زلیخا تیکھے لہجے میں بولی: ’’تو جو ہے بس یہی ہے؟ محبت کوئی چیز نہیں؟‘‘
حسن نے لاپروائی سے کہا: ’’محبت کی باتیں اور ہیں، عاشقی معشوقی کی گھاتیں اور ہیں۔‘‘
زلیخا خفگی سے بولی: ’’تم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو۔ اسی لیے تو اب ساری دنیا می ٹو موومنٹ چلا رہی ہے۔‘‘
حسن کے کان کھڑے ہوئے، بولا: ’’پہلے بھی تم نے مجھے اس سے ڈرایا تھا۔ آخر یہ می ٹو ہے کیا بلا؟‘‘
زلیخا نے بے یقینی سے حسن کو دیکھا اور پوچھا: ’’تمہیں واقعی نہیں پتا؟‘‘
حسن نے انکار میں سرہلایا۔
زلیخا نے کہا: ’’جن مردوں کو عورتوں سے صرف ایک مطلب ہوتا ہے نا، اور وہ یہ مطلب نکالنے کے لیے عورتوں کی معصومیت یا مجبوری یا اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان مردوں کے خلاف وہ عورتیں می ٹو کی مہم چلاتی ہیں۔ تاکہ ان کے بدکرتوت زمانے کے سامنے کھلیں اور باقی عورتیں ان کی گھناؤنی چالوں سے بچ سکیں۔‘
یہ بات سن کر حسن کو بے حد حیرت ہوئی۔ تعجب سے بولا: ’’ایسی زبردست عورتیں بھلا کب دیکھنے سننے میں آئی تھیں جوبدکار مردوں کے داؤ پیچ نیست و نابود کرتی ہیں، ان کی کارروائیاں بے سود کرتی ہیں۔ یہ کیا اسرار ہے؟ بڑا خلفشار ہے۔‘‘
زلیخا نے مسکرا کر کہا: ’’اسی لیے تو تم سے کہتی ہوں ذرا بچ کے رہنا۔‘‘
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ’’گو خودستائی کی عادت نہیں مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ بھلے آزما لو، کسوٹی پر چڑھا لو۔ شریف و باکردار نکلوں تو انعام پاؤں ورنہ دشنام پاؤں۔ خدا مجھے اس وقت سے بچائے کہ کسی لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاؤں۔ ہاں، لیکن اگر محبوبۂ نازنین خود بلائے تو بسروچشم جاؤں۔‘‘
زلیخا ہنس کر بولی: ’’محبوبہء نازنین کے بلاوے کے بھروسے مت رہنا۔ اس کا کچھ پتا نہیں۔ تمہیں بلاکر پھنسوا دے گی۔ آج کل کی کچھ لڑکیاں بڑی تیز ہوتی ہیں۔‘‘
حسن نے کہا: ’’کچھ لڑکیاں تو ہر زمانے میں ہی بہت تیز ہوتی ہیں۔ ہاں، لیکن یہ جو اختلاطِ مردوزن میں اب دیکھتا ہوں، پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ مرد بے حجاب ہیں، عورتیں بے نقاب ہیں، اب اس صورت میں یا تو ان کے بیچ آئیلویولو ہو گا یا می ٹو می ٹو۔
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے”
زلیخا مزے سے بولی: ’’نیا زمانہ ہے بھئی۔ ملک کی آدھی آبادی کو گھر میں بند کر کے تو نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘
حسن نے آہ بھری اور بولا: ’’میں اس زمانے کی باتیں کیا جانوں؟ میں تو زمانِ پاستان سے آیا ہوں۔ میرے باپ کو ایک ساحرہ نے بروزِ سحر بکرا بنایا تھا۔۔۔‘‘
زلیخا نے بے زاری سے کہا: ’’اوہ نو! ناٹ اگین۔۔۔‘‘
لیکن حسن کہے گیا: ’’اور مجھے وقت کی گردش میں لا پھینکا۔ میں غریب الوطن مجبور ہوں، اپنے وقت سے دور ہوں، میرا زمانہ۔۔۔‘‘
زلیخا بات کاٹ کر بولی: ’’فی الحال تو ہم گھر سے دور ہیں۔ چلو اٹھو چلیں۔ دیر ہو گئی تو دادی اماں پریشان ہوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور سڑک کی طرف چلی۔ حسن اداس و ملول وہیں بیٹھا رہ گیا۔ کئی قدم دور جا کر زلیخا نے مڑ کر دیکھا اور حسن کو یوں دلگرفتہ اور مغموم بیٹھا دیکھ کر اسے اس پر ترس آگیا۔ الٹے قدموں واپس آئی اور حسن کو پچکار کر بولی: ’’چلو اٹھو۔ گھر جا کر تمہیں کشمیری چائے پلاؤں گی۔‘‘
حسن ہٹیلے پن سے خفا ہو کر بولا: ’’نہیں جاؤں گا۔ نہیں پئیوں گا چائے۔‘‘
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ’’ارے! کیوں؟‘‘
حسن نے ناراضی سے کہا: ’’تم میری بات نہیں سنتیں۔‘‘
وہ تسلی دے کر بولی: ’’سنتی تو ہوں۔ دیکھو ابھی کتنی باتیں سنی ہیں تمہاری۔‘‘
حسن نے ضد سے کہا: ’’اصل بات تو نہیں سنتیں نا۔ ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہو۔‘‘
زلیخا نے حسن کا بازو پکڑ کر اسے کھینچ کر کھڑا کیا اور کہا: ’’بچوں والی باتیں کرو گے تو بچوں کی طرح ڈانٹ بھی کھاؤ گے۔ اب چلو۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ افوہ چلو بھی۔‘‘
یہ کہہ کر حسن کو دھکیلتی ہوئی لے گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*