ارسلان نے تلملا کر کہا: ’’ہاں نہیں ہے میرے پاس پیسہ، جاب نہیں ہے میری۔ اسی لیے تو اس موٹی کے پیچھے آتا تھا۔ ڈاکٹر بن رہی ہے۔ چند سالوں میں خوب کمانے لگے گی۔ آج اس پر انویسٹ کروں گا تو کل کو سود سمیت واپس لوں گا۔‘‘
زلیخا کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دھواں دھواں چہرے کے ساتھ بولی: ’’میں ڈاکٹر نہیں بن رہی۔ انٹری ٹیسٹ کلیئر نہیں کر سکی تھی۔ تمہیں کچھ نہیں دے سکتی میں۔‘‘
یہ سنا تو ارسلان کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ ’’ڈاکٹر نہیں بن رہیں؟ میں تو یہی سمجھتا تھا……‘‘
پھر جملہ ادھورا چھوڑ کر حسن پر جھپٹا: ’’فلم کی ٹکٹوں کے پیسے مجھے واپس کرو۔‘‘
حسن حقارت سے ہنسا اور بولا: ’’نہ تجھ میں شرافت، نہ وضعداری نہ کردار۔ تو نری حمق کی نشانی ہے۔ بھلا کس برتے پر یہ تتا پانی ہے؟‘‘
یہ کہہ کر جیب سے روپے نکالے اور ارسلان کے منہ پر مارے۔ بت بنی کھڑی زلیخا کا ہاتھ پکڑا اور تیز قدموں سے چل پڑا۔
باہر نکل کر زلیخا کو بائیک پر بٹھایا، بائیک سڑک پر لایا۔ تیز ٹھنڈی ہوا جو چہرے پر لگی تو زلیخا کے حواس ٹھکانے آئے اور اس نے حسن کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا: ’’روکو، بائیک روکو، اس پارک کے کنارے۔‘‘
حسن نے بائیک روکی۔ زلیخا اتر کر باغ کی جانب بڑھی۔ حسن پیچھے پیچھے چلا۔ باغ میں پہنچ کر زلیخا ایک دم حسن کی طرف مڑی اور چلا کر بولی: ’’کیا ضرورت تھی تمہیں یہ بکواس کرنے کی؟‘‘
حسن گھبرایا، بولا: ’’کون سی بکواس؟‘‘
زلیخا نے غصے سے کہا: ’’اپنی محبوبہ فلانی فلانی کی باتیں، عشق و عاشقی کی گھٹیا فلاسفی۔ شرم نہیں آئی اس کے سامنے یہ سب کہتے؟‘‘
حسن نے کہا: ’’جس نے کی شرم، اس کے پھوٹے کرم۔ میں یہ باتیں نہ کرتا تو اس کی اصلیت کیسے کھلتی؟ کیا بے غیرت بن کر یہ پوچھتا کہ بتاؤ زلیخا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اور وہ جواب میں کیا کہتا؟ جھوٹ سناتا، ہمیں الو بناتا۔ جھوٹے وعدے کر کے آبرو میں بٹہ لگاتا۔ پھر تم بعد میں پچھتاتیں، زندگی میں اندھیر پاتیں۔‘‘
یک دم زلیخا کے چہرے سے غصہ یوں بجھ گیا جیسے ایک پھونک سے شمع گل ہو جائے، جیسے آنکھوں میں زندگی کی رمق بجھ جائے۔ اس کی آنکھوں میں اداسی اور افسردگی کی جھلک ابھری پھر اس نے نظریں جھکا لیں اور تھکے ہوئے انداز میں پاس رکھے ایک سنگی تختے پر بیٹھ گئی اور ٹھنڈا سانس لے کر بولی: ’’ٹھیک کہتے ہو۔ آئم سوری۔‘‘ یہ کہہ کر سرجھکا لیا اور اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔
اسے یوں خاموش و لب بستہ دیکھ کر حسن کو ترس آیا۔ وہ اس کے پاس بیٹھا اور بولا: ’’خیر جو ہوا سو ہوا۔ ایسے سفلہ منش سے جان بچی خدا کا احسان ہے، ورنہ بے بس انسان ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مردوں کا اعتبار کرنا داخلِ حماقت ہے۔ یہ کسی کے دوست نہیں، بس اپنے مطلب کے یار ہیں، مطلب نکل گیا تو بد ازتر اغیار ہیں۔‘‘
زلیخا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور آہستہ سے بولی: ’’خود مرد ہو کر یہ کہہ رہے ہو؟‘‘
حسن نے سینہ پھلا کر کہا: ’’میری بات اور ہے۔ اپنے منہ سے کہنا تو میاں مٹھو بننا ہے مگر مجھ سے بھلائی کے عوض برائی نہ ہو گی، کوئی غلط کارروائی نہ ہو گی۔‘‘
زلیخا یکدم ہنس پڑی۔ ہنستے ہوئے تیکھے لہجے میں بولی: ’’غلط کارروائی نہ ہو گی؟ سچ سچ بتاؤ، یہ جو عشق کے بارے میں اپنا فلسفہ وہاں جھاڑ رہے تھے، سچ مچ اس میں believe کرتے ہو؟‘‘
حسن کو بات سمجھ نہ آئی۔ پوچھا: ’’کیسا فلسفہ؟‘‘
زلیخا ہچکچائی: ’’وہی جو تم وہاں کہہ رہے تھے کہ دور دور سے محبت نہیں ہوتی اور ملاقات ضروری ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اور بھی بہت کچھ۔‘‘
حسن نے کہا: ’’ہاں یہ سچ ہے۔ عشق اسی کا نام ہے۔ بھلا کسی کو عشق کر کے شادی کی خواہش نہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے؟‘‘
زلیخا لاجواب ہو گئی۔ پھر آہستہ سے بولی: ’’شادی میں اور بھی تو بہت سے فیکٹر ہوتے ہیں۔ دوستی، رفاقت، غمگساری۔‘‘
حسن نے کہا: ’’یہ باتیں تو برسوں کے ساتھ سے آتی ہیں۔ جب تک آزمائش نہ ہو کسی کا کیا پتا چلتا ہے؟ اور عشق کبھی آزمائش نہیں کرتا۔ اسی لیے تو اسے اندھا کہتے ہیں۔‘‘