‘‘یہ تمہارا مجھ پر احسان ہے۔ بس اب اتنا احسان اور کرو کہ کبھی کبھی خود سے ملنے کی اجازت دے دو۔ بندو اورنعیم کے ساتھ کبھی کبھی تمہارے گھر آجایا کروں گا۔ تمہیں دیکھ کر دل خوش کرلیا کروں گا۔’’
حسن نے کہا: ‘‘دل تو نہیں چاہتا ہے مگر تیری بے چارگی پر ترس آتا ہے۔ میں خود بھی کسی حسینہ کے دامِ زلف کا گرفتار ہوں۔ صیدادبار ہوں۔ جانتا ہوں کس طرح عاشق کی جان جاتی ہے۔ محبوب کو دیکھے بنا بن نہیں آتی ہے۔’’
یہ سن کر بندو چونکا اور ادھر ادھر دیکھ کر راز دارانہ انداز میں کہا:
‘‘یار ویسے بات سن! اب تیرے افیئر کا کیا بنے گا؟ تیرے فیل ہونے کی خبر سن کر وہ تجھے چھوڑ تو نہ دے گی؟’’
حسن نے حیران ہوکر کہا:
‘‘کیوں چھوڑے گی؟ عشق کا امتحان سے کیا تعلق؟’’
عاصم نے آہ بھر کر زیرِلب کہا:
‘‘عشق تو خود امتحان ہے۔’’
بندو بولا:
‘‘بہت بڑا تعلق ہے۔ تو فیل ہوگیا ہے۔ نو ڈگری مطلب نو نوکری مطلب نو پیسہ۔ شادی کے لیے شجرہء نسب بعد میں دیکھا جاتا ہے، یہ تین چیزیں پہلے دیکھی جاتی ہیں۔ـ’’
حسن یہ سن کر گھبرایا، بولا:
‘‘یہ بات میں اسے کبھی نہیں بتاؤں گا۔ جتنی جلد ہو سکا اس سے نکاح کا وعدہ لے لوں گا۔ پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ باری تعالیٰ کی ہر مصلحت پر صابر و شاکر ہوں کہ وہ کرم فرمائے گا کیوں کہ ان اللہ مع صابرین آیا ہے، خدا نے خود فرمایا ہے۔’’
اتنے میں کنیز ایک ستو ن کے پیچھے سے نکلی اور حسن سے بولی:
‘‘بھائی جان چار بج گئے ہیں۔’’
حسن گڑ بڑا کر اٹھا اور دوستوں سے کہا:
‘‘اچھا یارو! اب تم جاؤ، پھر ملیں گے گر خدا لایا۔’’ یہ کہہ کر دوستوں کو چھوڑنے پھاٹک تک آیا۔ باہر سڑک پر ایک دیوہیکل گاڑی کو کھڑا پایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس میں سے چار آدمی کود کود کر نکلے۔ لمبے تڑنگے دیوہیکل، ہاتھوں میں عجیب وضع کے ڈنڈے اٹھائے، تیوری چڑھائے، آکر عاصم کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔ حسن نے گھبرا کر پوچھا:
‘‘یہ کون لوگ ہیں؟’’
عاصم نے کندھوں پر پڑی چادر کا پلو دوسرے کندھے پر ڈالا اور تسلی دیتے ہوئے کہا:
‘‘بس یار والد صاحب ذرا میرے معاملے میں protective ہیں۔ جہاں جاتا ہوں یہ گارڈز ساتھ جاتے ہیں۔’’ پھر ان لوگوں کو جن کا نام گارڈز تھا، حکم دیا:
‘‘یہ گنز نیچے کرو اور گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔’’
الغرض سب لوگ گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہوئے اور ابھی ان کی گاڑی چلی ہی تھی کہ کرن آتی دکھائی دی۔ حسن بے حد خوش ہوا۔ آگے بڑھ کر استقبال کیا اور خوش خوش اندر لایا۔
کرن بہ صد نازودلربائی برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ گئی اور ترچھی نظر سے حسن کو دیکھ کر بولی:
‘‘میں نے سنا تھا آپ بیمار ہوگئے ہیں؟ کیا ہوا آپ کو؟’’
اس معشوقِ گلبدن کی زبانی یہ محبت بھری تقریر اس شیریں بیانی سے سنی تو حسن کا جی خوش ہوگیا، روح نہال ہوگئی۔ طبیعت چونچال ہوگئی۔ بے جھجک کرن کے پاس بازو سے بازو بھڑا کر بیٹھ گیا۔ وہ ناز سے منہ بنا کر ذرا کھسک کر پرے ہوئی تو یہ اور آگے بڑھا۔ اس نے نخرے سے اونہہ کہہ کر منہ پھیرا تو اس نے بے جھجک ہاتھ پکڑ لیا اور شوخی سے کہا:
‘‘جانِ من تمہاری شرم و حیا میرے سر آنکھوں پر مگر یہ تو فرماؤ کہ حسن و عشق کے جھگڑے میں شرم و حیا کا کیا کام؟’’
کرن نے ہاتھ چھڑانے کی ذرا کوشش نہ کی۔ الٹا اسی ہاتھ کے ناخن شرارت سے حسن کی ہتھیلی میں چبھوئے اور اٹھلا کر بولی:
‘‘پتا نہیں کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ مجھے ایسی باتیں سمجھ نہیں آتیں۔’’
حسن نے کہا:
‘‘یار جانی! میرے دل میں انواع و اقسام کے خیالات پیدا ہوئے ہیں کہ ہم اور تم بے طرح ایک دوسرے پر شیدا ہوئے ہیں۔ پس کہ لازم ہے کہ کسی اچھے دن ساعتِ سعید پر ہمارا نکاح ہو جائے کہ اب یہ جدائی از بس شاق ہوگی۔ ہماری محبت مشہور آفاق ہوگی۔’’
کرن نے ترچھی نگاہوں کا تیر حسن پر چلایا اور معصومیت سے بولی:
‘‘اتنے پروپوزلز آتے ہیں میرے کہ میں آپ کو کیا بتاؤں لیکن ڈیڈی کہتے ہیں، تم ابھی بہت چھوٹی ہو۔ ابھی تمہاری شادی کی عمر نہیں ہے، تم بس پڑھو اور لائف انجوائے کرو۔’’
حسن نے کہا:
‘‘اے پری وش، پری رو! میری تمہاری چاند سورج کی جوڑی ہے، یہ مثال بھلا تھوڑی ہے؟ میری تمہاری خوب نبھے گی، گہری چھنے گی۔ ہم دونوں شرابِ حسن میں مست، دونوں عیش پرست، دونوں حسینانِ جہاں کے سرتاج، دونوں خوش مزاج۔’’
اگرچہ حسن کی باتیں کرن کے سر پر سے گزر رہی تھیں مگر اتنا اسے ضرور معلوم ہورہا تھا کہ اظہار عشق کرتا ہے، حسن کی تعریف کرتا ہے اور نکاح کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ گو سب سمجھ رہی تھی مگر ظاہر یوں کرتی تھی کہ بے حد معصوم ہے اور ایسی باتوں کو نہیں جانتی۔
حسن و عشق کی باتیں
ہم بہو بیٹیاں کیا جانیں
اس ناز و انداز، خوش ادائی و معصومیت کو دیکھ کر حسن والہ وزارہوا جاتا تھا، اور بھی خود کو عشق میں گرفتار پاتا تھا۔
دفعتاً کرن نے ہاتھ چھڑایا اور ناز سے بولی:
‘‘یہ ہاتھ تو وہ پکڑے جو اس قابل ہو۔ بھلا کسی ایسے ویسے کو یہ ہاتھ پکڑنے کا کیا حق؟’’
