حسن اپنے کمرے میں خاموش پنبہ درگوش پڑا تھا کہ نسیمہ کی آمد ہوئی۔ آتے ہی حسن سے لپٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی۔
‘‘ہائے! میرے بھائی سنا ہے تم بہت بیمار ہوگئے تھے۔ میں نے تو جب سنا تو سخت پریشانی ہوئی۔ پوری دنیا میں ایک تم ہی تو میرا سہارا ہو۔ ہائے تمہیں کبھی کچھ نہ ہو۔’’
اس خواہرانہ محبت سے حسن کا دل، جو پہلے ہی پسیجا ہوا تھا ، اور بھی موم ہوا۔ بہت مغموم ہوا اور بے ساختہ منہ سے نکل گیا۔
‘‘اے ہمشیرہ! میرا حال کیا پوچھتی ہو۔ گو بظاہر زندہ ہوں پر اندر سے موا ہوں۔ امتحان میں فیل ہو گیا ہوں۔’’ یہ کہہ کر آنسو بہنے لگے۔
نسیمہ ازحد پریشان ہوئی۔ بولی:
‘‘فیل ہوگئے ہو؟ تو کیااب انجینئر نہیں بن سکو گے؟ اچھا خیر کوئی بات نہیں۔ رزق تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ شاید اسی میں اللہ کی بہتری ہے۔’’
اس بات نے حسن پر عجب سا اثر کیا۔ یکایک دل پر سکون ہوگیا۔ ڈھارس بندھی اور یقین ہوگیا کہ جس باری تعالیٰ نے ایسی ایسی مصیبتوں کے بعد بھی جان بچائی اور رزق دیا وہ اب بھی بھوکا نہ مرنے دے گا۔
صدقے اس بندہ نوازی کے ترے میں جاؤں
باپ ماں ہوتے نہیں ایسے شفیق وا شفق
یہ سوچ کر حسن خوش ہوگیا۔ قالب میں ازسرِ نوجانِ تازہ آئی۔ گویا ہفت اقلیم کی دولت پائی۔ فوراً اٹھ بیٹھا اور نسیمہ سے کہا:
‘‘ٹھیک کہتی ہو باجی! اللہ نے ملک الموت کے پنجے سے میری جان بچائی، صورتِ زیست دکھائی۔ اس سے بڑھ کر کیا چاہیے۔ ناشکری سے غلام کی طبیعت نفور ہے۔ اسی در کی گدائی منظور ہے۔ میرے لیے اسی میں سعادتِ دار ین ہے، حاصل نعمت ِ کونین ہے۔’’
اور جیسا کہ باری تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ شکر گزار بندے کواور بھی نعمت دیتا ہے، ابھی حسن کے منہ سے یہ فقرہ نکلا ہی تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو جان جہاں، رشکِ سروگلزارِ جناں، محبوبۂ نوخیز کا فون تھا۔ اب حسنکا یہ حال کہ جان جاتی تھی مگر فون اٹھائے نہ بن آتی تھی۔ بہن پاس بیٹھی تھی اور باتیں کرتی تھی۔ اس کے سامنے فون کیسے اٹھاتا، عشق کا راز کیونکر سناتا۔ فون بجے جاتا تھا، حسن شرم کے مارے فون نہ اٹھاتا تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازہ کھلا اور کنیز وارد ہوئی۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آنکھ میں شرارت تھی۔ حسن سے بولی:
‘‘دوست آئے ہیں آپ کے ۔یہاں باجی بیٹھی ہیں اس لیے باہر صحن میں بٹھایا ہے ان کو۔’’
یہ کہہ کرحسن کو آنکھ ماری اور آنکھیں مٹکا کر بولی:
‘‘اور وہ جو دوست ہیں نا خوبصورت سے؟ وہی جو گلی کے نکڑ پر رہتے ہیں؟ اوہو ،وہی جن کا کتا پڑ گیا تھا آپ کو؟ ہاں تو انہوں نے پیغام دیا ہے کہ چار بجے ملنے آئیں گے، آپ کا حال پوچھنے۔ تیار رہیے بھائی جان!’’ یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
یہ مژدۂ جاں فزاسن کر حسن کی رہی سہی کسلمندی بھی جاتی رہی۔ محبوبۂ خوش جمال سے ملاقات کی نوید پائی ،روح وجد میں آئی۔
صحن میں نکلا تو دیکھا کہ تین کرسیوں پر نعیم، بندو اور عاصم بیٹھے ہیں اور چوتھی کرسی پر نانی براجمان ہیں۔ رنجیدہ و پریشان ہیں۔ چپکے چپکے حسن کے فیل ہونے کا ذکر کرتی ہیں۔ آہیں بھرتی ہیں اور اس کے دوستوں سے پوچھتی ہیں کہ اب حسن کا کیا بنے گا؟
حسن کو آتے تو دیکھا تو کرسی سے اٹھیں اور بولیں:
‘‘آؤ بیٹا، بیٹھو دوستوں کے ساتھ، میں چائے بھجواتی ہوں۔’’
نانی کے جانے کے بعد حسن تیوری چڑھائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا رہا۔ نہ دوستوں کی طرف دیکھتا تھا نہ بات کرتا تھا۔ کبھی صحن میں رکھے گملوں کو دیکھتا تھا، کبھی آسمان میں اڑتے پرندوں پر نگاہ جماتا تھا۔ دوست الگ چور بنے بیٹھے تھے۔ تابِ کلام نہ پاتے تھے۔ دل میں پچھتاتے تھے۔ کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے تھے اور باہم اشارہ بازی کرتے تھے۔
آخر نعیم نے کھنکھار کر گلاصاف کیا اور بے تکے پن سے بولا:
‘‘تو پھر بھاگنے کا ارادہ کینسل کردیا؟’’
حسن گویا اسی کا منتظر تھا کہ کوئی بات شروع کرے۔ پھٹ ہی تو پڑا ۔ڈانٹ کر بولا:
‘‘میں سمجھ گیا۔ تم سب یارانِ خود کام ہو، دوست برائے نام ہو۔ مجھے ناتجربہ کار سمجھ کر اس شخص کے دامِ تزویر میں پھنسانا چاہتے تھے۔ میرا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے؟’’
بندو نے تڑپ کر صفائی دیتے ہوئے کہا:
‘‘قسم لے لے یار ،ہمیں تو پتا تک نہیں تھا کہ یہ عاصم تجھ پر ڈورے ڈالنے کے چکر میں ہے۔’’
حسن نے بددماغ ہوکر کہا:
‘‘بس بس! میں سب جانتا ہوں۔ تم سب اکٹھے بیٹھ کر بھنگ و چرس چڑھاتے ہو۔ خیالی پلاؤ پکاتے ہو۔ ماما پختیاں اڑاتے ہو۔’’
بندو نے بہ صد سماجت کہا:
‘‘چاہے بھنگی کہہ چاہے چرسی۔ چور، ڈاکو، کمینے، ذلیل جو مرضی کہہ دے مگر یاروں کو دھوکہ دینے کا الزام نہ لگا۔ بول کس کی قسم کھاؤں کہ تجھے یقین آئے؟ ماں کی یا قرآن کی؟’’
یہ سن کر حسن گڑبڑایا، گومگو میں آیا۔ جانتا تھا کہ مسلمان خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتاہے۔ ماں اور قرآن کی نہیں۔
حسن کو حالتِ تامل میں دیکھا تو نعیم نے عاصم سے کہا:
‘‘یار تو ہی بتا دے اس کو کہ تیری کسی بات کا ہمیں پہلے سے پتا نہیں تھا۔’’
‘‘عاصم نے شرمندگی سے نظر اٹھائی اور منت و سماجت سے کہا:
‘‘ان کا کوئی قصور نہیں حسن! تم ان کو blame نہ کرو، انہیں کسی بات کا پتا نہیں تھا۔’’
حسن نے غصے سے کہا:
‘‘اے قومِِ لوط کے سپوت، کنالی میں موت، تو دھوکے سے مجھے بھگا لے جانا چاہتا تھا تاکہ اپنے بس میں کرے اور میری عزت سے کھیلے؟’’
عاصم رو پڑا، روتے ہوئے بولا:
‘‘خدا کی قسم، میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میں تو عادی ہوچکا ہوں یکطرفہ محبت کرنے کا۔ میں جانتا ہوں تم straight ہو۔ میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ کچھ دن تم میرے سامنے رہو۔ تمہیں دیکھ کر ہی خوش رہ لوں گا۔ اس وقت بس جذبات میں آکر میں تم پر اپنی محبت کا راز کھول بیٹھا ورنہ میرا ارادہ کبھی تمہیں بنانے کا نہ تھا۔’’
یہ کہہ کر اس نے آنسو پونچھے اور کہا:
‘‘تم ان دونوں کی طرف سے اپنا دل صاف کرلو اور مجھے معاف کردو۔ آئندہ تمہیں کبھی مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔’’
بندو اور نعیم نے بھی اس کی سفارش کی اور سماجت کی کہ حسن اسے معاف کردے۔
حسن بدر الدین جوکہ بے حد رحم دل تھا، کا دل پسیج گیا اور کہا:
‘‘اے دوستو! صرف تمہارے سبب سے اس کو چھوڑتا ہوں۔ سزائے مناسب دینے سے منہ موڑتا ہوں۔ یہ جو اس وقت دشمن کی گھاتیں ہیں۔ یہ بھی اتفاق کی باتیں ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سب سے دلی محبت ہے، باہم بڑی مودت ہے۔’’
یہ سن کر دوست خوش ہوئے۔ عاصم نے بہ اظہارِ تشکر کہا: