الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

نسیمہ کی خبرگیری بھی ہو گئی، کرن کا فون نمبر بھی مل گیا۔ اب صرف ایک کام رہ گیا تھا کہ اس نوجوانِ نامعقول، مردِ فضول ارسلان سے ملاقات کی جائے اور پتا چلایا جائے کہ آخر یہ ہے کون اور کہاں سے آیا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ عقد کا خیال ہے یا نِرا فساد کا جال ہے؟ حسن بدرالدین بطریقِ شرافت و وضع داری اس بات کو اپنا فرضِ منصبی خیال کرتا تھا کہ ارسلان کا سب کچا چٹھہ معلوم کرے تاکہ زلیخا پر کوئی آنچ نہ آئے اور اس کا شیشۂ عصمت سنگِ بدنامی سے محفوظ رہے اور وہ غم سے دور، مسرور و محظوظ رہے۔
اتوار والے دن حسن نے زلیخا کو اپنے پیچھے بائیک پر بٹھایا اور بائیک کو تیز رفتاری سے دوڑایا۔ زلیخا راستہ بتاتی گئی اور کچھ ہی دیر میں منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچے تو حسن کو ایک عمارت نظر آئی، اونچائی جس کی کوہِ فلک کو شرماتی تھی، نظر کی حد میں نہ سماتی تھی۔ کیا دیکھتا ہے کہ سنگِ مرمر کے فرش بے حد لطیف و چمکدار ہیں، محکم و پائیدار ہیں اور ویسی ہی سیڑھیاں اس قصرِ عالیشان کے اندر جاتی ہیں۔ حسن پہلے تو ڈرا کہ اندر قدم رکھوں یا آزمائش کر لوں مگر پھر دیکھا کہ خلقِ خدا جوق در جوق اندر جاتی ہے، مطلق خوف نہ کھاتی ہے، یہ دیکھ کر دل کو تسلی ہوئی اور زلیخا کی ہمراہی میں خدا کا نام لے کر قدم بڑھایا اور شیشے کے دروازوں سے اندر آیا۔ اندر پہنچا تو دم بخود رہ گیا۔ اس قصرِ جادوکار میں فرشِ مرمر کاشانی، ہر دیوار چمکتی دمکتی نورانی۔ بے شمار دکانیں بھی سجی سجائی جن کے ماتھے پر انگریزی تحریر، بے مثل و بے نظیر۔ جگہ جگہ ساغر و بلور، باعثِ سرود و شور، جگہ جگہ روشنیاں، نئے زمانے کی شمعیں جنہیں یہ لوگ بلب کہتے تھے، کافوری و طلائی شمعدانوں میں جڑی ہوئیں اور بیچوں بیچ اس صحن میں ایک فوارہ، باصدِ رونق و روانی، اندر خوشگوار و شیریں پانی۔ اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس قلعۂ مبارک بنیاد کی چھت کی وہ رفعت ہے کہ اس کے کنگرے تک ذہن رِسا کا حوصلہ پست، جانا محال ہے۔ سطوت و آراستگی کا عجب حال ہے۔ اتنے میں زلیخا نے اسے ٹہوکہ دیا اور خفگی سے بولی: ’’یہاں جم کر کیوں کھڑے ہو گئے ہو؟ اتنے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ آگے چلو۔‘‘
حسن نے کہا: ’’اے زلیخا اس رشکِ بہشتِ شداد پر عش عش کرتا ہوں، اس کی بیش بہا سجاوٹ کا دم بھرتا ہوں۔ یہ تو بتاؤ کہ کس سلطانِ سنجرفر ستارہ سپاہ، رستم سکندر جاہ نے بنوایا ہے اور اس سازوسامان سے بخوبی سجایا ہے؟‘‘
یہ سن کر زلیخا نے اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹا اور ایک کونے میں لے گئی۔ دانت پیس کر بولی: ’’اب میری بات غور سے سنو۔ ہر وقت اور ہر جگہ مذاق کی نہیں ہوتی۔ ہم یہاں اس مال میں سیرکرنے نہیں آئے۔ جس کام کے لیے آئے ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ تم اب سیریس ہو جاؤ۔ ارسلان کا انٹرویو اورفیصلہ کرنے میں میری مدد کرو۔ اگر تم ایسے ہی جوکر بنے رہے تو گھر جا کر پٹ جاؤ گے مجھ سے، سمجھ آئی؟‘‘
اور کچھ سمجھ آیا نہ آیا ہو، زلیخا کی دھمکی ضرور سمجھ آئی اور حسن بدرالدین سہم کر خاموش ہو رہا۔