حسن نے سینہ پھلا کر کہا:
‘‘مجھ سے بڑھ کر کون قابل ہوگا؟ لاکھوں جوانوں میں انتخاب ہوں۔ حسن و خوبی میں آپ اپنا ہی جواب ہوں۔’’
کرن نے کندھے سے اسے ٹہوکہ دیا اور اٹھلا کر بولی:
ہینڈسم تو آپ ہیں، یہ تو میں مانتی ہوں۔ فواد خان سے شکل ملتی ہے آپ کی۔ لیکن ڈیڈی کہتے ہیں، مردوں کی شکل نہیں، ان کی جیب دیکھی جاتی ہے۔’’
حسن کی نظر بے ساختہ اپنے کرتے کی جیب پر گئی۔ اسے خالی پایا، حسن بہت گھبرایا۔
کرن اپنی رو میں مزے سے کہہ رہی تھی:
‘‘وہ جو پچھلے محلے والا آفتاب ہے نا؟ وہی جس کے ابو رولیکس پہنتے ہیں۔ اس نے دس دفعہ رشتہ بھیجا ہے میرے لیے، لیکن ڈیڈی نے انکار کردیا۔ کہنے لگے، کرن صرف دولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی، ڈگری بھی تو ہونی چاہیے۔ کوئی ڈاکٹر ہو، کوئی انجینئر ہو۔۔۔۔۔۔۔’’
یہ کہہ کریکدم بات ادھوری چھوڑ دی۔ کن اکھیوں سے حسن کو دیکھا اور منہ میں دوپٹا دبا کر شرما شرما کر ہنسنے لگی۔
ادھر حسن کی یہ حالت کہ خاموش پنبہ درگوش۔کرن کے منہ سے باتیں سن کر بہت گھبراتا تھا۔ عشق کا رنگیلا پن ہوا ہوا ہوگیا تھا، دل میں رنج سوا ہوگیا تھا۔
کرن نے دوپٹہ منہ سے نکالا اور اسے انگلیوں پر لپیٹتے ہوئے مگن انداز میں بولی:
‘‘ہماری لین کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں سے میرے لیے رشتہ نہ آیا ہو۔ وہ جو کونے والی ڈولی آنٹی ہیں نا؟ ان کے بیٹے نے تو خودکشی کی دھمکی دے دی تھی اگر میری اس سے شادی نہ ہوئی لیکن ڈیڈی کہتے ہیں، کرن تمہارے لیے تو کوئی شہزادہ آئے گا شہزادہ۔’’
اچانک ایک ستون کے پیچھے سے کنیز نکلی اور ڈرامائی انداز میں بولی:
‘‘کرن باجی! آپ کو پتا ہے حسن بھائی کا رزلٹ آگیا ہے؟’’
یہ سن کر حسن کو ایسا صدمہء جانکاہ پہنچا کہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
کرن نے اشتیاق سے کہا۔ ‘‘ ہائے اللہ، سچی؟ کب؟’’
پھر بصد انداز ِدلربائی کچھ خفا ہو کر حسن کو دیکھا اور ٹھنک کر بولی۔ ‘‘مجھے نہیں بتایا اور اس کو بتا دیا؟’’
کنیز نے آنکھیں مٹکا کر کہا ۔ ‘‘ انہوں نے تھوڑی بتایا۔ یہ تو ابھی ان کے دوست باتیں کر رہے تھے تو میں نے سن لیا۔’’
حسن نے کلمہ پڑھ کر دل کی ڈھارس بندھائی۔ کھوئی ہوئی قوتِ گویائی پائی اور ڈانٹ کر کنیز سے کہا۔
‘‘چھپ کر باتیں سنتی ہو؟ شرم نہیں آتی ہے؟ شرافت تیری صورت دیکھ کر شرماتی ہے۔ـــ’’
کنیز نے کہا۔ ‘‘ لو،ـ شرافت تو میری امی کا نام ہے۔ وہ مجھے دیکھ کے کیوں شرمائیں گی؟’’
حسن نے آنکھیں دکھائیں اور ڈانٹ کر کہا:
‘‘بس! زیادہ باتیں نہ بنا اور چلتی پھرتی نظر آ۔’’
کنیز نے حسن کی ڈانٹ سنی ان سنی کی اور اطمینان سے کہا:
‘‘میں تو خوشخبری سنانے آئی تھی کرن باجی کو۔’’
کرن نے اشتیاق سے کہا:
‘‘خوشخبری! او مائی گاڈ، آپ تو انجینئر بن گئے ۔مبارک ہو۔’’
یہ سن کر حسن گھبرایا۔ کنیز ہنسنے لگی۔
کرن نے پوچھا:
‘‘ٹاپ کیا ہوگا آپ نے؟ میں تو کہتی ہوں باہر چلے جانا جاب کے لیے ۔ویسے بھی یہاں کیا رکھا ہے۔ ہاں، باہر ہی ٹھیک رہے گا۔ لائف تو ویسے امریکہ یورپ کی اچھی ہے لیکن پیسہ سعودی عرب میں بہت ہے۔ میرے ایک دور کے ماموں سعودی عرب میں انجینئر ہیں۔ ڈیفنس میں دو کنال کا گھر بنایا ہے انہوں نے۔’’ یہ کہہ کر کچھ خیال آیا اور حسن کو ہلکا سا ٹہوکہ دے کر بولی:
‘‘سعودی عرب ہی جانا چاہیے آپ کو۔ بڑی پاک زمین ہے وہ۔’’ یہ کہہ کر عقیدت سے آنکھیں بند کرلیں۔
حسن کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ بہت گھبراتا تھا، کچھ بول نہیں پاتا تھا۔
کنیز نے ہنسی روکتے ہوئے کہا:
‘‘ہاں سعودی عرب جانے والے تو بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔’’
کرن نے آنکھیں کھولیں اور ناک سکوڑ کر کہا:
‘‘بس وہاں پردے کا بہت پرابلم ہے۔ میں پردہ نہیں کروں گی۔ ابھی سے بتا رہی ہوں ہاں۔’’
کنیز نے بڑی معصومیت سے کہا:
‘‘لیکن کرن باجی، حسن بھائی تو فیل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بتایا نہیں آپ کو؟’’
کرن بھونچکا رہ گئی۔ بے یقینی سے اس نے حسن کو دیکھا۔ حسن کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔
کنیز نے بھولے پن سے حسن کو دیکھا اور بن کر حیرت سے بولی:
‘‘ہا ہائے بھائی جان! آپ نے اتنی بڑی بات چھپا لی؟ وہ بھی کرن باجی سے؟’’
کرن نے ہکلا کر کنیز سے کہا۔ ‘‘ لیکن تم تو کہہ رہی تھی کہ خوشخبری سنانے آئی ہو؟’’
کنیز نے معصومیت سے کہا۔ ‘‘ وہ تو میں آپ کو یہ بتانے آئی تھی کہ پچھلے محلے والے آفتاب بھائی کو ان کے ابو نے گاڑی لے کر دی ہے۔ نئی نکور زیرومیٹر۔’’
کرن نے ایک مرتبہ پھر سوالیہ نظروں سے حسن کو دیکھا۔ حسن نے بے بسی سے نظریں جھکا لیں۔
کرن نے حسن کے زانو تلے دبا اپنے دوپٹے کا آنچل جھٹکے سے چھڑایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ حسن بھی بے تابانہ اٹھ کھڑا ہوا۔
کرن نے بے اعتنائی سے حسن کو دیکھا اور سرد لہجے میں بولی:
‘‘چلتی ہوں۔’’
یہ کہہ کر پھاٹک کی طرف چلی۔ حسن بے تاب ہوکر پیچھے لپکا۔ کرن نے مڑ کر انگلی اٹھائی اور کڑے انداز میں بولی:
‘‘خبردار!’’
یہ کہہ کر مڑی اور تیزی سے چلتی پھاٹک سے نکل گئی۔
ادھر کرن گئی، ادھر حسن کی آنکھوں میں اندھیرا چھایا، مارے غصے کے پیچ و تاب کھایا۔ آگ ہوکر کنیز سے بولا:
اے نابکار، بد ذات، ناہنجار، یہ راز تو اب کھلا کہ تو میری جان کی عدو، عیش کی دشمن ہے ۔ تجھ ایسی موذی عورت کو کھڑے چنوا دوں تو روا ہے اور ہاتھی کے پاؤں تلے کچلوا ڈالوں تو زیبا ہے۔’’
کنیز پر حسن کی ڈانٹ اور غصے کا مطلق اثر نہ ہوا ۔لاپروائی سے بولی:
خوامخواہ کے ڈائیلاگ نہ بولیں ۔میں نہ بتاتی تو کوئی اور بتا دیتا۔ ایسی باتیں بھی بھلا کبھی چھپتی ہیں؟’’
حسن کا مارے غصے کے بدن تھرتھراتا تھا۔ رونگٹا رونگٹا کانپا جاتا تھا۔ بددماغ ہوکر بولا:
‘‘خدا کہیں تجھے دنیا سے اٹھا لے جائے، بندہ تجھ سے ابدی نجات پائے۔ تیرے افعالِ ناشائستہ و حرکاتِ نا بائستہ نے میرا کلیجہ پکا دیا۔ بھلا یہ تیرے دل میں کیا سمائی اور کون سے شیطان نے تجھے راہ سجھائی کہ تو نے میرے رزلٹ کی بدخبر میری معشوقہ کو سنائی؟’’
کنیز نے بے اعتنائی سے اپنے ناخنوں پر پھونک ماری اور انہیں اپنے کندھے سے رگڑ کر صاف کرتے ہوئے بولی:
آپ بھی بڑے بھولے ہیں، حسن بھائی۔ ٹوٹل دو ہزار روپے آپ نے مجھے دیے تھے۔ دو ہزار روپے بھلا کب تک چلتے ہیں؟ کرن باجی کی سیٹنگ آپ کے ساتھ کرادوں تو میری تو انکم ہی ختم ہو جائے۔ وہ پچھلے محلے والے آفتاب بھائی جان نے تو مجھے پانچ ہزار دیے ہیں۔ آپ نے مجھے کیا دینا ہے، سوائے دھمکیوں کے؟ ہونہہ۔’’
یہ کہہ کر ایک طنزیہ نظر حسن پر ڈالی اور چلتی بنی۔
حسن سر تھام کر تخت پر نڈھال ہوکر بیٹھ گیا۔ انواع و اقسام کے رنج و الم سہتا تھا۔ سر دھنتا تھا، تنکے چنتا تھا۔ ابھی فکر و غم میں گرفتار وہیں بیٹھا تھا کہ اندر سے نانی نکل کر آئیں اور حسن کے ساتھ تخت پر بیٹھ گئیں۔ حسن کو سوچ و پریشانی میں گم پایا تو اس کا شانہ ہلایا اور بولیں:
‘‘اے حسن! سن توحسن بیٹا، یہ تیرا نیا دوست کون تھا؟ پہلی دفعہ دیکھا میں نے۔ بڑا سوہنا جوان تھاماشا اللہ۔ کیا نام ہے اس کا؟’’
حسن نے سر اٹھایا اور ناسمجھی سے پوچھا:
‘‘کس کی بات کررہی ہیں نانی جان؟’’
نانی نے کہا:
‘‘ارے بیٹا وہ جو بندو اور نعیم کے ساتھ تیسرا لڑکا تھا، اس کا پوچھ رہی ہوں۔’’
حسن نے کہا:
‘‘عاصم نام ہے اس کا۔’’
نانی نے خوش ہوکر سر ہلایا اور بولیں:
‘‘عاصم! ماشاء اللہ ماشا اللہ۔’’ پھر راز داری سے آگے جھک کر بولی:
‘‘ حسن بیٹا، بڑے اچھے گھر کا لڑکا لگتا ہے یہ مجھے۔ بات سن، اس کی شادی زلیخا سے نہ کرادیں؟ ہیں؟ و بات تو کرکے دیکھ اس سے۔’’
یہ تجویز ِعجیب اور ماجرائے غریب سن کر حسن کا حال زار ہوا۔ جور فلک کج رفتار ہوا۔ اندھا دھند اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کو سدھارا۔ نانی حیران پریشان وہیں بیٹھی نا سمجھی سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔
٭……٭……٭