الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۲
(سارہ قیوم)
تیرہویں شب کا قصہ:
تیرہویں شب کو شاہِ باذل نے محل سرا میں قدم رنجہ فرمایا تو شہرزاد کو بلوایا اور فرمائش کی کہ اپنی قصہ گوئی کا کمال دکھاؤ اور عاصم کے آئیلو یولو کے بعد حسن سوداگر بچے کے حال بتاؤ۔ عاصم اور اس کے آئیلویولو کا ذکر سن کر شہرزاد نے پہلے تو تھو تھو کیا، پھر یوں آغازِ گفتگو کیا کہ اے سلطانِ فریدوں بزم جب ماڈل ٹاؤن لاہور کے مکان نمبر چار سو بیس۔ ڈی میں صبح کا سورج طلوع ہوا تو اس نے حسن بدر الدین کو صحن میں مغموم بیٹھا پایا۔ ہر دم یاد اپنی مصیبت کا قصۂ جگر خراش تھا، دل پاش پاش تھا۔ اپنے حال پر غور و فکر میں مصروف تھا کہ زلیخا ایک قاب لیے اندر سے نکلی اور اس کے پاس آکر ٹھہر گئی۔ ایک پیالی قاب سے اٹھائی اور حسن کو دے کر کہا۔
‘‘لو چائے پیو۔’’
حسن نے چونک کر نگاہ اٹھائی۔ پیالی چائے سے بھری ہوئی پائی۔ ٹھنڈا سانس بھر کر پیالی تھام لی اور اسے ہاتھ میں لے کر ازسرِنو مصروفِ سوچ بچا ہوا ، ملال و فکر کا گرفتار ہوا۔
زلیخا چند لمحے کھڑی اسے دیکھتی رہی پھر اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے بیٹھتے منہ سے ایک کراہ نکلی اور پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دوہری ہوگئی۔ حسن نے گھبرا کر نگاہ اٹھائی تو دیکھاکہ زلیخا کا رنگ زرد ہے، پیٹ میں درد ہے۔ اسے کل رات کا حال یاد آیا جب دیوار پر لٹکے اس نے لات چلائی تھی جو زلیخا کے پیٹ میں لگی تھی۔ اپنی حرکتِ ناپسند یدہ یاد آئی، حسن کی آنکھ بھر آئی۔حال زار ہوگیا، دل بے قرار ہوگیا۔ بصد درد مندی و ہمدردی زلیخا سے کہا:
‘‘اے خاتونِ مہربان، خوش وضع و خوش بیان، یہ تیرا کیا حال ہے؟ مجھے اس حادثے کا سخت ملال ہے۔ گو کہ تجھے دکھ دینے کا کوئی ارادہ دل میں نہ تھا۔ پھر بھی اس حادثے کا میں قصور وار ہوں۔ معافی کا خواستگار ہوں۔’’
زلیخا نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حسن کے چہرے سے ملال کی کیفیت عیاں ہے۔ بشرے سے درد و غم کی حالت نمایاں ہے۔ اداس مسکراہٹ کے ساتھ بولی:
‘‘چھوڑو، جانے دو۔ میں جانتی ہوں تم جانتے بوجھتے کسی کو تکلیف نہیں پہنچاسکتے۔’’
یہ کہہ کر چائے کا گھونٹ بھرا اور غور سے حسن کو دیکھتے ہوئے کسی قدر تجسس سے بولی:
‘‘لیکن یہ تو بتاؤ، تم رات کو کر کیا رہے تھے؟’’
حسن نے ایک آہِ سرد بھری، بہ دلِ پُردرد بھری اور کہا:
‘‘گھر سے بھاگ رہا تھا۔’’
زلیخا بےساختہ ہنس پڑی۔ بولی:
‘‘وہ تو خیر میں سمجھ ہی گئی تھی، لیکن کہاں بھاگ رہے تھے؟ اور زیادہ اہم سوال یہ کہ کیوں بھاگ رہے تھے؟ ایسا بھی کیا فیل ہونے کا غم کہ انسان گھر سے ہی بھاگ جائے؟’’