زلیخا حسن کو لیے آگے چلی۔ حسن خاموشی سے چلا جاتا تھا اور اِدھر اُدھر اس دنیا کو دیکھتا جاتا تھا جو دید تھی نہ شنید تھی، ہر طرح قابلِ دید تھی۔ گو کہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہر چیز کو دیکھتا تھا مگر یہ حال نہ کھلتا تھا کہ کس کا مال ہے اور اس کا بانی کون شاہِ بلند اقبال ہے۔ ایک جگہ رک کر زلیخا نے ایک تختے کو پڑھنا شروع کیا جس پر انگریزی میں کچھ لکھا تھا۔
’’سینما……. سینما۔ ۔ ۔‘‘ وہ پڑھتے ہوئے زیرلب بڑبڑائی۔ ’’ارسلان نے کہا تھا سینما کے دروازے پر ملے گا۔ کس فلور پر ہے سینما؟ ہاں یہ رہا۔ اوکے، چلو حسن۔‘‘
حسن، کہ اس محلِ عالیشان میں اجنبی تھا اور ہر شے سے بیگانہ و ناآشنا تھا، جلدی سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ پاتا تھا، کیوں کہ اسے کسی جگہ کا راستہ نہ آتا تھا۔ زلیخا اسے لیے سنگِ اسود کی سیڑھیوں کی طرف بڑھی اور دونوں نے اس پر قدم رکھا۔ قدم رکھنے کی دیر تھی کہ سیڑھیاں خودبخود اوپر چڑھنے لگیں۔ سحر کا یہ کرشمہ دیکھ کر ڈر کے مارے حسن کا دم پخت ہو گیا، اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔ سخت سراسیمہ و پریشان تھا، نالاں و فریاد کناں تھا۔ دل میں دعائیں مانگتا تھا کہ یاالٰہی اس آفت سے بچا، اس بلا سے نجات دلا۔ نہ جانے یہ جادو کی سیڑھیاں کہاں لے جائیں گی۔ اگر چھت پر پہنچا کر نیچے پٹخ دیا تو ہڈی پسلی سلامت نہ رہے گی۔ بس اب بچنا محال ہے، جینا وبال ہے۔ قریب تھا کہ دل بند ہو جاتا اور دانت بیٹھ جاتے کہ سیڑھیاں ختم ہوئیں اور سنگ سفید کا فرش شروع ہوا۔ حسن چھلانگ مار کر فرش پر آیا، خدا کا شکر بجا لایا۔
چلتے چلتے دونوں ایک جگہ پہنچے جہاں بہت سی تصویریں لگی تھیں۔ ایسی پُرتنویر و نایاب کہ ہر تصویر پر انسان اصل کا دھوکہ کھائے، مانی کی روح عش عش کر جائے، بہزاد شرمائے۔ اتنے میں کہیں سے ارسلان نکل کر آیا اور ان دونوں کو دیکھ کر خوب مسکرایا۔
اس نے آتے ہی زلیخا کے ہاتھ میں چند کاغذ کے ٹکڑے تھمائے اور بولا: ’’ٹکٹس میں نے لے لیے ہیں۔ چلوفلم شروع ہونے والی ہے۔‘‘
وہ دونوں آگے بڑھے اور ان کے ساتھ حسن بھی کشاں کشاں کھنچتا چلا گیا۔ ایک راہداری سے گزر کر ایک بہت بڑے کمرے میں پہنچے جہاں قطار درقطار کرسیاں لگی تھیں۔ وہ دونوں جا کر کرسیوں پر بیٹھ گئے، حسن بھی ساتھ بیٹھ گیا اور دل میں سوچنے لگا، خدا خیر کرے، دیکھتے ہیں اب سحر کا کون سا کرشمہ دیکھنے میں آتا ہے۔ زمانہ کیا غضب ڈھاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے روشنیاں گل ہو گئیں۔ حسن سمجھا کہ شاید اسی واپڈا نامی شخص کی شرارت ہے جسے گھر والے گالیاں دیتے رہتے تھے۔ اچانک ایک چنگھاڑ بلند ہوئی اور سامنے کی پوری دیوار روشن ہو گئی۔ کچھ جنات و دیو نظر آنے لگے، ڈھول ڈھمکے کی صدائیں بلند ہوئیں اور وہ دھماچوکڑی مچی کہ خدا کی پناہ۔ یہ تماشا دیکھا تو حسن کی چیخ نکل گئی۔ اچھل کر کھڑا ہوا اور گھبرا کر چلایا: ’’یاالٰہی یہ مکاں ہے یا طلسمات کا سماں ہے؟ جادو کا زور ہے، درودیوار میں انا البرق کا شور ہے۔ عقل حیران ہے کہ یہ کارگاہِ سلطانی ہے یا وحشت کی نشانی ہے؟ یااللعجب یہ کیا بوالعجبی ہے؟‘‘
زلیخا نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا اور کرسی پر دھکا دے کر گرا دیا۔ دانت کچکچا کر سرگوشی میں بولی: ’’منع کیا تھا ناں کہ یہاں یہ ڈرامے نہ کرنا؟ بیٹھ جاؤ چپ کر کے۔‘‘

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!