب کہیں گے اور اگر کالا ہے تو کیا گلاب ماننے سے انکار کردیں گے؟ حسن تو وہ ہے جو دیکھنے والی آنکھ کو اچھا لگے۔ حسن کا کوئی ایک معیار تھوڑی ہے؟’’
زلیخا پھیکی سی ہنسی ہنس کر بولی:
‘‘
آج کل تو حسن کا یہی معیار ہے۔ چٹی چمڑی اور سائز زیرو۔’’
حسن نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ نانی افتاں و خیزاں باورچی خانے میں داخل ہوئیں اور گھبرا کر بولیں:
‘‘
اے زلیخا بچی یہ تیری ماں کیوں چیخ چلا رہی تھی؟ میں تو بہت ہی گھبرا گئی۔ جلدی جلدی سلام پھیر کر آئی ہوں۔ خیریت تو ہے؟’’
زلیخا نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اورکہا:
‘‘
خیریت ہے دادی اماں! وہی میری شادی کے مسئلے پر ناراض ہورہی تھیں۔’’
دادی خفا ہوکر بولیں:
‘‘
حد کرتی ہے پروین۔ کوئی اچھا رشتہ ملے گا تو شادی ہوگی نا؟ بیٹی کو سر سے اتار کے کندھوں پر تو نہیں بٹھانا ہمیں کہ کسی بھی ایرے غیرے کو ہاتھ تھما دیں۔’’
زلیخا بولی:
‘‘
یہی تو میں بھی کہتی ہوں۔’’
بات کرتے کرتے زلیخا نے جھک کر زمین پر گرا ہوا کپڑا اٹھانا چاہا کہ منہ سے کراہ نکل گئی اور وہ پیٹ پکڑ کر کھڑی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر حسن بہت مضطرب ہوا۔ نئے سرے سے ندامت کا شکار ہوا۔
نانی پریشان ہوکر کہنے لگیں۔
‘‘
صبح سے دیکھ رہی ہوں پیٹ درد سے بے حال ہورہی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتی؟’’
زلیخا نے آہستہ سے کہا:
‘‘
دوا لی ہے میں نے۔’’
نانی نے گھر ک کر کہا:
‘‘
تو بڑی کوئی ڈاکٹر بن گئی ہے کہ خود سے علاج کرنے لگی ہے۔’’
زلیخا نے بے بسی سے حسن کو دیکھا۔ حسن جلدی سے بولا:
‘‘
میں لے جاتا ہوں زلیخا کو ڈاکٹر پر۔’’
نانی متشکر ہوکر بولی:

Loading

Read Previous

عبادالرحمن

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!