حسن نے آبدیدہ ہوکر کہا:
‘‘میرا حال نہ پوچھو زلیخا کہ ستم رسیدہ ہوں، غم و الم رسیدہ ہوں۔ میری کہانی اور پھر وہ بھی میری ہی زبانی، مجھے آٹھ آٹھ آنسو رلائے گی اور طبیعت اس داستانِ غم کے بیان سے پریشان ہو جائے گی۔’’
زلیخا نے ہمدردی سے حسن کو دیکھا۔ پھر بولی:
‘‘اچھا! بس اتنا ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں۔ چائے پیو اور مجھے بتاؤ کہ بھاگ کیوں رہے تھے؟’’
بموجب ِہدایت حسن نے چائے کا گھونٹ بھرا اور زلیخا کو ایم آر آئی کی دہشت اور بنّے بھائی کی ہیبت کا تمام حال بلا کم و کاست کہہ سنایا۔
زلیخا سوچتے ہوئے بولی:
‘‘ایم آر آئی سے ڈر گئے تم؟ چلو خیر یہ تو سمجھ میں آتا ہے۔ بہت سے لوگ جنہیں کلاسٹرو فوبیا ہوتا ہے، ایم آر آئی سے ڈرتے ہیں۔ تم بھی شاید اس لیے نہیں کرانا چاہتے ۔ لیکن یہ تو بتاؤ آخر تم بنّے بھائی سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟ وہ ذرا تمہیں ڈانٹتے ہیں اورتم ڈر کے مارے کانپنے لگ جاتے ہو ۔ اسی لیے وہ تمہیں اور بھی زیادہ bully کرتے ہیں۔’’
‘‘حسن نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
‘‘اگر گوشِ ہوش سے سنو تو عرضِ حال کروں، اظہارِ بالا جمال کروں کہ مجھ بدبخت کو ماں باپ نے ہتھیلی کا چھالا بنا کر پالا تھا۔ ماں صدقے واری جاتی تھی۔ باپ پیروں تلے ہاتھ دھرتا تھا۔ میرے باپ نے کبھی ڈانٹنا تو درکنار، کبھی مجھے سخت نظر سے بھی نہ دیکھا تھا۔ جس نے کبھی کسی کی اونچی آواز نہ سنی ہو، وہ بنّے بھائی سے ڈرے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟’’
حسن کی یہ بات سن کر زلیخا حیران ہوئی اور بے یقینی سے پوچھا:
‘‘تم بدر پھوپھا کی بات کررہے ہو؟’’
حسن نے اثبات میں سر ہلا کر کہا:‘‘ہاں!’’
زلیخا نے ترس کھانے والے انداز میں کہا:
‘‘تم آٹھ مہینے کے تھے جب بدر پھوپھا کا انتقال ہوا تھا۔ بھلا آٹھ مہینے کے بچے کو کوئی کیا ڈانٹتا؟’’
لیکن حسن کچھ نہ سن رہا تھا۔ باپ کے ذکر نے اس کے دل میں آگ لگا دی تھی۔ وہ بظاہر وہاں موجود تھا مگر اس کا دل و دماغ اپنے زمانے و وقت میں پہنچ چکا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا:
‘‘افسوس میں نے تمام زندگی اپنے ماں باپ کو کوئی خوشی نہ دی، کچھ خدمت نہ کی۔ ایک ساحرہ کے ظلم سے والدِ ماجد کا ارتحال ہوا، مجھے صدمہ و قلق کمال ہوا۔ دو سال کے اندر اندر میں نے دولت یوں اڑائی کہ دیوالہ نکل گیا۔ میری ماں یہ غم نہ سہار سکی۔ والدِ ماجد کے دو سال بعد وہ بھی تیرِ مرگ کا نشانہ ہوئی۔ باغ ِارم کی سیر کو روانہ ہوئی۔ وا دردا، واحسرتا، ہائے ہائے۔’’
