زلیخا نے کن اکھیوں سے ارسلان کو دیکھا اور دبی آواز میں ڈپٹ کر حسن سے کہا: ’’شٹ اپ ایڈیٹ۔ کولڈ ڈرنک ہے یہ۔‘‘
حسن نے ایک گھونٹ اس شربت کا لیا، نام جس کا کولڈ ڈرنک تھا۔ چیونٹیاں سی اس کے ناک، کان، حلق میں رینگ گئیں۔ گھبرا کر ہاتھ سے رکھ دیا۔
زلیخا نے کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ ارسلان کی طرف مڑی اور بولی: ’’اچھا تو ہم کیا بات کر رہے تھے؟ عشق دس فیصد دوسری چیزیں ہوتا ہے۔ کون سی دوسری چیزیں؟‘‘
ارسلان نے اپنا کھانا دونوں ہاتھوں میں اٹھایا، بڑا سا نوالہ لیا اور اسے نگل کر بولا: ’’بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ مثلاً فیملی بیک گراؤنڈ، تعلیم، تہذیب۔ اب دیکھو نا، میں کسی خانہ بدوش لڑکی سے عشق تو کروں گا نہیں چاہے کتنی ہی خوبصورت ہو یا نیک دل ہو۔‘‘
حسن نے کہا : ’’خانہ بدوش لڑکی سے آپ ’’شادی‘‘ نہیں کریں گے۔ عشق تو جتنا مرضی فرما لیجئے۔‘‘
ارسلان نے قہقہہ لگایا اور بولا: ’’ہاں، وہ والا عشق تو کیا جا سکتا ہے۔‘‘
زلیخا نے ہاتھ میں پکڑا رومال تہہ کر کے میز پر رکھا اور ارسلان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی: ’’اور میرے ساتھ کیا کر رہے ہو تم؟‘‘
ارسلان گڑبڑا گیا۔ ہاتھ سے کباب گر گیا۔ بوکھلا کر بولا: ’’تمہارے ساتھ؟ کیا مطلب تمہارے ساتھ؟‘‘
زلیخا نے اسی طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھا: ’’وہ صبح صبح گڈ مارننگ کے میسج، رات کو گڈ نائٹ، طرح طرح کے میسج بھیجتے ہو، میرے گھر آتے ہو۔ تمہاری نظریں جس طرح مجھے دیکھتی ہیں، مجھ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ میرے ساتھ کیا کر رہے ہو تم؟‘‘
ارسلان نے بوکھلائی نظروں سے حسن کی طرف دیکھا۔ حسن نے فوراً توجہ کھانے کی طرف کی اور دونوں ہاتھوں میں نان کباب اٹھا کر کھانے لگا۔ حسن کو کھانے کی طرف متوجہ دیکھا تو ارسلان نے آہستہ سے زلیخا سے کہا: ’’تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’دوستی؟‘‘ زلیخا نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا: ’’کیسی دوستی؟ اور کس لیے؟ اس قسم عشق کے لیے جس میں تم یقین رکھتے ہو یا شادی کے لیے دوستی؟‘‘
ارسلان نے چور نظروں سے زلیخا کے تیور ملاحظہ کیے اور آہستہ سے بولا: ’’مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں۔ میری تین بہنوں کی شادیاں ہونی ہیں۔ ابھی میں شادی نہیں کر سکتا۔‘‘
زلیخا کا چہرہ تمتا اٹھا۔ لیکن تحمل سے بولی: ’’شادی نہیں کر سکتے؟ تو گرل فرینڈ بنانا چاہتے ہو؟ ٹائم پاس کرنے کے لیے یا جیسا حسن کا خیال ہے، بغل گرمانے کے لیے؟‘‘
ارسلان کے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ آئی اور بولا: ’’ناراض کیوں ہوتی ہو؟ شادی کا وقت آئے گا تو میں تمہیں ضرور کنسڈر کروں گا۔ لیکن وہ وقت ابھی آیا نہیں تو تھوڑی انجوائمنٹ ہی کر لیں تو کیا بُرا ہے؟‘‘
زلیخا کا سرخ چہرہ سفید پڑ گیا۔ حسن کا صبر جواب دے گیا۔ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا: ’’بس اب ایک لفظ اور نہ بولنا۔ معلوم ہو گیا کہ تو حضرت جنوں کا ساختہ و پرداختہ ہے، الو کی دم فاختہ ہے۔ ایک معصوم لڑکی کی محبت کا لطف اٹھانا چاہتا ہے، کمسن نو عمر سمجھ کر دام تزویر میں پھنسانا چاہتا ہے؟‘‘
ارسلان نے جو دیکھا کہ معاملہ ہاتھ سے نکلا جاتا ہے تو شیر ہو گیا۔ اطمینان سے کرسی سے ٹیک لگا لی اور بولا: ’’اتنی بھی معصوم نہیں ہے یہ لڑکی۔ میں اسے دیکھتا تھا تو یہ بھی مجھے دیکھ کر مسکراتی تھی۔ میں میسج بھیجتا تھا تو اس نے سیدھی طرح منع کیوں نہیں کیا؟ میں انجوائمنٹ چاہتا ہوں تو یہ بھی کوئی نیک پروین نہیں ہے۔ یہ بھی ویسی ہی انجوائمنٹ چاہتی ہے۔‘‘
زلیخا اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ حسن سے بولی: ’’چلو حسن۔‘‘
حسن نے ہاتھ میں پکڑا کباب طشتری میں پٹخا اور ارسلان سے بولا: ’’جا رہے ہیں ہم۔ باورچی کو کھانے کے پیسے دے دینا۔‘‘
یہ سن کر ارسلان اتنی تیزی سے کھڑا ہوا کہ کرسی پیچھے گر پڑی۔ تیزی سے بولا: ’’میں کیوں پیسے دوں؟ میں نے فلم کی ٹکٹس کے پیسے دیے تھے اور کھانے کے لیے تو تم لوگوں نے کہا تھا۔ تم پیسے دو۔‘‘
زلیخا نے تحمل سے حسن سے کہا: ’’پیسے دے دو حسن۔‘‘
حسن بولا: ’’میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔‘‘
زلیخا نے حیران ہو کر حسن کو دیکھا۔ ’’کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے خود تمہیں۔۔۔‘‘
ارسلان غصے سے بولا: ’’میرے پاس بھی پیسے نہیں ہیں۔ جاب لیس ہوں میں آج کل۔‘‘
حیران کھڑی زلیخا بول اٹھی: ’’لیکن تم نے تو کہا تھا ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب ہے تمہاری۔‘‘
حسن بے اختیار پکار اٹھا: ’’اخاہ! تو کوڑی پیسہ پاس نہیں اور چلے ہیں عشق لڑانے؟ میاں صاحبزادے، بے زر عشق ٹیں ٹیں مثل مشہور ہے، ہنوزدلی دور ہے۔‘‘