زلیخا نے حیران پریشان ہوکر پوچھا:
‘‘کون سے باغ کی سیر کو روانہ ہوئیں؟’’
حسن خیالوں سے باہر آیا، بولا:
‘‘باغ ِارم۔’’
زلیخا پریشان ہوکر سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بولی:
‘‘اس نام کا تو کوئی باغ لاہور میں نہیں۔’’
حسن نے کہا:
‘‘لاہور کا نہیں، یہ جنت کا باغ ہے۔’’
زلیخا ہکا بکا ہوکر بے ساختہ بولی:
‘‘ہیں؟ تو سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ ڈیتھ ہوگئی؟ اینی وے، پھوپھو کا انتقال تو پھوپھا کے مرنے کے سولہ سال بعد ہوا تھا، جب تم میٹرک میں تھے ۔ مجھے لگتا ہے تمہاری لانگ ٹرم میموری پہ اثر پڑا ہے۔ شاید فیل ہونے کی بھی یہی وجہ ہو۔’’
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ پھاٹک کھلا اور کنیز اندر آئی۔ حسن اور زلیخا کو وہاں بیٹھے دیکھا تو خوش ہوکر بولی:
‘‘واہ جی واہ، بڑی خوشبوئیں آرہی ہیں چائے کی۔ زلیخا باجی اور چائے ہے؟ میں پی لوں؟’’
زلیخا بے ساختہ مسکرائی اور مسکراہٹ دبا کر ہلکی سی ڈانٹ یوں بتائی۔
‘‘ہر وقت کھانے پینے کی فکر میں نہ رہا کرو۔ ابھی کام شروع کرو۔ جب دادی جان کے لیے بناؤں گی، اس وقت پی لینا ۔’’
کنیز نے منہ بنایا اور زلیخا کی پیالی کی طرف اشارہ کرکے بولی:
‘‘تو پھر یہی دے دیں اگر بچی ہے تو، سردی ہوگئی ہے، دو گھونٹ پی لوں گی تو ذرا طاقت آجائے گی۔’’
زلیخا نے اپنی پیالی اسے تھما دی اور وہ وہیں کھڑے کھڑے سڑکے مار کر چائے پینے لگی۔ حسن نے اس سے پوچھا:
‘‘اے کنیزِ سراپا تمیز، ہر دل عزیز ، کیا تو نے میرا پیغام میری معشوقہ رنگیں ادا، دلربا کو دے دیا تھا؟’’
کنیز نے چائے کا بڑا سا گھونٹ بھرا اور بولی:
‘‘ہاں دے دیا تھا۔’’
حسن نے اشتیاق سے کہا:
‘‘پھر اس نے کیا کہا؟ بہت روئی ہوگی؟ رو رو کر جان کھوئی ہوگی؟ــــ’’
کنیز بے ساختہ ہنسی اور بولی:
‘‘نہیں، سفید جوڑا ڈھونڈ رہی تھیں۔ آپ کے قلوں پر پہننے کے لیے۔’’
یہ سن کر حسن از حد ملول و مغموم ہوا۔ زلیخا نے اس کے رنج کا یہ عالم دیکھا تو کنیز کو ڈانٹ کر بھگایا اور حسن سے کہا:
‘‘اس کی باتوں میں نہ آیا کرو، بڑی فتنہ لڑکی ہے۔’’ یہ کہہ کر اس کے ہاتھ سے پیالی پکڑی اور کہا:
آؤ ،اندر آ کے ناشتہ کرو۔’’
یہ کہہ کر زلیخا کرسی سے اٹھی۔ اٹھتے اٹھتے منہ سے کراہ نکل گئی۔ بے اختیار ہوکر پہلو تھام لیا۔ حسن پریشان ہوا، سخت پشیمان ہوا۔ گھبرا کر بولا:
کیا زیادہ تکلیف ہے؟’’
زلیخا نے پہلو پکڑے پکڑے کہا۔
‘‘ہاں! لگتا ہے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا۔ کچھ عرصے سے ویسے ہی پیٹ میں درد تھا، اب چوٹ بھی لگ گئی۔ کہیں اپینڈکس ہی نہ ہو، چیک کراناچاہیے۔’’ یہ کہہ کر زلیخا اندر چلی گئی۔
٭……٭……٭